جماعت اسلامی کی ناکامی کا جائزہ لینے میں کیا حرج ہے؟


بہت سارے وہ لوگ جو جماعتِ اسلامی سے وابستہ ہیں، فیض احمد فیض کے اس تاریخی تبصرہ کو شاید بھول چکے ہوں جس میں فرمایا گیا تھا ”ہمیں اس بچے، مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ، سے ہوشیار رہنا چاہیے، یہ ہمارے مستقبل کے لئے ایک بہت بڑا خطرہ ہے۔“ فیض احمد فیض کے اس فقرے کے جواب میں صاحبِ عقل و فہم اور صاحب ایمان و یقین والے شخص، مولانا پروفیسر غفوؒر صاحب نے ایک مجلس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”پاکستان بنا تو حبِ خدا و رسول میں ہے لیکن اس کی تباہی کا سبب بغضِ مودودی بنے گا۔“

جماعت اسلامی اگر واقعی پاکستان کے کسی خطے میں ایک حقیقی جماعت اسلامی کی شکل میں موجود تھی، عوام میں بے پناہ مقبولیت رکھتی تھی اور جہاں کے سب عام و خاص اسے دل و جان سے پسند کرتے تھے تووہ شہرکراچی ہی تھا۔

اس بات کا اندازہ یوں لگائیں کہ جب بھٹو کا طوطی بولتا تھا اور پورے پاکستان، خاص طور سے کراچی میں اس کی دہشت اور وحشت کا مکمل راج تھا۔ پاکستان کے طول و عرض میں اس کی کامیابی و کامرانی کے جھنڈے گڑے ہوئے تھے اور جماعت اسلامی پورے پاکستان میں الیکشن ہارے ہوئے تھی اس زمانے میں بھی ایک کراچی ہی تھا جو اس کی پشت پر ڈٹ کر کھڑا ہوا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب کراچی کے حصے میں قومی اسمبلی کی کل سات سیٹیں ہوا کرتی تھیں جس میں سے تین سیٹیں جماعت اسلامی نے حاصل کی تھیں جبکہ جہاں جہاں سے بھی جماعت اسلامی ہاری تھی وہاں بھی لوگوں کی ایک بھاری تعداد نے جماعت ہی کو ووٹ دیا تھا۔

پی پی پی، جس کا ڈنکا پورے پاکستان میں بجاکرتا تھا وہ کراچی سے صرف دو ہی نشستیں نکالنے میں کامیاب ہوئی تھی۔ کراچی میں اہلسنت والجماعت کی کامیابی میں بھی جماعت اسلامی کی حمایت کا عمل دخل تھا۔ اس طرح اگر غور کیا جائے تو کراچی جماعت اسلامی ہی کی حمایت میں کھڑا دکھائی دیتا تھا۔ ایوبی دور کے الیکشن میں بھی جماعت اسلامی کی حمایت یافتہ فاطمہ جناح نے ہی کامیابی حاصل کی تھی۔ اس کے علاوہ بی ڈی سسٹم ہو یا ضیا دور کے بلدیاتی الیکشن، پورے کراچی نے ہمیشہ جماعت اسلامی ہی کے حق میں فیصلہ سنایا۔ یہاں اب کوئی بھی یہ نہیں سوچے گا کہ اس شہر میں کس طبقہ آبادی کی اکثریت تھی اور وہ کون لوگ تھے جو آنکھیں بند کرکے جماعت اسلامی ہی کے پیچھے کھڑے نظر آیا کرتے تھے۔

جماعت اسلامی کے کارکنان اور ہمدردوں کے خلوص کا اندازہ اس بات سے لگا یا جاسکتا ہے کہ اس شہر کے لوگ وہ تھے جو انتہائی مخدوش اوربے سروسامانی کے عالم میں پاکستان آئے تھے اور بقول ذوالفقار مرزا ”ننگے بھوکے“ تھے لیکن وہ نہایت خلوص کے ساتھ اس کے رکن بنے، کارکن بنے، ہمدرد بنے سپورٹر اور ووٹربن کر اس جماعت کی جسم و جان بن گئے۔ اور وہ بھی (اجڑے پجڑے ہونے کے باوجود ) بنا کسی لالچ اور مالی منفعت کے، صرف اور صرف رضاکارانہ طورپر اور محض رضائے الٰہی کے حصول کے لئے۔

جماعت سے وابستہ آج بھی مہاجرین، وہ لفظ جو آج پاکستان میں گالی بنادیا گیا ہے، کسی مالی منفعت کے بغیر اسی لگن سے جماعت کے تنظیمی امور انجام دیتے نظر آتے ہیں جیسے ماضی میں انجام دیتے رہے ہیں۔

جماعت اسلامی ایک بڑی منظم جماعت ہے، اس کے دفاتر ہیں، مراکز ہیں، جدید مواصلاتی نظام ہے، فلاحی ادارے ہیں اور اپنا ٹرانسپورٹ کا سسٹم بھی ہے۔ آپ ایمانداری سے جائزہ لیتے جائیں کہ مختلف امور کی انجام دہی میں کتنے لوگ وظیفہ خوار ہیں اور کتنے محض رضاکار ہیں اور پھر اس پر بھی غور کریں کہ وظیفہ خواری کی فہرست میں مٹی کے بیٹے کتنے ہیں اور رضا کاری میں پناہ گزین، بقول ذوالفقارمرزا، ننگے بھوکے لوگ، کس مقام پر فائز ہیں۔

نہ تو کوئی اس بات پر غور کرنے کے لئے تیار ہے کہ ایسا کیوں تھا کہ یہ شہر جو جماعت کو کندھوں پر لئے پھرتا تھا، کیوں پھرتا تھانہ ہی کوئی یہ سوچنے کے لئے تیار ہے کہ کیوں یہ شہر اب مڑکر دیکھنا بھی مشکل سے گوارا کرتا ہے۔

جب بھی کسی سے سوال کرتا ہوں تو جواب آتا ہے ”سازش“ ہے۔ شایدایسا ہی ہوگا۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہر فرد اور جماعت کا ایک گریبان بھی ہوتا ہے۔ جھانک لینے میں کیا حرج ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).