کیا قوم کو جنگ میں جھونکنے کی تیاری کر لی گئی ہے؟


وزیر اعظم عمران خان نے روسی ٹیلی ویژن نیٹ ورک ’آر ٹی‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے متنبہ کیا ہے کہ دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان جنگ پوری دنیا کے لئے بھیانک ثابت ہوسکتی ہے۔ انہوں نے اگرچہ یہ اعتراف کیا کہ کوئی ہوشمند انسان ایٹمی جنگ کی بات نہیں کرسکتا لیکن اس کے ساتھ ہی یہ دعویٰ بھی کیا کہ 1962 کے کیوبا میزائل بحران کے بعد پہلی بار پاکستان اور بھارت کی صورت میں دو ایٹمی طاقتیں جنگ کے دہانے پر کھڑی ہیں۔

وزیر اعظم نے مقبوضہ کشمیر میں پیدا ہونے والی افسوسناک صورت حال کے تناظر میں ایٹمی جنگ کی بات پہلی بار نہیں کہی ہے۔ پاک بھارت جنگ اور بالواسطہ طور سے ایٹمی جنگ کے اندیشے کا اظہار کرتے ہوئے عمران خان دنیا کی بڑی طاقتوں پر زور دیتے رہے ہیں کہ وہ پاکستان اور بھارت کے درمیان مداخلت کے ذریعے معاملات طے کروائیں۔ گزشتہ روز دیے گئے انٹرویو میں بھی انہوں نے یہی بات زیادہ صراحت سے بیان کی ہے۔ پاکستانی وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں جو حکمت عملی اختیار کی ہے اور 80 لاکھ شہریوں پر جس طرح غیر انسانی پابندیاں عائد کی ہیں، اس سے برصغیر میں جنگ کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔

ان کا مؤقف ہے کہ بھارت میں چونکہ ہندو انتہا پسند نظریہ کی حامل حکومت برسر اقتدار ہے، اس لئے موجودہ بحران سے نکلنے کے لئے اس سے مذاکرات کا امکان بھی نہیں ہے۔ اس کے نتیجے میں جنگ ہی واحد آپشن کے طور پر باقی رہ جاتی ہے جس کا اندیشہ روز بروز بڑھتا جارہا ہے۔ عمران خان کے خیال میں اس خطرے کو ٹالنے کی کنجی امریکی صدر ٹرمپ کے ہاتھ میں ہے جو بھارت کو کشمیر میں غیر انسانی پالیسی سے باز رکھ سکتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کے علاوہ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن اور چینی صدر زی جن پنگ بھی دونوں ملکوں کے درمیان تصادم کی صورت حال ختم کروانے میں کردار ادا کرسکتے ہیں۔

پاکستانی وزیر اعظم اپنے بھارتی ہم منصب پر ذاتی حملے کرنے کے علاوہ، حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کو آر ایس ایس کے دہشت گرد ایجنڈا کا پیروکار بتاتے ہیں۔ عمران خان نریندر مودی کو عصر حاضر کا ہٹلر ثابت کرنے کی کوشش بھی کرتے رہتے ہیں۔ گزشتہ چند ہفتوں کے دوران پاک بھارت تعلقات اور کشمیر تنازعہ پر گفتگو کرتے ہوئے عمران خان نے خاص طور سے تند و تیز لب و لہجہ اختیار کیا ہے۔ بھارتی حکومت پر براہ راست حملے کرنے کے علاوہ اس حکمت عملی کا دوسرا نکتہ پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ کا اندیشہ ہے جس میں ایٹمی تصادم کو مسترد نہیں کیا جاتا۔ یہ ایک تشویشناک صورت حال ہے۔

عمران خان کی نگاہوں سے اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے دنیا کو چوکنا ہونا چاہیے اور فوری طور سے برصغیر میں حالات کو کسی بڑے تصادم کی طرف بڑھنے سے پہلے مصالحت کے لئے اقدام کرنا چاہیے۔ تاہم ’آر ٹی‘ ہی کو دیے گئے انٹرویو میں وزیر اعظم نے یہ اعتراف بھی کیا ہے کہ دنیا کا ردعمل ان کی توقعات اور صورت حال کی سنگینی سے مطابقت نہیں رکھتا۔ حالانکہ ان کا یہ مؤقف جمعہ کو ہی مظفر آباد میں کی گئی تقریر کے مندرجات سے بھی مختلف ہے، جس میں انہوں نے سلامتی کونسل کے اجلاس، اسلامی ملکوں کی تعاون تنظیم اور اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے رکن ممالک کی تشویش کو ایک مثبت پیش رفت اور پاکستان کی خارجہ پالیسی کی کامیابی کے طور پر پیش کیا تھا۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اب امریکی کانگرس اور برطانوی پارلیمنٹ کے ارکان بھی اپنی حکومتوں پر کشمیر میں بھارتی مظالم بند کروانے کے لئے دباؤ ڈال رہے ہیں۔

وزیر اعظم عمران خان کی طرف سے بھارت کے ساتھ مذاکرات سے مایوسی اور ایٹمی جنگ کے اندیشے کو دنیا کی بڑی طاقتوں پر دباؤ کے لئے استعمال کرنے کی حکمت عملی کے تناظر میں یہ پوچھنے کی ضرورت ہے کہ کیا اب یہ دو نکات پاکستان کی خارجہ پالیسی کی بنیاد ہیں یا وزیر اعظم ذاتی حیثیت میں ان خیالات کا اظہار کرتے ہیں؟ یہ سوال پوچھنے کی ضرورت یوں پیش آتی ہے کہ ملک کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی یا پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی باتوں میں وہ شدت اور تندی محسوس نہیں کی جاتی جو جنگ کی تیاری کرنے والے کسی ملک کی ساری قیادت کے رویہ میں محسوس کی جانی چاہیے۔

جنرل قمر جاوید باجوہ نے آج ہی کوئٹہ میں جنوبی کمان ہیڈ کوارٹرز کے دورہ کے دوران خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’پاکستان پائیدار امن و استحکام کی طرف بڑھ رہا ہے‘ ۔ اگر ملک کی حکومت بھارت کے ساتھ تصادم کا اتنا شدید اندیشہ محسوس کرتی ہے کہ دنیا کو ایٹمی جنگ کے خطرے کا نوٹس دیا جا رہا ہے تو پھر ملکی فوج کا سربراہ کس طرح ’پائیدار امن و استحکام‘ کی نوید دے سکتا ہے۔ وزیر اعظم خود ہی بار بار یہ بھی بتا چکے ہیں کہ بھارت کے ساتھ جنگ کی صورت میں، کسی کی جیت نہیں ہوگی اور وسیع تباہی ہو گی۔

اس پس منظر میں پاکستان کی خارجہ اور سیکورٹی پالیسی کا یہ ابہام ختم ہونا چاہیے۔ تاکہ عام لوگوں پر یہ واضح ہو سکے کہ پاکستان اس وقت معاشی ترقی اور سیاسی استحکام کے لئے کام کر رہا ہے یا ہمسایہ ملک سے کشمیر آزاد کروانے کے لئے جنگ کی تیاری کر رہا ہے۔ اس سے وزیر اعظم کی باتوں میں وزن بھی پیدا ہو گا اور یہ بات بھی صاف ہوسکے گی کہ سول ملٹری تعاون کی موجودہ صورت حال ایک ٹھوس حقیقت ہے۔ سول حکومت اور فوج نے مل کر ملک کی خارجہ پالیسی کو ان دو بنیادوں پر استوار کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے جو وزیراعظم کی تقریروں اور انٹرویوز میں اہم ترین نکات کے طور پر سامنے آتے ہیں۔ اس طرح وضاحت سے قوم کو یہ بھی بتایا جاسکے گا کہ اس نئی خارجہ پالیسی کی روشنی میں اگر پاکستان کو بھارت کے ساتھ جنگ کی طرف بڑھنا پڑا تو ملک کی سیکورٹی حکمت عملی کو اس کے مطابق استوار کیا جاچکا ہے۔

عمران خان کو بھی اپنی حکومت کی پالیسی کا ابہام دور کرنے کے بعد اپنی باتوں میں تضاد ختم کرنے کی ضرورت ہو گی۔ روسی ٹی وی کے انٹرویو میں ہی ایک طرف وہ جنگ کی باتیں کر رہے ہیں تو دوسری طرف تحریک انصاف کی حکومت کو یہ کریڈٹ دینے کی کوشش کرتے بھی دکھائی دیتے ہیں کہ اس نے انتہاپسند گروہوں کو لگام دی ہے۔ ورنہ ماضی کی حکومتوں نے جو ’ناکام پالیسیاں‘ بنائی تھیں، ان کے ہوتے پاکستان کے عسکری گروہ مقبوضہ کشمیر میں مداخلت کرنے کا سبب بنے تھے۔ گویا وزیر اعظم ایک طرف کشمیر کے معاملہ پر سر کفن سے باند ہ کر ایٹمی جنگ کی بات کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے اور دوسری طرف بھارت کو یقین دلا رہے ہیں کہ ان کی حکومت مقبوضہ کشمیر میں کسی قسم کی مداخلت نہیں کرے گی۔ وہ چاہیں تو انٹیلی جنس کے ذریعے پاکستانی پالیسی کی تصدیق کر سکتے ہیں۔

دنیا کا کوئی مسئلہ جنگ کے ذریعے حل نہیں ہو سکتا۔ جنگوں کے بعد بھی معاملات طے کرنے کے لئے فریقین کو مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر معاملات طے کرنے پڑتے ہیں۔ جیسا کہ امریکہ نے 18 برس تک جنگ میں ملوث رہنے کے بعد بالآخر مذاکرات کے ذریعے اس جنگ سے نجات حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔ کشمیر کا معاملہ 70 برس سے تنازعہ اور کشیدگی کا سبب بنا ہؤا ہے۔ ماضی میں اس مسئلہ کو جنگ سے حل کرنے کی کوششیں ناکام رہی ہیں بلکہ اس کے نتیجہ میں پاکستان کی مالی و سیاسی مشکلات میں اضافہ ہؤا۔

اب بھی جنگ، ا س مسئلہ کا حل نہیں ہوسکتی۔ پھر بھی اگر جنگ کو ایک ممکنہ آپشن کے طور پر اختیار کیا جارہا ہے تو اس کا واضح اعتراف کرنے اور پاکستانی عوام کو اس کے لئے ذہنی طور پر تیا رکرنے کی ضرورت ہوگی۔ ساتھ ہی یہ بھی واضح کرنا پڑے گا کہ کسی ممکنہ جنگ کے مالی بوجھ اور سفارتی تعلقات میں پڑنے والی دراڑ سے نمٹنے کے لئے کیا منصوبہ بندی کی گئی ہے۔

عمران خان کو اقتدار سنبھالے ایک برس بیت چکا ہے۔ اب تک انہیں اس بات کا بخوبی ادراک ہوجانا چاہیے کہ کوئی بھی وزیر اعظم بات کرتے ہوئے اپنی حکومت کی پالیسی لائن کو نظر انداز نہیں کر سکتا۔ اگر وہ ایسا کرے گا تو معاملات حکومت پر اس کی گرفت کمزور ہوتی جائے گی اور لوگ اس پر اعتبار کرنا چھوڑ دیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali