سی پیک منصوبہ: چند انتخابی سیٹیں یا خوشحال پاکستان؟


\"adnan-khan-kakar-mukalima-3b4\"

سی پیک پاکستان کی ترقی کے لئے ایک اہم منصوبہ ہے۔ اس کی وجہ سے ہمیں ”پنجاب سپیڈ“ کی بجائے چینی سپیڈ سے مختلف منصوبے تعمیر کرنے کا موقع ملے گا۔ بے تحاشا تجارت کے علاوہ، ہمیں سیاحت کے سیکٹر میں بھی کافی آمدنی ہو گی۔ آپ نے اپنے قریبی شہر میں بائی پاس روڈ بنتے دیکھی ہو گی۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ اس کے گرد بازار کتنی جلدی بن جاتا ہے اور وہاں کتنی تیزی سے مقامی تجارتی سرگرمیاں شروع ہو جاتی ہیں؟ سی پیک میں اگر انڈسٹریل زون نہ بھی ہوتے تو یہ مقامی تجارتی سرگرمیاں لازمی ہوں گی اور بے شمار لوگوں کو کاروبار کے مواقع نصیب ہوں گے۔ بے حد و حساب امیر بھی فیکٹریاں لگائیں گے اور غریب افراد کے پاس بھی اپنا چھابہ لگانے کے لئے جگہ ہو گی۔

اس اہم منصوبے پر ہمارے سیاستدانوں کی غیرسنجیدگی قابل افسوس ہے۔ نواز شریف حکومت اس کی تفصیلات کو ایسے چھپا رہی ہے جیسا کہ یہ جنگ کی صورت میں بھارت پر حملہ کرنے کا خفیہ ترین منصوبہ ہو۔ مانا کہ کچھ دستاویزات ایسی ہوں گی جنہیں پبلک نہیں کیا جا سکتا ہے۔ لیکن کیا اہم قومی لیڈروں کو بھی وہ دکھانا مناسب نہیں ہے؟ کیا پارلیمنٹ کی کوئی توقیر ہے یا اس حکومت کو بھی سکھا شاہی آمریت سمجھا جائے؟

وصی بابا صاحب اپنے آج کے کالم ”سی پیک: ایک بہت مشکل لیکن آسان منصوبہ“ میں تحریر کرتے ہیں کہ ”نوازشریف توانائی منصوبوں کو مکمل کر کے پنجاب سے لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ یہ ان کی الیکشن مہم کو فائدہ دے گی۔ یہی فائدہ سندھ میں پی پی کو وہ نہیں دینا چاہتے۔ سندھ میں بجلی منصوبے تو شائد بروقت بن جائیں لیکن اس بجلی کو لے جانے والی ٹرانسمشن لائن لیٹ کر دی گئی ہے۔ پنجاب میں بننے والے ایل این جی منصوبوں کے لئے گیس لائینوں کے موجودہ سیٹ اپ کو استعمال کرنے پر سندھ حکومت نے اعتراض داغ رکھا ہے۔ مقصد ان کا بھی یہی ہے کہ الیکشن کا فائدہ نہ لینے دیا جائے مسلم لیگ نون کو۔ دونوں بڑی جماعتیں ایک الیکشن جیتنے کی خاطر پاکستان کو پہنچنے والے نقصان کی پروا نہیں کر رہی ہیں“۔

پیپلز پارٹی اور نواز شریف پر غصہ بجا کہ وہ برا کر رہے ہیں۔ چند انتخابی سیٹوں کے لئے یہ پورے ملک کے مستقبل سے کھیلتے دکھائی دے رہے ہیں۔ مگر تحریک انصاف کا رویہ تو باقاعدہ قابل مذمت ہے۔ پرسوں کی روزنامہ جنگ کی خبر دیکھیں۔

\"asad-qaisar\"

خیبرپختونخوا اسمبلی کے سپیکر اسد قیصر نے روزنامہ جنگ کو بتایا ہے کہ چینی سفیر نے چند روز قبل وزیر اعلی خیبر پختونخوا پرویز خٹک سے ملاقات کی ہے جس میں انہوں نے خیبر پختونخوا کی حکومت کو سرکاری طور پر بتایا ہے کہ سی پیک کا کوئی مغربی روٹ نہیں ہے بلکہ جس کو مغربی روٹ قرار دیا جا رہا ہے وہ اقتصادی راہداری کا حصہ ہی نہیں۔ دوسری طرف وزیر اعلی پرویز خٹک کی زیر صدارت صوبائی وزرا کا ایک ہنگامی اجلاس منعقد ہوا جس میں شہرام ترکئی، نشاط فرمان، سپیکر اسد قیصر، عاطف خان اور دوسرے وزرا نے شرکت کی۔ اس میں صوبائی حکومت نے فیصلہ کیا کہ اب اقتصادی راہداری کے حوالے سے وفاق کی کسی بات پر اعتبار کرنے کی بجائے مغربی روٹ کو اس وقت مانا جائے گا جب چینی حکومت خود مغربی روٹ کا اعلان کرے گی۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ تمام اضلاع میں تمام اضلاع میں احتجاجی مظاہروں اور جلسوں کا انعقاد کیا جائے گا اور کل جماعتی کانفرنس بلائی جائے گی۔

اس پر کل چینی سفارت خانے کے ترجمان نے باقاعدہ جواب دیا ہے۔ چینی عام طور پر عوامی بیانات دینے کے قائل نہیں ہیں۔ وہ اہم معاملات کو بند کمروں میں طے کرنے کے عادی ہیں تاکہ جذبات کا شکار ہوئے بغیر معاملات کو منطقی انداز میں طے کیا جا سکے۔ مگر پرویز خٹک اور اسد قیصر صاحبان کے ان متنازع بیانات پر ان کو ایک عوامی بیان جاری کرنا پڑا ہے۔ چینی سفارت خانے کے ترجمان نے انتہائی واضح الفاظ میں خیبر پختوانخوا کی حکومت کے بیان کی تردید کی ہے۔

\"china-ambassador-sun-weidong\"

چینی سفارت خانے کے ترجمان نے کہا ہے کہ بارہ نومبر 2015 کو سی پیک کی پانچویں مشترکہ کوآرڈینیشن کمیٹی کے اجلاس میں ”اقتصادی راہداری میں کئی راستے“ نامی اصول کی منظوری دی گئی تھی جس کے مطابق پورے پاکستان خاص کر مغربی اور شمال کے علاقوں کی سماجی و معاشی ترقی کو براہ راست فائدہ پہنچے گا اور گوادر بندرگاہ کے لئے موثر رابطوں کا نظام فراہم کیا جائے گا۔ برہان، ڈیرہ اسماعیل خان اور کوئٹہ کے راستے سہراب جانے والی شاہراہ سی پیک کے اہم مقامات کو ایک دوسرے سے منسلک کرنے میں اہم کردار ادا کرے گی اور پاکستان کے مغربی علاقوں کو بھی منسلک کرے گی۔ چینی سفارتخانے نے چین کے سفیر سن ویڈونگ کی وزیراعلی خیبر پختونخوا سے اقتصادی راہداری کے مغربی روٹ سے متعلق بات چیت سے متعلق خبر کو سراسر غلط اور حقائق سے کے منافی قرار دیتے ہوئے اپنے وضاحتی بیان میں کہا ہے کہ مغربی روٹ سے متعلق شائع ہونے والی خبر سراسر غلط اور حقائق کے منافی ہے جس میں یہ کہا گیا تھا کہ چینی سفیر نے وزیراعلی خیبرپختونخوا اور صوبائی حکومت کو بتایا کہ اقتصادی راہداری میں مغربی روٹ موجود ہی نہیں۔ ترجمان نے کہا کے اقتصادی راہداری پورے پاکستان کے لئے ہے اور پاکستانی عوام جن میں ملک کے مغربی علاقوں میں بسنے والے افراد شامل ہیں، کو بھی فوائد حاصل ہوں گے۔

اس پر پرویز خٹک صاحب نے فرمایا ہے کہ چینی سفیر نے خود اعتراف کیا تھا کہ مغربی روٹ پاک چین اقتصادی راہداری کا حُصہ نہیں ہے اور نہ ہی اس کے لئے کوئی فنڈز مختص کیے گئے ہیں۔ اس پر انہوں نے چینی سفیر سے کہا کہ اگر مغربی روٹ سی پیک کا حصہ نہیں تو ہم راہداری کو ہزارہ سے گزارنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ سفارتخانہ مبہم بیان کی بجائے صوبائی حکومت کو تحریری طور پر آگاہ کرے کہ کہا مغربی روٹ سی پیک کا حصہ ہے یا نہیں؟ انہوں نے کہا کہ وہ اپنے موقف پر قائم ہیں کہ چینی سفیر نے چند ماہ قبل ملاقات میں اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ مغربی روٹ پاک چین اقتصادی منصوبے کا حصہ نہیں اور نہ ہی اسے حصہ بنایا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم آل پارٹیز کانفرنس بلا کر ہمیں مطمئن کریں۔

\"pervez-khattak\"

غور کریں۔ اسد قیصر صاحب چینی سفیر کی پرویز خٹک صاحب سے ”چند روز“ پہلے ہونے والی ملاقات کا تذکرہ کر رہے ہیں اور چینی سفارت خانے کی تردید آنے کے بعد پرویز خٹک صاحب نے فرمایا ہے کہ یہ ملاقات ”چند ماہ“ قبل ہوئی تھی۔

سوال یہ ہے کہ کیا تحریک انصاف کو بین الاقوامی معاملات کی نزاکت کا ذرا سا بھی احساس ہے؟ کیا ان کو یہ علم ہے کہ وہ چند انتخابی سیٹوں کی خاطر پاکستان کے لئے ایک اہم ترین منصوبے کو خطرے میں ڈال رہے ہیں؟ دھرنے کے دوران بھی اطلاعات ملی تھیں کہ سی پیک کے سلسلے میں چینی صدر کے دورے کے لئے مناسب ماحول فراہم کرنے کے لئے چینی سفارتکاروں کی عمران خان اور دیگر لیڈروں سے کچھ ملاقاتیں ہوئی تھیں جس کے بعد چینی سفارتکاروں کو قول و فعل کے معاملے میں شدید مایوسی ہوئی تھی۔

دھرنے کے دنوں میں اسلام آباد کے سیاسی حلقوں میں ان دنوں یہ خبر چل رہی تھی کہ یورپی ممالک کے سفیروں کو تحریک انصاف نے یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ ریڈ زون میں نہیں جائیں گے۔ چلے گئے۔ یورپی ناراض ہو گئے۔ پھر چینی صدر کے دورے کے سلسلے میں چین کو سیکیورٹی کے بارے میں تحفظات تھے کہ ریڈ زون میں دھرنا تھا۔ روایت ہے کہ عمران خان صاحب نے ان سفارت کاروں کو چینی صدر کو تحفظ فراہم کرنے کی یقین دہانی کروائی تھی۔ سفارت کاروں کی طرف سے پوچھا گیا کہ کیا پی ٹی وی پر حملہ آپ نے کروایا تھا؟ سنا ہے کہ انہوں نے جواب دیا کہ نہیں، کارکنوں نے خود کیا تھا۔ اس پر چینی صدر کا دورہ ملتوی کر دیا گیا کہ کارکن تو بس وہی کرتے ہیں جو کہ ان کے دل میں سماتی ہے اور وہ اپنے لیڈر رتی برابر کی پروا نہیں کرتے ہیں۔ یا ممکن ہے کہ انہوں نے سوچا ہو کہ لیڈر کے قول و فعل میں کچھ مسئلہ ہے اور دورہ ملتوی کر لیا جائے تو مناسب ہے۔

یادداشت کے معاملے میں چینی بھی ہاتھی ہوتے ہیں۔ سامان سو برس کا کرتے ہیں اور پل کی خبر رکھتے ہیں۔ دھرنے کو ابھی وہ بھولے نہیں ہوں گے کہ اس وقت تحریک انصاف والے ان کو سرعام جھوٹا قرار دے رہے ہیں۔ اور اسے ڈھٹائی نہیں کہا جائے گا تو اور کیا کہا جائے گا کہ چینی سفارتخانے نے واشگاف الفاظ میں بتا دیا ہے کہ ”بارہ نومبر 2015 کو سی پیک کی پانچویں مشترکہ کوآرڈینیشن کمیٹی کے اجلاس میں \’اقتصادی راہداری میں کئی راستے\’ نامی اصول کی منظوری دی گئی تھی جس کے مطابق پورے پاکستان خاص کر مغربی اور شمال کے علاقوں کی سماجی و معاشی ترقی کو براہ راست فائدہ پہنچے گا اور گوادر بندرگاہ کے لئے موثر رابطوں کا نظام فراہم کیا جائے گا۔“

غالباً یہ ایک بہت ہی کمیاب واقعہ سمجھا جائے گا جس میں چینی سفارت کاروں کی طرف سے سرکاری طور پر پاکستان یا دنیا کے کسی لیڈر کو جھوٹا کہا گیا ہو۔ سفارت خانے کے ان الفاظ پر غور کریں ”دینی سفارتخانے نے چین کے سفیر سن ویڈونگ کی وزیراعلی خیبر پختونخوا سے اقتصادی راہداری کے مغربی روٹ سے متعلق بات چیت سے متعلق اس خبر کو سراسر غلط اور حقائق سے کے منافی قرار دیا ہے جس میں یہ کہا گیا تھا کہ چینی سفیر نے وزیراعلی خیبرپختونخوا اور صوبائی حکومت کو بتایا کہ اقتصادی راہداری میں مغربی روٹ موجود ہی نہیں۔“

\"cir-belt-road\"

پرویز خٹک صاحب اگر چینی سفارت خانے کا واشگاف بیان سننے کے بعد بھی اسے مبہم الفاظ قرار دے رہا ہے تو سبحان اللہ۔ دوسری طرف پرسوں کی خبر کے مطابق ”اس (کابینہ کے اجلاس) میں صوبائی حکومت نے فیصلہ کیا کہ اب اقتصادی راہداری کے حوالے سے وفاق کی کسی بات پر اعتبار کرنے کی بجائے مغربی روٹ کو اس وقت مانا جائے گا جب چینی حکومت خود مغربی روٹ کا اعلان کرے گی“۔ اب جبکہ چینی سفارت خانے نے خود مغربی روٹ کا اعلان کر دیا ہے تو تحریک انصاف کی صوبائی حکومت کے سربراہ کا اب یہ بیان ہے کہ ”چینی سفیر نے چند ماہ قبل ملاقات میں اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ مغربی روٹ پاک چین اقتصادی منصوبے کا حصہ نہیں اور نہ ہی اسے حصہ بنایا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم آل پارٹیز کانفرنس بلا کر ہمیں مطمئن کریں“۔

خٹک صاحب ایک مرتبہ ذہن بنا لیں کہ وہ وزیراعظم نواز شریف صاحب کی بات پر اعتبار کریں گے یا چینی حکومت کی؟ ہر روز بے اعتبار ہونا ان کو چین کے علاوہ باقی دنیا میں بھی یوٹرن کے لئے مشہور کر دے گا۔

\"cpec_zpscjmhmmmt\"

تحریک انصاف کی حکومت کے اس رویے کو دیکھتے ہوئے وہ مشہور زمانہ سردار صاحب یاد آ رہے ہیں جنہوں نے سو روپے کا لاٹری کا ٹکٹ خریدا تھا۔ ان کا دس کروڑ کا انعام نکل آیا۔ لاٹری والوں کے پاس پہنچے کہ دو میرے دس کروڑ۔ لاٹری والوں نے کہا کہ پانچ کروڑ آپ کو ابھی ملیں گے اور اس کے بعد پانچ سال تک ہر سال ایک کروڑ ملا کرے گا۔ سردار صاحب شدید خفا ہوئے، کہنے لگے کہ پھر میں تم لوگوں سے کاروبار نہیں کرتا ہوں، یہ لو اپنا ٹکٹ پکڑو اور میرے سو روپے واپس کرو۔

چینیوں نے پاکستان کو بھی سو روپیہ واپس کر دیا تو سواد آ جائے گا۔ ان کے پاس متبادل روٹس کی آپشن بھی موجود ہے۔

بہرحال تحریک انصاف کی صوبائی حکومت کی حماقتیں اپنی جگہ، لیکن اس منصوبے میں جس حد تک ممکن ہو، نواز شریف صاحب کو شفافیت لانی ہو گی۔ ورنہ اس کا بھی کالا باغ ڈیم بن جائے گا۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments