شکریہ عمران خان


ٹی وی پر عمران خان کا جلسہ چل رہا تھا اچانک میری سماعت سے جلسے میں بجنے والے ترانے سے ٹکرا گئی ”جب آئے گا عمران، بنے گا نیا پاکستان“ میرے لبوں سے بے ساختہ قہقہہ بکھرنے لگا میرے ساتھ بیٹھا دوست حیرانی سے مجھے دیکھنے لگا اور مجھ سے ہنسنے کی وجہ دریافت کی تو میں نے کہا

خان صاحب نے بائیس سال جدوجہد کی اور ان بائیس سالوں میں کیسے کیسے اتار چڑھاؤ نہیں دیکھے۔ کیسے کیسے خواب قوم کو نہیں دکھائے خود کو اس قوم کا مسیحا ثابت کرنے کے کیسے کیسے جتن نہیں کیے اگر میں صرف اقوال عمران پر لکھنا شروع کر دوں تو شاید الگ سے ایک کتاب لکھنی پڑے اور اتنی ہی بڑی کتاب اُنکے لئے گئے تاریخی یو ٹرنز پر بھی لکھنی پڑے۔ اپنے سوا ہر ایک کو انہوں نے چور ڈاکو کے القابات سے نوازا یہ اور بات انہی چور ڈاکوؤں میں سے بہت سارے لوگ آج اُنکے دائیں بائیں اور اُنکی کابینہ میں بھی نظر آتے ہیں۔

خان صاحب اکثر کہا کرتے تھے حکمران قرضے لیتے ہی صرف اپنی عیاشیوں کے لئے ہیں اور پھر ان قرضوں کو اتارنے کے لئے عوام پر بے تحاشا ٹیکس لگاتے ہیں۔ میں حکمران بنا تو کبھی قرض نہیں لوں گا۔ یہ کرپٹ حکمران اپنی اپنی چوریاں چھپانے کے لئے آپس میں مک مکا کرتے ہیں۔ جب کوئی وزیراعظم کسی آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کرتا ہے تو اُسکا مقصد صرف اپنی نوکری پکی کرنا ہوتا ہے۔ ایک آزاد میڈیا جمہوریت کے لئے کتنا ناگزیر ہوتا ہے یہ راز بھی خان صاحب نے کھولا تھا، عدلیہ، پولیس الغرض ہر ادارے کی آزادی کی بات خان صاحب بار بار کیا کرتے تھے۔

بات خان صاحب کی جدوجہد پر چل رہی تھی مگر چلتے چلتے اُنکے فرمودات پر چل نکلی۔ خان صاحب اپنی سیاسی جدوجہد میں دن رات مگن تھے مگر عوامی پزیرائی نا ہونے کے مترادف تھی پھر اچانک کسی نے خان صاحب کے کان میں کامیابی کی کنجی کا راز بتایا خان صاحب اس طرح در بدر بھٹکنے سے آپ کبھی وزیراعظم نہیں بن پائیں گے، وزیراعظم بننے کا راستہ پنڈی کے شاہی دربار سے ہو کر گزرتا ہے، خان صاحب کے دل کو یہ بات لبھا گئی۔

پھر اُس دن کے بعد سے خان صاحب کی سیاست میں ایک نئی امنگ آنا شروع ہو گئی اُنکے جلسے بھی بھرنا شروع ہو گئے اور ہمیشہ کے آوارہ پرندے بھی اُنکی چھتری کے نیچے جمع ہونا شروع ہو گئے گویا ان کی سابقہ جدوجہد ایک طرف اور طواف پنڈی کے بعد کی سیاست ایک طرف۔ اپنے آقاوؤں کی خوشنودی اور ان کے پیپرز میں اپنی اہلیت ثابت کرنے کے لئے 2014 سے خان صاحب نے سیاسی افراتفری کے ایک دور کا آغاز کیا جو کسی نا کسی طرح 2018 تک جاری رہا اور خان صاحب خود ساختہ محمد بن قاسم بن کر پورے ملک میں دندناتے رہے۔

انصاف کا دربار ہو یا پنڈی والے الغرض ہر ادارے کی طرف سے خان صاحب کو غیر سرکاری لاڈلہ ڈکلئر کر دیا گیا۔ 2018 میں جبر کے ایک عجیب ماحول میں تاریخ کے بدترین اور متنازعہ ترین انتخابات ہوئے۔ میدان کے تمام گھوڑے یا تو باندھ دیے گئے یا پھر ان کی راہ میں روڑے اٹکا دیے گئے مقصد صرف ایک تھا کسی بھی طرح سرکاری گھوڑا اہلیت نا ہونے کے باوجود بھی ریس جیت جائے۔ سارے جتن کر کے ساری بدنامیاں لے کر بالآخر خان صاحب کو جتوا دیا گیا جب کہ پوری دنیا کو خبر تھی کہ یہ الیکشن نہیں سلیکشن ہوئی ہے۔ اب ایک سال سے زیادہ وقت ہو گیا ہے عمران خان کو وزیراعظم بنے ہوئے اور اس وقت صورت حال بد سے بدتر اور بد تر سے بد ترین ہو چکی ہے۔

جتنے قرضے پچھلی حکومت کے پانچ سالوں میں لئے گئے اُتنے ہی قرضے خان صاحب اس ایک سال میں لے چکے مگر اکانومی ہے کہ پھر بھی اٹھنے کا نام نہیں لے رہی اور چلتے ہُوئے ادارے بھی رفتہ رفتہ دم توڑتے جا رہے ہیں۔ تمام ادارے اپنے لاڈلے کی پشت پر کھڑے ہیں مگر خان صاحب پھر بھی پرفام نہیں کر پا رہے۔

سٹاک ایکسچینج جو پچھلی حکومت میں 53000 پوائنٹس کی بلند ترین سطح ہر تھی گرتے گرتے 29 ہزار کے لگ بھگ آ چکی ہے، سرمایہ کاروں کا بٹھہ بیٹھ چکا۔ زراعت کا بیڑا غرق ہو چکا ہے بجلی کھادیں ادویات سپرے بیج وغیرہ تین سے چار گنا مہنگی ہو چکی اور اجناس کی قیمتیں پہلے سے بھی کم ہو چکی۔ گھریلو بجلی مہنگی، پیٹرول کہاں سے کہاں پہنچ گیا گیس مہنگی اور ڈالر کے مقابلے میں روپیہ دن بدن یوں گر رہا ہے جیسے کوئی انسان نظروں سے گرتا ہے۔

میڈیا پر صرف سرکاری سچ دکھانے کی آزادی ہے، پندرہ سے بیس لاکھ لوگ بے روزگار ہو چکے جو پہلے متوسط کہلاتے تھے وہ غربت کی لائین سے نیچے چلے گئے۔ اقربا پروری اور کرپشن کے نئے نئے انداز اپنی آب و تاب سے جاری ہیں عوام غریب سے غریب تر اور خان صاحب کے دوست اور فائننسرز امیر سے امیر تر ہوتے جا رہے ہیں۔ ابھی ایک ارب درختوں کروڑوں نوکریوں اور پانچ لاکھ گھروں کی بات میں نہیں کر رہا اس کے لئے آپ صرف بی آرٹی پشاور کا انجام دیکھ لیں تو آپ پر ان کی اہلیت سمیت سب کچھ عیاں ہو جاتا ہے جن سے پانچ چھ سالوں سے ایک بی آرٹی نہیں بن رہی وہ نیا پاکستان بنائیں گے یہ سوچ کر ہی اپنی مضحکہ خیز سوچ پر ہنسی آنا شروع ہو جاتی ہے۔

عمران خان کا بنایا ہُوا وہ سارا تاثر اور بیانیہ جو انہوں نے بائیس سال کی محنت سے بنایا تھا یعنی جب عمران آئے گا تو نیا پاکستان بنے گا اصل جمہوریت ہو گی پاکستان معاشی طاقت بنے گا، سب کی عزت نفس بحال ہو گی، کپتان کبھی قرض نہیں لے گا کبھی اپنی قوم سے جھوٹ نہیں بولے گا۔ پاکستان، پاکستان نہیں رہے گا جنت کا نمونہ بنے گا، خان صاحب نے اپنے لئے اور اپنے حواریوں کے لئے جو طلسمی یوٹوپیا بنا رکھا تھا صرف ایک سال لگا لوگوں کو یہ بات سمجھنے میں جب لوگوں کے لئے جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنا عذاب ہو گیا، سلیکٹرز کی سبکی کا خیال ہے ورنہ عوام پر جعلی تبدیلی اور نئے پاکستان کا دلفریب جھانسہ عیاں ہونے پر شکریہ تو بنتا ہے۔ شکریہ عمران خان


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).