کراچی سے نیویارک تک: جالے اور دُھواں


نیویارک، نیویارک، نیویارک، میں نیویارک کا اسیر ہوکر رہ گیا کہ وہاں کی ہر چیز مجھے اچھی لگنے لگی۔ نیویارک میں، میں نے اپنے راستے بنالیے۔ مجھے کراچی یاد ضرور آتا مگر کراچی جانے کی خواہش نہیں تھی۔ بچپن کی خوبصورت یادوں میں میری جوانی کے کراچی کی بھیانک تصویر تھی۔ میں افسوس کرتا، سوچتا رہتا کہ یہ سب کچھ کیوں کیا میں نے، ہم دونوں نے؟ میرے خوابوں میں وہ معصوم چہرے، وہ لٹے ہوئے بازار، وہ جلی ہوئی کاریں، وہ دہشت زدہ آنکھیں آتیں۔

مجھے اباجان کی باتیں یاد آتیں، وہ مہربان چہرہ، وہ خاموش آنکھیں، وہ التجا کہ ”اس کام میں کچھ نہیں رکھا ہے۔ “ پھر یکایک وہ سرخ طویل قالین کھلتا چلا جاتا، ایک ایک کرکے اس کے بل ختم ہوتے، اس میں سے باری باری کٹے ہوئے جسم کے ٹکڑے نکلتے اورآخر میں جمال بھائی کا کٹا ہوا سر، کھلی ہوئی آنکھیں، لٹکی ہوئی زبان کے ساتھ۔

کبھی کبھی رات ایک طویل لمبی چیخ کی طرح گزرتی تھی۔

اقبال اور ربیکا نے شادی کا فیصلہ کرلیا، میں نے امی سے کئی دفعہ فون پہ طویل باتیں کیں۔ ان کا تو یہی خیال تھا کہ اب ساری بہنوں کی شادی کے بعد اقبال کراچی آئے گا، پھر ان کی پسند کی کسی خوبصورت سی لڑکی سے اس کی شادی ہوگی۔ اقبال نے کبھی بھی ایسا نہیں سوچا تھا۔ اسے نیویارک میں رہنا تھا، کسی امریکن سے ہی شادی کرنی تھی۔ اسے ربیکا مل گئی جو اس سے محبت کرتی تھی، ساتھ چلنا چاہتی تھی تو ہمیں کیا اعتراض ہوسکتا تھا۔

مجھے تو کسی بھی قسم کا کوئی اعتراض نہیں تھا۔ ربیکا تھی ہی ایسی۔ امریکی لڑکیوں کے بارے میں جو قصے سنے تھے، وہ ان سے بالکل مختلف کسی گھریلو لڑکی کی طرح تھی۔

اقبال کو وہ نیویارک میں ہی ملی تھی۔ اقبال نے کمپیوٹر کا ایک کورس کیا۔ ربیکا بھی اس کورس میں تھی۔ دونوں کی جان پہچان ہوئی جو دوستی میں بدلی پھر محبت ہوگئی۔ ربیکا کے گھر والوں کے لیے بھی یہ ایک ناقابلِ قبول خبر تھی۔

پاکستان کے کسی غیرمعروف گھر کا ایک مسلمان لڑکا جو ذہین تو تھا مگر اس کا امریکا یا نیویارک میں کچھ بھی نہیں تھا، نہ کوئی خاندان، نہ وراثت میں ملی ہوئی لامحدود جائیدادیں اور نہ ہی نیویارک میں کوئی ایسا کام جس میں کروڑوں کی آمدنی ہورہی ہو۔

ربیکا کی ضد کے بعد اس کے گھر والے بھی راضی ہوگئے اور کراچی میں امی کو راضی کرنا مشکل ثابت نہیں ہوا۔ دونوں کی شادی نیویارک میں ہوگئی۔ ایک نکاح مسجد میں، کچھ دستخط سٹی کونسل کے رجسٹری آفس میں اور ایک چھوٹی سی تقریب ایک ہوٹل میں۔ دونوں ہنی مون کے لیے جمیکا چلے گئے تھے۔

زندگی مزید خوبصورت ہوگئی۔ ربیکا اور اقبال کا پیار بھرپور تھا، ان کے ساتھ گزرے ہوئے لمحے مسحور کن تھے۔ میں آہستہ آہستہ اقبال کے قریب آگیا۔ عجیب قسم کے تعلقات تھے ہم دونوں کے۔ وہ کسی بڑے کی طرح مجھے ہدایات دیتا، مجھے سمجھاتا پھر ساتھ ہی مجھے بڑے بھائی کی طرح اپنا سرپرست بھی سمجھتا تھا۔ جمال بھائی کو کھونے کے بعد اب وہی تو ایک میرا ایسا بھائی رہ گیا تھا جس سے میں باتیں کرسکتا، اپنے مسئلوں کے بارے میں، گھر کے مسائل کے سلسلے میں، اس سے سب باتیں ہوسکتی تھیں۔

وہ مجھے قابل بھی بڑا لگتا۔ مجھ سے چھوٹا ہونے کے باوجود ایک مخصوص قسم کی عزت تھی اس کی میرے دل و دماغ میں۔ وہ باتیں کرتا، دنیا جہان کی باتیں۔ غریب اور امیر قوموں کی باتیں۔ چین، روس، امریکا تعلقات کے بارے میں، کشمیر میں جاری آزادی کی تحریک کی صورتِ حال، یہودیوں کی تاریخ اور فلسطین کے مسئلے میں، امریکا اور برطانیہ کے کردار کے بارے میں اسے سب کچھ پتا ہوتا۔ ربیکا کو بھی ساری باتوں میں ویسی ہی دلچسپی ہوتی تھی۔ دونوں ذہین تھے، شاید ایک دوسرے کے لیے ہی بنائے گئے تھے۔ مجھے انہیں دیکھ کر، ان سے مل کر ایک عجیب سی خوشی ہوتی تھی۔

پھر یکایک وہ سب کچھ ہوگیا۔ صبح میں اپنے کام پہ پہنچا ہی تھا کہ وہ منحوس خبر آئی کہ ایک کے بعد ایک کرکے دو جہاز ورلڈ ٹریڈ سینٹر سے ٹکراگئے ہیں۔ دونوں بلڈنگوں میں آگ لگی ہوئی ہے، اقبال بھی تو ٹریڈ سینٹر میں کام کرتا تھا، وہ بھی تو عادتاً صبح سویرے اپنے وقت سے بھی پہلے اپنے آفس پہنچ کر کام شروع کردیتا تھا۔

میں دیوانوں کی طرح اپنے اسٹور سے بھاگا۔ شہر پہنچ کر مین ہٹن کے علاقے میں کسی نہ کسی طرح ٹریڈ سینٹر پہنچنے کی کوشش کرتا رہا۔ مجھے ربیکا کا خیال آتا رہا اور نجانے کتنے فون کیے تھے میں نے گھر کے فون پہ، سیل فون پہ۔ کوئی جواب نہیں تھا کسی بھی جگہ سے۔ میں پارے کی طرح بے قرار کبھی ایک گلی تو کبھی دوسری گلی، دھواں مٹی نگلتا ہوا نجانے کہاں کہاں اسے تلاش کرتا رہا۔

دھویں اورمٹی میں لپٹے ہوئے نیویارک میں سڑک کے کنارے میرے ذہن میں طوفان چل رہے تھے، ایک دفعہ پھر ایک لاش میرے پاس تھی۔ میں نے جمال کے بارے میں سوچا، اس کی لاش بھی تو میرے پاس آئی تھی، میں نے ہی دفن کے لیے تیار کیا تھا اسے، اپنے ہاتھوں سے آخری نماز کے لیے۔ بڑے سے سوئے میں موٹا سا کالا دھاگا پروکر سر کو گردن سے سیا، دھڑ کو ٹانگوں سے، بازوؤں کو سینے کے دونوں جانب، کہنوں سے ہاتھ ملا کر اور دونوں پیروں کو پنڈلیوں سے جوڑ کر ٹانکے لگائے تھے۔ پھر اسے نہلایا تھا۔ خوشبو لگا کر کافور کے ساتھ۔ کفن پہنا کر جنازہ اٹھایا، اپنے ہاتھوں سے نیچے قبر میں اتارا تھا اُسے میں نے۔ وہ ٹوٹا پھوٹا، کٹا ہوا جسم جب قبر کی ٹھنڈی زمین سے لگایا تھا میں نے تو لگا جیسے ٹھنڈ پڑگئی ہے دل میں، بے قراری کو کچھ قرار آیا تھا، اور پھر صبر بھی آگیا تھا۔

یہاں میں کیا کروں؟ دل میرا دل کہتا تھا کہ میں فون کروں، اپنی ماں کو فون کروں، گھر والوں کو فون کروں، دوستوں کو فون کروں، رشتے داروں کو فون کروں، ہر ایک کی گردن پکڑلوں، ان کے ماتھے کوجکڑ کر ان کے جسموں سے الجھ کر پوچھوں، ان سب سے پوچھوں ”کیوں بھیجا تھا مجھے یہاں؟ “ تم تو کہتے تھے ”سب اچھا ہے نیویارک میں، سب محفوظ ہے۔ بہت امن ہے وہاں پر۔ وہ کراچی نہیں ہے نیویارک ہے، “ کوئی جواب دے گا مجھے۔ کراچی میں تو جسم مل گیا تھا، سر، دھڑ، بازو، سب سی دیا تھا میں نے۔ اقبال تو گیس بن گیا، گیس۔ محض گیس۔ کالے سیاہ دھویں کا بادل بن کر چھا گیا، کھوگیا سب کے ساتھ۔ میں کیا کروں۔ میں کیا کروں؟

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3