بھائیوں نے بیس سال اپنی بہن کو قید میں رکھا



کل شب ٹی وی پہ منظر دیکھا کہ دو بھائیوں نے بیس سال اپنی بہن کو قید میں رکھا ۔اُس وقت روح کانپ جانا تو معمولی سی بات تھی زمین و آسماں کانپتے ہوئے معلوم ہوئے ! سوچتا ہوں نائلہ زندہ کیسے رہی ؟ اور کیوں رہی ؟اس کو موت کیوں نہ آئی؟ اس نے خود کی جان کیوں نہ لی؟ زمین و آسمان کیوں چپ رہے؟چرند پرند کیوں نہ بولے؟ اس کمرے کے درو دیوار کیوں چپ رہے؟ اور تو اور اس بستی کے بے زبان انسان کیوں چپ رہے ؟

جس قید کو نائلہ نے برداشت کیا اس قید میں کوئی صرف کچھ دن رہ لے تو مر جائے ، بیس سال ، کہنے میں تو دو دہائیاں ہیں لیکن ذرا تصور کیجے اتنا عرصہ اس نے ایک ایسے بند کمرے میں گزارا ، جس میں روشنی کا کوئی امکان نہیں ، ہوا آتی بھی ہے تو رک رک کے آتی ہے ، سانس لینا بھی ٹھیک سے میسر نہیں ، اس چھوٹے سے کمرے میں ہر سو سناٹا ہی سناٹا ہے ، بات کرنے کو کوئی میسر نہیں ، در و دیوار بھی خاموش تماشائی بنے ہوئے ، وہ ناچار کہیں بولتی بھی تو اُس کی آواز اس کمرے کے عرش و فرش سے ٹکرا کر واپس اُسی کے کانوں میں جا گونجتی ۔

نائلہ کے بیس سال مسلسل ایک بند کمرے میں گزر گئے ۔ گزرتے بھی کیسے نہ ؟ نائلہ کا بھائی جو زندہ تھا ۔ ہر روز اس بند کمرے میں جاتا ، دروازہ کھولتا ،کھانا اندر پھینکتا اور واپس پلٹ جاتا ۔ اس کے بھائی نے کبھی اندر نہیں دیکھا کہ اس کی بہن زندہ ہے یا مر گئی ؟ پورے بیس سالوں میں کوئی دن ایسا نہ تھا جس دن وہ اس کمرے میں نہ گیا ہو اور اس نے کھانا نہ پھینکا ہو! شاید آپ کو احساس نہیں کہ یہ عرصہ کتنا بڑا عرصہ ہے ، بیس سال میں 240 مہینے ہوتے ہیں ، 240 مہینوں میں 960 ہفتے اور ان ہفتوں میں سات ہزار دو سو (7200) دن ہوتے ہیں ۔ سات ہزار دن ! آپ کو خوب تجربہ ہو گا کہ کسی بھی مشکل میں ایک منٹ کئی گھنٹوں کے برابر لگتا ہے تو نائلہ کی مصیبت کے 20 سال کتنے عرصے کے برابر ہونگے ؟

جب اے آر وائی نیوز کے اینکر اور پولیس نے موقع پر ہی نائلہ کے ایک بھائی کو پکڑ لیا تو اینکر نے پوچھا، تمہیں ذرا بھی شرم نہ آئی ، ذرا بھی رحم نہ آیا انسانیت کی تذلیل کرتے ہوئے تو نائلہ کے بھائی نے کہا ، بھئی آپ لحاظ سے بات کریں نا ۔ میں سوچتا ہوتا ہوں کہ میرا دل بہت ہی کمزور دل ہے لیکن اگر میں اُس وقت وہاں ہوتا تو شاید میں اُس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیتا ،مجھے ذرا بھی رحم نہ آتا
اور نہ ہی مجھے کوئی ذرا بھر بعد میں افسوس ہوتا ۔ ، انسان نما حیوان تو نے اپنی بہن پہ جو ظلم کیا وہ شاید عالم میں کسی نے نہ کیا ہو اور تو بات کرتا ہے لحاظ کی، تیرے ساتھ اب کسی قسم کا کوئی بھی لحاظ انسانیت کی توہین ہے ۔

لوگ بڑے زور سے کہتے ہوتے ہیں جب کوئی ریاست کیخلاف جاتا ہے تو ریاست کا کسی بھی قسم کا اقدام جائز و ضروری ہوتا ہے ، میں پوچھتا ہوں جب ریاست اپنے باشندوں کی جان و مال و عزت کی حفاظت نہیں کر سکتی تو پھر ریاست کیسی ؟ جب ریاست اپنے باشندوں کا خیال تک نہیں کرتی تو پھر اس کے باشندے کیوں اس کی عزت کا خیال کریں ؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).