ڈاکٹر طاہر القادری کی ریٹائرمنٹ


عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری نے گزشتہ روز پاکستان عوامی تحریک کی چیئرمین شپ اور پاکستانی سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرنے کا اعلان کیا جو پاکستانی سیاست میں پہلی مرتبہ کسی سیاستدان نے اپنی زندگی میں سیاست چھوڑنے کا اعلان کیا ہے۔ علامہ طاہر القادری نے نا صرف سیاست سے کنارہ کشی اختیار کی بلکہ اپنی جماعت کی قیادت اپنی اولاد کی بجاے پارٹی رہنماؤں کو سونپی۔

ڈاکٹر طاہر القادری 19 فروری 1951 کو پنجاب کے شہر جھنگ میں پیدا ہوے۔ آپ کے والد گرامی کا نام ڈاکٹر فرید الدین قادری تھا۔ آپ اسلامک لاء میں پی۔ ایچ۔ ڈی ہیں۔ 25 مئی 1989 کو لاہور کے موچی گیٹ پر جلسہ عام سے خطاب کے دوران علامہ نے سیاسی جماعت، پاکستان عوامی تحریک کے قیام کا اعلان کیا۔ اگر عوامی تحریک کے منشور کے چیدہ چیدہ نقاط کو دیکھا جائے تو اکانومی، تعلیم، غربت، مہنگائی، انصاف، امن اور ٹیکنالوجی عوامی تحریک کے منشور کا حصہ رہی ہیں۔

عوامی تحریک بننے کے 6 ماہ بعد 1990 میں پہلی مرتبہ پاکستان عوامی تحریک نے پاکستانی سیاست و انتخابات میں حصہ لیا مگر کوئی سیٹ جیتنے میں کامیاب نا ہو سکی، البتہ اپنا پیغام عوام تک ضرور پہنچایا۔ کرپشن کے خاتمہ، نظام کی تبدیلی و اصلاح جن میں سیاسی نظام، عدالتی نظام، معاشی نظام، انتخابی و معاشرتی نظام کی تبدیلی و اصلاح کا ایجنڈا بھی شامل تھا جس کی تعلیم و شعور کا سفر آپ نے جاری رکھا۔

1992 میں طاہر القادری صاحب نے بغیر سود بینکاری نظام متعارف کروایا۔ ( بغیر سود بینکاری نظام کہاں کروایا؟ کچھ تفصیل عنایت کریں)

1993 کے انتخابات کا طاہر القادری اور ان کی جماعت نے بائیکاٹ کیا اور بعدازاں اصغر خان کیس کے فیصلے نے ثابت کیا کہ وہ الیکشن تاریخ کا کس قدر داغ نما تھا۔  (جناب حسن صاحب، اصغر خان کا مقدمہ 1990 کے انتخابات کے بارے میں تھا، 1993 کے انتخابات کے بارے میں نہیں۔ مدیر)

1997 سے 1999 کے دوران پاکستان عوامی اتحاد بنا جس کی قیادت ڈاکٹر طاہر القادری نے کی اور سابق وزیراعظم محترمہ بینظیر بھٹو شہید، موجودہ وزیراعظم عمران خان صاحب، نوابزادہ نصراللہ‎ خان بھی اس اتحاد کا حصہ تھے۔ پاکستان عوامی اتحاد نے لاہور، کراچی سمیت ملک بھر میں جلسوں کا انعقاد کیا اور بھرپور ”گو نواز گو“ تحریک چلائی۔ 12 اکتوبر 1999 کے جنرل پرویز مشرف کے مارشل لا کے بعد 2002 کے عام انتخابات میں پاکستان عوامی تحریک اور ڈاکٹر طاہر القادری نے انتخابات میں حصہ لیا مگر طاہر القادری ہی ایم۔ این۔ اے بن سکے۔

5 اکتوبر 2004 کو ایم۔ این۔ اے ڈاکٹر طاہر القادری نے پارلیمنٹ سے استعفیٰ کا اعلان کیا کیونکہ اس وقت جنرل مشرف، آرمی چیف اور صدر دونوں عہدوں پر براجمان تھے۔ علامہ صاحب نے 41 صفحات پر مبنی مستعفی ہونے کی وجہ تحریر کرکہ اسپیکر اسمبلی کو دی۔ (جنرل مشرف تو اپریل 2002 کے ریفرینڈم میں بھی آرمی چیف اور صدر دونوں عہدوں پر براجمان تھے جب طاہر القادری ان کے حق میں مہم چلا رہے تھے)

اس کے بعد سیاسی منظر نامہ پر ڈاکٹر طاہر القادری کا نام نظر نا آیا۔ اگر دوسرے رخ پر بات کی جائے تو دنیا کے 92 ممالک میں طاہر القادری کی مذہبی جماعت، تحریک منہاج القرآن اپنے قدم جما چکی تھی۔ پاکستان بھر میں تعلیمی مراکز کم و بیش 800 اسکول، کالجز اور لاہور میں منہاج یونیورسٹی بھی قائم ہو چکی تھی۔ الغرض منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن کا قیام آچکا تھا 2005 کا زلزلہ تھا یا سونامی! ویلفیئر فاؤنڈیشن نے بڑھ چڑھ کر کام کیا۔

ادھر یتیم بچیوں کی شادیاں تھیں یا یتیم بچوں کی پرورش یا پھر اقوام عالم میں اسلام کا پر امن چہرہ دکھانا ہر محاذ پر طاہر القادری ڈٹ کر مقابلہ کررہا تھا۔ میری تحریر کا مقصد طاہر القادری کی تعریفوں کے پل باندھنا نہیں بلکہ ہمیں ان پہلوؤں پر نظر اٹھانی چاہیے جو اس ملک میں مثبت بھی ہیں۔ سوچ کو مثبت رکھنا ہی میری تحریروں کا اصل مرکز ہوتا ہے منفی بات پہلے اس ملک میں کم نہیں! البتہ جب مغربی دنیا اسلام کو دہشت گردی کے ساتھ جوڑ رہی تھی تب آپ نے 2010 میں ”دہشتگردی فتنہ خوارج“ کے نام سے فتویٰ تحریر کیا جو 512 صفحات پر مبنی تھا۔

اس فتویٰ کے بعد مغربی دنیا نے اسلام کو پرامن دین تسلیم کیا اور تسلیم کیا کہ دہشتگردی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ دوسری جانب پاکستان میں ڈاکٹر طاہر القادری کا ہی ایک نوجوان ڈاکٹر رحیق عباسی اور اس کی ٹیم بھرپور محنت کررہی تھی۔ 23 دسمبر 2012 کو مینار پاکستان میں عظیم الشان جلسہ عام ”سیاست نہیں ریاست بچاؤ“ کا انعقاد ہوا جس میں عوام کا ایک سمندر تھا۔ تب آرٹیکل 62 و 63 کا شعور اور نظام کی تبدیلی کا شعور بھی ڈاکٹر طاہر القادری کی محنت تھی الغرض 14 جنوری 2013 کو اسلام آباد لانگ مارچ اور مختصر دھرنا ہوا جس کا مقصد نظام انتخاب میں تبدیلی و آرٹیکل 62 ، 63 کا نفاذ تھا۔ الغرض 2013 کے انتخابات کے بعد وزیراعظم عمران خان صاحب سمیت مختلف سیاسی رہنماؤں نے تسلیم کیا اور بزبان عام تھا کہ ”طاہر القادری ٹھیک کہتے تھے“ کہ اس انتخابی نظام میں کبھی تبدیلی نہیں آے گی اور 2013 کے انتخابات کو تاریخ کے دھاندلی زدہ الیکشن بھی کہا گیا۔

17 جون 2014 کو ماڈل ٹاؤن میں عوامی تحریک کے کارکنان اور پولیس کے درمیان جھڑپوں میں 14 عوامی تحریک کے کارکنان شہید کیے گئے جن میں خواتین بھی شامل تھیں۔ اس وقت کی حکومت سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے جے۔ آئی۔ ٹی تشکیل دی جو یک طرفہ تحقیق کرتی رہی۔ بعد ازاں اس جسٹس باقر نجفی رپورٹ نے اس وقت کی حکومت کو ماڈل ٹاؤن کے قتل عام کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ البتہ 14 اگست 2014 کو ایک اور لانگ مارچ کا رخ اسلام آباد کی جانب تھا، تخت یا تختہ کی باتیں تھیں۔

ادھر ڈاکٹر طاہر القادری انقلاب مارچ لے کر چلے تو اسی روز محترم وزیراعظم عمران خان صاحب آزادی مارچ لے کر چلے۔ پاکستان عوامی تحریک نے اس وقت کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی مداخلت پر اس وقت کی حکمران جماعت کے خلاف ایف۔ آئی۔ آر کٹوائی۔ اسی طرح 70 دن تک طویل دھرنا چلتا رہا۔ اس دھرنا کے بعد ملک بھر میں سیاسی جلسے و تحریک چلی۔ مگر پانامہ لیکس کے ہنگامہ کے بعد نواز شریف صاحب کو وزارت عظمیٰ سے ہاتھ دھونا پڑا اور جیل ان کا مقدر ہوئی۔

2018 کے انتخابات کے بعد محترم عمران خان صاحب وزیراعظم منتخب ہوے۔ جس کے بعد سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے سانحہ ماڈل ٹاؤن پر نئی جے۔ آئی۔ ٹی بنانے کا حکم دیا۔ جے۔ آئی۔ ٹی نے نواز شریف، شہباز شریف، سابق آئی۔ جی پنجاب مشتاق سکھیرا و دیگر ملزمان و گواہان کے بیان قلمبند کرواے مگر بدقسمتی سے لاہور ہائی کورٹ نے جے۔ آئی۔ ٹی کو کام سے روک دیا اور مقدمہ طوالت کا شکار ہوگیا جو اب تک قائم ہے۔ اب تک میری اطلاعات کے مطابق 9 درخواستیں اس وقت مختلف عدالتوں میں زیرالتوا ہیں۔

اب اسی دوران عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری پاکستانی سیاست سے مستعفی و کنارہ کش ہوچکے ہیں۔ انہوں نے اپنے اختیارات اولاد کی بجاے اپنی منتخب کردہ سپریم کو سونپ دیے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ ڈاکٹر طاہر القادری سے مضبوط کیا جماعت کے دوسرے افراد ہیں؟ کیا جماعت کے لوگ سانحہ ماڈل ٹاؤن کا انصاف ان سے بہتر اور جلد لے سکیں گے؟ مجھے تو سب سوالات کا جواب نفی میں ملتا ہے۔ اس وقت 14 شہیدوں کی روحیں انصاف کی منتظر دیکھ رہی ہوں گیں۔ مقصد فقط انصاف ہے اور اس کے لئے مضبوط رہبر اور قوم میں اس رہبر و رہنما کی موجودگی بہت اہم ہے، بہر حال ڈاکٹر طاہر القادری بہتر معاملات کو جانتے ہیں۔ ان کی مذہبی تصنیف و تالیف کی جدوجہد کو قدر کی نگاہ سے دیکھنا ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).