کراچی سے نیویارک تک: جالے اور دُھواں


نکاح سے پہلے وہ تحفہ پہنچ گیا، لمبا سا، موٹا سا۔ کپڑے کے ایک لمبے سے اور موٹے سے تھیلے میں لپٹا ہوا۔ قالین کو تہہ نہیں کرتے ہیں گول گول رول کرکے موٹے کپڑے کے تھیلے میں پرودیا جاتا ہے۔ کسی نے دیکھا بھی نہیں کہ کون اس تھیلے کو لے کر آیا ہے۔ اس تحفے کے پہنچتے ہی ہر ایک کی توجہ اس طرف چلی گئی۔ چھوٹے سے گھر کا آنگن ہوتا ہی کتنا بڑا ہے۔ آنگن کے بیچ میں اسے ڈال دیا گیا تھا۔

رات کی جاگی ہوئی، تھکی ہوئی لڑکیاں تیار ہونے کا سوچ ہی رہی تھیں۔ چھوٹے بچے اپنے اپنے کپڑے تھامے کھڑے تھے کہ بارات کے آنے سے پہلے پہن لیں۔ عورتیں بھی سوچ رہی تھیں کہ دلہن کے بیوٹی پارلر جانے کے بعد وہ بھی تیار ہونا شروع کریں گی کہ کسی نے کہا کہ ”اسے کھول کر تو دیکھو بھلا یہ قالین ہے کیسا؟ “

میں نے ہی جھپٹ کر اوپر کی ستلیاں کھولی تھیں اورجھٹکے سے قالین کوباہر نکالنے کی کوشش کی مگر موٹا اوربھاری قالین باہر نہیں آسکا۔ شمع نے آگے بڑھ کر دوسرا کونا پکڑنے کی کوشش کی۔ جب سرا اس کے ہاتھ سے پھسل گیا توسارے ہی بچے جمع ہوگئے تھے۔ سب نے باجماعت زور سے بوری نما تھیلے کا دوسرا سرا پکڑلیا۔ میں نے زور لگا کرآہستہ آہستہ قالین کوکھینچنا شروع کیا تو تھوڑی سی جدوجہد کے بعد وہ جھٹکے سے باہر آگیا۔

مجھے بچپن میں دیکھی ہوئی فلم قلوپطرہ یاد آگئی جس میں بڑے سے قالین کو جب بادشاہ کے سامنے کھولا گیا تو اس میں سے خوب صورت قلوپطرہ برآمد ہوئی، ہنستی مسکراتی اپنے بلاخیز حسن کے ساتھ، بادشاہ مسحور ہوکر رہ گیا تھا۔ میں بھی قالین کو جھٹکے سے کھولتا چلا گیا تھا۔ آخری بلوں کے کھلنے سے پہلے ہی بہت کچھ سامنے آگیا۔ قالین کے درمیان میں احتیاط سے رکھے کٹے ہوئے ہاتھ، کٹے ہوئے پیر، بانہیں، ٹانگیں، بالوں سے بھری ہوئی چھاتیاں، جمے ہوئے خون کے ساتھ نیچے کا دھڑ اور آخر میں کٹا ہوا جمال بھائی کا سر، جس کے منہ سے زبان باہر لٹک رہی تھی جس کی پتھرائی ہوئی آنکھیں نجانے کس کے چہرے پہ جم کر رہ گئی تھیں۔

میری تو کچھ سمجھ میں ہی نہیں آیا۔ سارے بچے نجانے کس زبان میں چیختے ہوئے بھاگے۔ کوئی گلی میں جاکر گرا، کوئی دوڑتا دوڑتا سڑک پہ جانکلا۔ ایک بچہ تو بھاگتا ہوا ایک منی بس سے جا ٹکرایا تھا۔ لڑکیوں کی چیخیں اتنی شدید کہ کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا مگر بین کی یہ آوازیں بھی میرے کانوں کو اجنبی لگی تھیں۔ بیوٹی پارلر کو جانے والی دلہن اپنے زیورات کے ڈبوں سمیت زمین پہ گر کربے ہوش ہوگئی تھی۔

امی کی شکل جیسے پتھر کی مورت ہوکر رہ گئی۔ جمال بھائی کی کٹی ہوئی گردن کے اوپر اور گہرے سیاہ بالوں کے بیچ میں جو چہرہ تھا وہ بھی اتنا ویران نہیں تھا جتنی امی کی ساکت آنکھوں نے ان کے چہرے کو بنادیا تھا۔

نجانے کتنی دیر تک سب چیختے رہے۔ نجانے کس نے چادر سے کٹے ہوئے ہاتھوں، کٹے ہوئے پیروں، دھڑ، گردن اور چہرے کوڈھانپ دیا۔ ایک لمبے کی خاموشی ہوئی جس کے بعد رونے اور سسکیوں کی آواز کے سوا کوئی آواز نہیں تھی۔

تجہیز وتکفین کے فوراً بعد سب کا اجتماعی فیصلہ تھا کہ مجھے پاکستان چھوڑ کر جانا ہوگا۔ ورنہ وہ لوگ میرا بھی یہی حشر کردیں گے۔ پاگل ہوئی ماں اور بن بیاہی بہن کو چھوڑ کر جانے کا میں نے تو سوچا بھی نہیں تھا۔ مگر حالات یہ کروٹ لے لیں گے، کسے پتا تھا؟ جمال بھائی بھی سیاست میں اتنا ہی سرگرم تھے جتنا کہ میں۔ ہم دونوں کی جوڑی تھی۔ جو کرتے ساتھ کرتے اور جب سوچتے تو ایک جیسا ہی سوچتے تھے۔ ہم دونوں نے ساتھ ہی فیصلہ کیا کہ اب کراچی میں سیاست سے کچھ خاص نہیں ہوگا۔ اب یہ وہ شہر تو نہیں جہاں ہم نے آنکھیں کھولی تھیں۔ یہ شہر بدل چکا تھا۔ گزشتہ کئی سالوں کی چیخ پکار، بھاگ دوڑ، مار دھاڑ، لوٹا لاٹی، چھینا جھپٹی کے بعد شہر اس قابل نہیں رہ گیا تھا کہ یہاں رہا جائے۔

مگر سیاست میں آنا آسان ہوتا ہے۔ یہی کہا گیا، شروع کے دنوں سے ہی، ”آئے اپنی مرضی سے ہو مگر جاؤ گے ہم سب کی مرضی سے۔۔۔“

بڑے دل فریب سال گزرے تھے وہ۔ سیاست کرنا بڑا آسان ہوتا ہے، اگر سارے ہی دوست شامل ہوں، سب میں جذبہ ہو کٹ مرنے کا اور سب تیار ہوں ایک دوسرے پہ مرنے کے لیے، مگر نجانے کیا ہوا کہ گزشتہ تمام سال ایک مسلسل چلنے والا ڈراؤنا خواب بن کر رہ گئے تھے۔

ابو کی موت یکایک ہوگئی۔ ہم دونوں گھر سے اتنے باہر رہے تھے کہ ان کی صرف وہی شکل یاد رہ گئی جس سے وہ ہم لوگوں کو ہر وقت نصیحتیں ہی کرتے رہتے تھے۔ ان کی امیدوں پہ نہیں اترے تھے ہم دونوں۔ میں نے تو کسی نہ کسی طرح میٹرک کا امتحان پاس بھی کرلیا، جمال بھائی تو اسکول سے ایسے بھاگے کہ پھر واپس لوٹ کر نہیں آئے۔ میٹرک کا سرٹیفکیٹ بہرحال مل گیا تھا۔ کراچی میں یہی ہورہا تھا، میٹرک، انٹر، بی اے ہر قسم کا سرٹیفکیٹ ڈگری مل جاتا تھا بغیر کسی امتحان کے۔

پھر میں بھی شامل ہوگیا اس کے ساتھ۔ ایک ٹیم سی بن گئی ہماری۔ شہر کے کسی علاقے میں بھی ہڑتال کرانی ہو تو ذمہ داری ہماری ہی ہوتی۔ کام یہ کوئی مشکل بھی نہیں تھا۔ صرف بے خوف ہونے کی ضرورت ہوتی ہے۔ عام لوگ تو ڈرے ہوئے ہوتے ہیں، انہیں تو پہلے ہی سے پتا ہوتا ہے کہ آج ہڑتال ہوگی۔ پہلے دیواروں پہ نعرے لکھوا دیے جاتے۔ شام کو مختلف علاقوں میں فائرنگ کروائی جاتی اور ساتھ ہی کسی منی بس، ویگن یا سرکاری گاڑی کو آگ لگادینا ہی کافی ہوتا تھا۔

ایسے کاموں میں پھرتی بہت ضروری ہے۔ تھوڑی دیر ہوئی اور کسی جاننے والے نے پہچان لیا، کسی پولیس کے آدمی نے دیکھ لیا اور کبھی ایجنسی کے لوگوں نے تاڑ لیا۔

گولی کی آواز کے ساتھ ہی لوگ بھاگ لیتے ہیں۔ گاڑیوں کے جلانے کے انتظامات تو ہوتے ہی ہیں، اوپر سے پیٹرول کی ٹنکی۔ اس کام میں ہم لوگ ماہر ہوگئے تھے۔ شہر کا کونا کونا چھانا ہوا تھا اور اپنے علاقے کے علاوہ ہر علاقے میں کوئی نہ کوئی واردات کرچکے تھے۔

مقصد کا کوئی خاص پتا نہیں تھا، سوائے اس کے کہ حکومت کو جھکانا ہے۔ حکومتیں نہیں جھکیں، مگر ہمارا خاندان جھک گیا، ٹوٹ گیا۔ ہر ہر جگہ سے، گردن سے، کمر تک جسم سے روح تک۔

بڑے بھائی صاحب گھر کا کاروبار چلارہے تھے، ابو کی پرچون کی دکان انہوں نے ہی سنبھالی تھی۔ بہنیں جوان ہوکر امی کے سر پہ بوجھ کی طرح جم کر رہ گئی تھیں۔ اقبال نے نجانے کیسے ہم دونوں کا اثر لیے بغیر کمپیوٹر سیکھ لیا۔ پھر امریکن سینٹر سے انگلش سیکھ کر یکایک امریکا چلا گیا۔

ہم دونوں نے ہی سکھ کا سانس لیا۔ کم از کم ایک تو ایسا تھا جو پڑھ لکھ گیا، جو گلیوں کی سیاست میں نہیں، جس نے ان خوابوں کو دھتکاردیا جو دیکھنے کے قابل نہیں تھے۔

ہمارے اندر کوئی تھا جو ہمیں کہتا تھا، کب تک دکانوں کے شٹر گرواتے رہو گے؟ کب تک چلتی بسوں، منی گاڑیوں کو سڑکوں پر راکھ کے ڈھیر بناؤگے؟ کب تک دکانوں، پیٹرول پمپوں، ہسپتالوں، دواخانوں سے بھتا وصول کروگے؟ کب تک، آخر کب تک؟

مگر یہ آوازیں بہت دیر سے آئی تھیں، نجانے کتنوں کے اجڑنے کے بعد، کتنے گھروں کی خوشیوں کو پامال کیا تھا ہم لوگوں نے۔ نجانے کتنے چراغ گل ہوئے، اس کا احساس نہ کبھی ہوا اور نہ ہی کسی نے کرایا۔

ابو جان کے مرنے کے بعد تو جیسے کھلی چھٹی مل گئی۔ کبھی کسی نے پوچھا نہیں کہ یہ پیسے کہاں سے آتے ہیں؟ یہ بھاری بھاری موٹرسائیکلیں، سفید اور سیاہ شیراڈ کاریں، شان سے رہنے کا انداز اور پیسے لٹانے کے یہ اطوار۔ نہ کسی نے پوچھا نہ کسی نے ٹوکا۔ گھر کے اندر بھی اور گھر کے باہر بھی۔ ہم دونوں تو یہ سمجھتے رہے کہ اس بے انصاف دنیا میں، اس ملک اور اس شہر کی یہی سچائی ہے۔ سب لوٹ رہے ہیں اپنے طریقے سے، ہم نے بھی ایک بڑے مقصد کے لیے کچھ کرلیا تو کیا کرلیا۔ کچھ پانے کے لیے کھونا بھی پڑتا ہے۔ کبھی تو وہ دن آئے گا جب انصاف ہوگا، ہم ہوں نہ ہوں مگر ہمارے گھر والوں کے لیے تو صبح ہوگی۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3