دیوار سے سر پھوڑ کر مارنے والے استاد اور تماشائی والدین


پچھلے دنوں کی بات ہے۔ ہاسٹل کی مصروف اور تھکا دینے والی زندگی سے فراغت کے کچھ دن میسر آئے تو ہم نے بھی بھاگم بھاگ گھر کی راہ لی۔ خوش قسمتی سے گھر کو جانے والی آخری بس تیار تھی۔ ہم بھی ٹکٹ خرید کر براجمان ہو گئے کیونکہ بس کے نکلنے میں ابھی آدھے گھنٹے سے زائد وقت تھا تو بس میں سواریاں بھی اکا دکا تھیں۔ میرے ساتھ والی سیٹ خالی تھی (جو لوکل سفر کرتے ہیں وہ سمجھتے ہوں گے ایک پوری سیٹ پر جب آپ کا تسلط ہو تو کیسا اچھا محسوس ہوتا ہے ) سو میں نے بھی ادھر دیکھا نہ ادھر خالی سیٹ پر پاؤں پسارے براجمان ہو گئی۔

تھوڑی دیر گزری تھی کہ مجھ سے پچھلی نشست پر ایک پورا خاندان آ کر آباد ہو گیا۔ دو خواتین ایک مرد اور ساتھ چھوٹے چھوٹے بچے۔ میں نے بچوں کی غاؤں غوں سے گھبرا کر ہینڈز فری نکالے اور فل آواز کے ساتھ میوزک چلا لیا۔ گاڑی چل پڑی، کچھ دیر بعد مجھے یاد آیا کہ بیگ کی زپ میں کھانے پینے کی اشیا رکھی ہیں کیوں نہ ان سے لطف اندوز ہوا جائے۔ اب ہوا یوں کہ میرے پچھلے ہمسایوں کا بچہ، جس کی عمر تقریباً چار سال ہوگی، اشیائے خورو نوش کی طرف ہمکنے لگا۔

مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق، مجھے اس کے اشاروں پر توجہ دینی ہی پڑی۔ کم بخت کان تو بند کر لیے تھے لیکن آنکھوں کا کیا کیا جائے جو ہر اپنے پرائے کے پھڈے میں دل چسپی کا عنصر تلاشتی ہیں۔ بچے کی آہ و زاری پر، ماں کے گھورتے ڈھیلے اور باپ کی پیار بھری چپت بھی اثر نہ ڈال سکی۔ اور مجبوراً میں نے آگے بڑھ کر چپس کا ایک پیکٹ اس کی طرف بڑھا دیا۔ جو بچے نے تو آگے بڑھ کر جھپٹ لیا لیکن اس کی والدہ محترمہ نے مجھے ایسے گھورا گویا میں نے ان کے نومولود کے۔۔۔

خیر بچے نے ماں کی گھوریوں کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے کھانے پہ توجہ مرکوز رکھی۔ اور جونہی اس کی غذا نے خاتمے کا اشارہ دیا بچہ پھر سے میرے ہاتھ میں پکڑے بسکٹ کی طرف ہاتھ بڑھانے لگا۔ میں نے بسکٹ کا پیکٹ بچے کی جانب کیا ہی تھا کہ اس ک اماں نے چیل کی طرح جھپٹتے ہوئے تقریباً چلاتے ہوئے کہا ”اس کو نہیں چاہیے“ اور میں ہونقوں کی طرح جہاں تھی وہیں رہ گئی۔ خیر شرمندگی کے حد درجہ احساسات کو چھپاتے ہوئے میں نے شانے اچکائے، کھڑکی کے باہر دیکھنا شروع کر دیا، اس بات سے قطع نظر کے میرے بسکٹ نہ دینے پر اس بچے پر کیا بیتی۔

بس میں پیش آنے والے اس واقعے نے مجھے بچپن کی یادوں میں غلطاں کر دیا۔ ہم بہن بھائی جب چھوٹے ہوتے تھے تو گھر آئے گئے مہمان کے سامنے ہمیں اخلاقیات کا درس دیا جاتا تھا کہ کس طرح اگر مہمان آئیں تو ان کی خاطر تواضع کے وقت ہمیں خاموشی سے کھانے پینے کی اشیاء سے دور بیٹھ کر ان کے جانے کا انتظار کرنا ہے۔ ان کے سامنے کسی کھانے پینے والی چیز کو نہیں اٹھانا۔ خیر ہم بہن بھائی بڑے احترام سے ان کو کھاتا دیکھتے اور ان کے جانے کی دعا کرتے۔

جونہی مہمان جاتا مربھکوں کی طرح کھانے پر ٹوٹ پڑتے۔ بات کرنے کا مقصد یہ ہے کہ بچوں پر بے جا پابندیاں، ان کو حبس بے جا میں رکھنا، ان کو ہر بات پر غلط ٹھہرانا ان کے مسائل کو سنجیدہ نہ لینا ان کی شخصیت کی تباہی پر منتج ہوتا ہے۔

پچھلے دنوں ایک خبر سننے میں آئی کہ ایک بچہ استاد کے وحشیانہ تشدد کا شکار ہو کر خالق حقیقی سے جا ملا۔ خبر پڑھتے ہی دل گویا مٹھی میں جکڑا گیا۔ میرے بچپن کی بات ہے ہمارے گھر قرآن پاک پڑھانے کے لیے قاری صاحب آیا کرتے تھے، میں بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹی تھی قاری صاحب کے قہر کا ڈر اس قدر زیادہ تھا کہ ان کے آنے سے ایک گھنٹہ پہلے ہی میری گردان شروع ہو جایا کرتی تھی کہ ”آج قاری صاحب تو نہ آئیں گے“ اکثر تو میرا جسم بخار سے تپنے لگتا تھا لیکن پھر بھی قاری صاحب کے پاس حاضری یقینی ہوا کرتی تھی۔

گھر والے قاری صاحب کے متعلق میرے خدشات کا ازالہ کرنے میں ناکام رہے بالآخر میری جان یوں چھوٹی کہ ایک دن قاری صاحب نے پڑھاتے ہوئے لکڑی کی چھڑی سے جب مارا تو میری پسلی ٹوٹ گئی۔ اس کے بعد قاری خود ہی ڈر گیا لیکن میرے والدین بضد تھے کہ وہ اپنے فرائض سر انجام دیں۔ اس واقعے کو سنانے کا مقصد یہ کہ جس بچے کو استاد نے وحشیانہ تشدد کے ذریعے دیوار میں سر پھوڑ کر مار دیا، کیا اس نے اپنے والدین کو آگاہ نہ کیا ہوگا؟

یہ ناممکن سی بات ہے کہ وہ استاد عام روٹین میں نارمل حرکات کرتا ہوگا۔ میرا ماننا ہے کہ والدین ہی ایسے واقعات کے سزاوار ہوتے ہیں جو اپنے بچوں کو کسی بھی وحشی کے سپرد کر کے اپنے فرائض سے سبکدوش ہو جاتے ہیں۔ اگر والدین اپنے بچوں کی آنکھوں میں، سکول یا کسی شخصیت کا نام سن کر در آنے والے، خوف کے سائے دیکھ لیں اور بروقت ان کا سدباب کر لیں تو یقیناً ہم ایسے واقعات کو مزید دیکھنے سے بچ جائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).