جمہوری قدروں کی پاسباں حکومت


موجودہ حکومت کی پالیسیوں سے اختلاف لاکھ سہی مگر ایک بات سامنے آئی ہے کہ وہ جمہوریت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کا اعتراف بھی کر رہی ہے۔

گزشتہ دنوں دو سو آٹھ ارب کے قرضے جو صنعتی مالکان کو معاف کیے گئے اس پر سوشل میڈیا اور دیگر میڈیاز نے حکومت پر سخت تنقید کی۔ بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ تنقید کے تیروں کی بارش کا آغاز کر دیا گیا یہ سلسلہ اس وقت تھما جب عمران خان نے اس کا نوٹس لے لیا اب معلوم ہواہے کہ معافی کا حتمی فیصلہ عدالت عظمیٰ کرے گی اور وہ جو بھی کرے منظور ہو گا۔

ماضی کی حکومتوں میں جمہوریت نام کی کوئی چیز نہیں تھی ان کے فیصلے ایک بار کر دیے گئے تو واپس نہیں ہوئے تھے اِکا دُکا کوئی فیصلہ بھی کیا ہو گا مگر مجموعی طور سے وہ اپنی جگہ ”ثابت قدم“ رہتیں یہی وجہ تھی کہ عوام کی اکثریت ان سے سخت نالاں تھی اور تبدیلی کے حق میں تھی مگر اب جب نئی حکومت قائم ہوئی ہے تو بھی وہ کسی اور تبدیلی کے لیے خواہش کا اظہار کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں کیونکہ حکومت نے ابھی تک ان کے بنیادی مسائل حل نہیں کیے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ سخت اقدامات کرنا حکومت کی مجبوری ہے وجہ اس کی یہی ہے کہ قومی معیشت کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کا تقاضا ہے کہ ملکی وسائل پر انحصار کیا جائے تاکہ بیرونی قرضوں سے جان چھڑوائی جا سکے۔

بہر حال حکومت سے غلطیاں اور کوتاہیاں ہوں گی مگر اس کی سیاسی بقاء اس میں ہے کہ وہ انہیں تسلیم کرتے ہوئے دور کرے جیسا کہ اب وہ کر رہی ہے۔ پولیس تشدد کیس ہو یا خاتون کانسٹیبل کا واقعہ وہ جمہوری عمل کو آگے بڑھاتے ہوئے اس میں دلچسپی لے رہی ہے اور کسی قسم کا کسی پر سیاسی دباؤ نہیں ڈال رہی ہے!

میاں اسلم اقبال نے درست کہا کہ عدالت کے فیصلے میں وہ مداخلت نہیں کر سکتے ہاں محکمے کی طرف سے کوئی زیادتی ہوئی تو قانون کے مطابق کارروائی ہو گی۔ اس سے زیادہ جمہوری نظام کو فروغ دینے کی مثال نہیں ملتی۔ مگر اس کے با وجود حکومت اور اس کے ما تحت اداروں کی جانب سے عوام کے ساتھ تھوڑا بہت غیر جمہوری رویہ نظر آ رہا ہے۔ شاید ابھی یکسر وہ تبدیل نہ ہو سکے کیونکہ وارث شاہ عادتاں نا جاندیاں نیں۔ بھاویں کٹیے پوریاں پوریاں لہٰذا آنے والے اگلے چند ماہ یا برسوں میں حکومت ”بدل“ چکی ہو گی کیونکہ اگر وہ ایسا نہیں کرتی تو آئندہ عام انتخابات میں اسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ خیر پی ٹی آئی جہاں کچھ غلط کر رہی ہے تو وہاں وہ اپنی اصلاح بھی کر رہی ہے۔

ویسے یہ بات بھی قابل غور و فکر ہے کہ عمران خان کو بعض معاملات میں کچھ علم نہیں ہوتا تو وہ فی الفور کارروائی کرتے ہیں۔

یہ کیا ہے؟ کیا عمران خان کو اس کے ساتھی جن کا تعلق طبقہ اشرافیہ سے ہے انہیں عوام کی نظروں سے گرانا چاہتے ہیں تاکہ وہ اگلے انتخابات میں اپنے طبقے کو اقتدار میں لا سکیں یہ کہہ کر کہ تبدیلی والوں نے تو کچھ نہیں کیا اب وہ ان کے لیے کچھ کر سکتے ہیں جبکہ یہی طبقہ اقتدار میں رہا ہے اور اب جو قرضہ لینا پڑ رہا ہے اور دینا پڑ رہا ہے اس نے مہنگائی کو آسمان تک پہنچا دیا ہے اور عوام ہیں کہ عمران خان کو اس کا ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں کچھ قصور وار حکومت بھی ہو گی مگر یہ طے ہے کہ پچھلا دور قرضوں کے حصول کا دور تھا جس میں معیشت کو درست سمت لے جانے کے بجائے بھول بھلیوں میں ڈالا گیا اور اب وہ صحیح راستے پر گامزن ہوئی ہے تو لوگوں کو عجیب اور نا خوشگوار محسوس ہو رہا ہے مگر یہ گھڑیاں بیت جائیں گی۔

نیا دور آ جائے گا۔ زندگی ایک نئے انداز سے بسر ہونے لگے گی۔ ابھی تک تجزیہ یہی کہتا ہے اور اگر حالات بہتر نہیں ہوتے تو پھر عوام نئے سیٹ اپ کی آرزو نہیں کریں گے نیا نظام مانگیں گے جسے جاگیرداروں اور سرمایہ داروں نے اپنی حکمت عملیوں اور عیاریوں سے آنے سے روک رکھا ہے جس سے عوام کی حالت خراب ہوتی جا رہی ہے اور تبدیلی کے دعویداروں کے لیے آگے بڑھنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔

یہ جو پولیس سے متعلق دلخراش واقعات رونما ہو رہے ہیں جاگیردارانہ رویوں کے عکاس ہیں اس کا تسلسل جاری و ساری ہے کیونکہ پولیس خود کو تبدیل نہیں کر رہی وہ ظلم و ستم ڈھانے کی عادی ہو چکی ہے اس کے مزاج میں آمریت رج بس گئی ہے اس کی تسکین کمزوروں کو دبا کر اور ان پر تشدد کر کے ہوتی ہے۔ اندھی توانائی نے انہیں ایک طرح سے وحشی بنا دیا ہے۔ لہٰذا وہ غریب عورتوں کی دیکھتی ہے نہ بچوں اور بوڑھوں کو اس طرح ریاست کے لیے مشکلات جنم لے سکتی ہیں۔

بلکہ لے رہی ہیں عوام کی غالب اکثریت ریاستی اداروں سے نفرت کرنے لگی ہے وہ کہتی ہے کہ ریاست اپنی بنیادی ذمہ داریوں سے تو عہدہ برا نہیں ہو رہی تھی الٹا اس نے مظالم ڈھانا شروع کر دیا ہے۔ یہ صورت حال انتہائی خوفناک ہے اب جب ہماری سرحدوں پر خطرات منڈلا رہے ہیں حکومت کو سنجیدگی سے ایسے اہلکاروں اور اداروں کے بارے میں سوچنا ہو گا جو عوام اور حکومت کے مابین فاصلے پیدا کرنا چاہتے ہیں؟

آئی جی پنجاب نے تو یہ حکم جاری کیا ہے کہ جس تھانے میں تشدد ہو گا اس کے ایس ایچ او کو بلیک لسٹ کر دیا جائے گا مگر انہیں اس سے آگے جانا ہو گا یہ معمولی سزا ہے وہ اپنا وجود کسی نہ کسی طور ضرور منوائے گا بہر کیف سوشل میڈیا و دیگر میڈیاز اپنے فرائض سے غافل نہیں اور عوامی رد عمل ظاہر کر رہے ہیں جس سے جمہوریت کو تقویت مل رہی ہے اور یہ حکومت کی اعلیٰ ظرفی بھی ہے کہ وہ ہر پہلو سے جمہوری اقدار کی پاسداری کر رہی ہے جہاں جہاں اسے کوئی خلا نظر آتا ہے وہ اسے بہ احسن طریق پُر کرتی چلی جا رہی ہے پس یہی ہوتا ہے گڈگورننس اور بیڈ گورننس میں فرق۔ امید کی جا سکتی ہے کہ حکومت تھانہ کلچر کے ساتھ معاشی و سماجی کلچر تبدیلی کرنے کے لیے اپنا آئینی قانونی اور اخلاقی فرض پورا کرے گی اور عوام کو ایک نئے دور میں لے جا ئے گی۔ !

بقول نواب ناظم:

زندگی کی جراتوں کی روشنی درکار ہے

آندھیوں کے سر پہ روشن کر جسارت کے چراغ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).