چندریان سے چوہدری اور مراثی کے ذکر تک


ہمارے اردگرد کچھ باتیں ایسی ہوتی ہیں جنہیں سمجھنے کے لیے پڑھا لکھا ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ ایم فل، پی ایچ ڈی کے سامنے ان باتوں کو بیان کرنا بھی منع ہوتا ہے۔ ایسے ہی شہری لوگ اور شہری بابو کچھ باتوں کو سمجھنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے کیونکہ زمین سے جڑا ہوا تعلق ان پڑھے لکھوں اور بابوؤں کو کہاں سمجھ آتا ہے۔ ایسی ہی باتوں میں ایک بات چوہدری اور مراثی کا تعلق ہے۔ چوہدری گاؤں کا سب سے طاقت ور فرد ہوتا ہے اور مراثی بے چارہ سب سے کمزور اور گرا پڑا شخص تصور کیا جاتا ہے، جس کی حیثیت کمی کمین لوگوں سے بھی کم قرار پاتی ہے لیکن یہ دونوں صدیوں سے ایک دوسرے کے نہ صرف مخالف ہیں بلکہ جہاں کہیں موقع ملے یا نہ ملے، یہ ایک دوسرے کے خلاف اظہار کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔

چوہدری کو جہاں کہیں دو چار بندے مل جائیں اور آپس پاس مراثی بھی دستیاب ہو تو وہ اس کی بے عزتی کرنا اپنا فرض سمجھتا ہے وہیں مراثی بھی پیٹھ پیچھے ہر دوسری جگت اور سامنے ہر چوتھی جگت میں کوئی نہ کوئی چوہدری ضرور شامل کر دیتا ہے۔ اس لڑائی میں ہر نسل کوئی نہ کوئی ٹوئیسٹ ضرور دیتی ہے۔ کہیں چوہدری اپنے رعب داب سے بے فکر ہو کر جگتیں کرکے خوش ہوتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ دوسروں کا مذاق اڑا رہے ہیں لیکن ایک وقت آتا ہے کہ گاؤں والے مراثی کے بجائے چوہدری صاحب کو ترلا منت سے گھیر گھار لاتے ہیں اور چوہدری مراثیوں کی طرح، مراثیوں کی جگہ جگتیں کر رہا ہوتا ہے۔

وہیں آسمان ان نظاروں کا بھی گواہ رہا ہے کہ مراثیوں نے اپنے بچے پڑھا لکھا کر ڈاکٹر، وکیل، انجینئر بنا لیے اور پھر شہر میں چوہدری سے بڑی کوٹھی بنا لی۔ اب گاؤں والے چوہدری کے نام کا حوالہ نہیں دیتے بلکہ فلاں ڈاکٹر صاحب ہمارے گاؤں کے ہیں، فلاں وکیل ہمارا ہے کہتے پائے جاتے ہیں۔ وقت کا یہ بدلتا ہوا رنگ کسی آسمانی آفت یا بدقسمتی کی وجہ سے ممکن نہیں ہوتا بلکہ صرف اس لیے ممکن ہوتا ہے کہ جب چوہدری اپنا رعب داب چھوڑ کر جگتیں کرنے لگ جاتے ہیں اور مراثی علم و ہنر کی راہ پر بے تکان نکل پڑتا ہے تو آسمان ان کہی کہانیوں کا گواہ ہونے لگ جاتا ہے۔

چوہدری اور مراثی کی یہ باتیں مجھے چندریان کی ناکامی کے بعد بہت شدت سے یاد آئیں۔ ہمارا پڑھا لکھا، ایم اے، ایم فل اور پی ایچ ڈی طبقہ، ہمارے شہری بابوجس طرح سے ہندوستانی ناکامی پر ناچ رہے ہیں وہ سب قابل افسوس ہے۔ اس لیے قابل افسوس نہیں کہ مجھے ہندوستان سے کوئی ہمدردی ہے یا چاند پر اترنے والی گاڑی نے جس دس مرلے کے پلاٹ کی پیمائش کرنی تھی وہ مودی جی نے مجھے دینے کا وعدہ کیا تھا، ناں ہی مودی اور ہندوستانی سائنس دانوں میں میرا کوئی چچا یا ماموں کا بیٹا ہے۔

افسوس صرف اس لیے کہ ہم اس پورے خطے کے چوہدری تھے اور اب مراثیوں کی طرح جگتیں کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ پاکستان کا میزائل پروگرام اس خطے کا سب سے بہترین پروگرام تھا اور ہم نے ہندوستان سے کئی گنا بہتر اور کم قیمت میزائل تیار کر کے نہ صرف اپنی برتری ثابت کی تھی بلکہ ہندوستان کے ایک وسیع علاقے کو داڑھ نیچے لینے کا واضح اشارہ بھی دے رکھا تھا۔ ہمارے ٹینک پروگرامز نے ”الخالد“ اور دوسرے کئی بہترین ٹینک دنیا کی افواج کے لیے متعارف کروائے جبکہ ہندوستان ”ارجن“ کو بہتر بنانے کے لیے نو سال کوششیں کرنے کے بعد آخر کار ناکام ہوا اور پورا پروگرام بند کرنا پڑا۔

ہمارے پاس دنیا کے بہترین ڈیزائن کے ایٹم بم موجود ہیں اور ہم نے ان کے تمام کامیاب تجربات کیے ہوئے ہیں۔ ہماری افواج دنیا کی بہترین افواج میں شمار ہوتی ہیں اور کئی بین الاقوامی مقابلوں میں ہمارے جوان پوزیشن لیتے ہیں۔ ہماری آئی ایس آئی اپنی کم تعداد، وسائل اور بجٹ کے باوجود کئی سال سے دنیا کی بہترین انٹیلی جنس ایجنسی ہے۔ ہم اپنے چھوٹے گھر میں رہتے ہوئے بھی سارے گاؤں میں اپنی الگ شناخت برقرار رکھے ہوئے تھے لیکن پھر اپنے رعب داب سے پرے ہمیں جگتیں کرنے کی عادت پڑ گئی۔

چوہدری اکثر مراثیوں کے بچوں کی پڑھائی پر جگتیں کرتے ہیں لیکن وقت بتاتا ہے کہ چوہدری جگتیں کرتے رہ جاتے ہیں اور مراثی کا بچہ کامیابیاں سمیٹ لیتا ہے۔ اس وقت ضرورت اس امر کی تھی کہ پاکستان بھی اپنا خلائی پروگرام مزید بہتر کرنے کی کوشش کرتا۔ ہمارے قابل سائنس دان میزائل ٹینک اور اٹیم بم بنا سکتے ہیں تو کیا خلائی پروگرام کے میدان میں ان کی ناک بہنے لگ جاتی ہے؟ ہم کسی نئے سیٹلائٹ کے بارے بتاتے جس پر ہم کام کر رہے ہیں اور بہت جلد اسے خلا میں چھوڑا جائے گا۔

ہم خلائی پروگرام کے لیے فنڈز کا اعلان کرتے اور دنیا کے مختلف ممالک کے ساتھ تعلیمی پروگرامز کا کوئی لائحہ عمل ترتیب دیتے۔ ہم ہندوستان کی ضد میں کسی مشن کا اعلان کرتے۔ لیکن افسوس ہم صرف جگتیں کرنے میں اور شکر ادا کرنے میں لگے ہوئے ہیں کہ ہندوستان ناکام رہا۔ یہ نہیں سوچ رہے کہ اپنی دوسری تیسری یا دسویں کوشش میں جب وہ کامیاب ہوجائے گا تب ہم کہاں کھڑے ہوں گے۔ چاند پر پہنچنے والا چوتھا ملک اور چاند کے تاریک حصے پر لینڈنگ میں کامیاب ہونے والا دوسرا ملک ہندوستان بننے جا رہا ہے۔

مریخ کی طرف سب سے کم قیمت مشن بھیجنے کا سہرا بھی ہندوستان کے سر ہے اور اگرچہ جھوٹ ہی سہی لیکن خلا میں کسی سیٹلائٹ کو نشانے بنانے کی صلاحیت کا دعوا کرنے والا دوسرا ملک بھی ہندوستان ہی ہے۔ سوال گھوم پھر کر یہی رہ جاتا ہے کہ پاکستان کہاں ہے؟ خلائی ترقی، سائنس اور پروگرام میں پاکستان دنیا بھر کے ممالک میں کہاں کھڑا ہے؟

آپ شہری لوگ ہو، پڑھے لکھے لوگ، آپ کو نہیں پتہ کہ جب چوہدری اپنی جگہ چھوڑ دیتے ہیں تو کیسے گاؤں کے مراثی ان سے بڑی کوٹھی ڈال لیتے ہیں۔ جب مراثیوں کے بچے سفید کاٹن پہن کر چوہدریوں کے سامنے سے گزرتے ہیں تو دل پر کیسے چھریاں چلتی ہیں؟ آپ نہیں جانتے کہ جب مراثیوں کا بچہ ڈاکٹر یا وکیل بن کر لوٹتا ہے تو سارے گاؤں کے مجمع میں اکثر چوہدری کو ہی کرسی تک نہیں ملتی لیکن آپ بڑے اور پڑھے لکھے لوگوں کے پاس اپنی باتیں اور دل کو تسلی دینے والی وجوہات ہیں لیکن میں زمین سے جڑا ہوا ایک عام آدمی ہوں اور میں نے اس زمین میں دفن کئی کہانیاں دیکھی ہیں، میرے سر پر موجود آسمان کئی رنگوں کا گواہ ہے اور بتاتا ہے کہ قدر تو صرف علم والے کی ہے۔

چوہدری بھی اگر جگتیں کرنے لگ جائیں تو مراثیوں اور کمی کمینوں سے حقیر ہو جاتے ہیں، پھر ان کے مربعے اور اونچے شملے بھی کسی کام نہیں آتے۔ اس سے پہلے کہ چندریان ٹو کامیاب ہو جائے ہمیں اپنے احتساب کے ساتھ مستقبل کا کوئی لائحہ عمل ترتیب دے دینا چاہیے ورنہ زمین کا سینہ اور آسمان کی آنکھ تو کئی کہانیوں اور عروج و زوال کی گواہ ہے ہی۔ کہیں ایک اور کہانی کے گواہ نہ ہو جائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).