انچولی کے چند عجیب و غریب لوگ


انچولی میں شاعر ادیب، دانشور اور علما ہی نہیں، عجیب و غریب لوگ بھی رہتے تھے۔ دوسرے علاقوں کی انوکھی شخصیات بھی وقتاً فوقتاً یہاں حاضری دیتی تھیں۔ میں نے اپنے لڑکپن میں ایسے لوگوں کو انچولی میں گشت کرتے دیکھا ہے۔

ایک کردار ہارمونیم والا ملنگ تھا۔ دبلا پتلا، منحنی سا۔ کھچڑی بال۔ ملگجا کوٹ پینٹ پہنے رہتا تھا۔ گلے میں ہارمونیم کا پٹا ڈال کر اس بھاری ساز کو اٹھائے پھرتا تھا۔ ذہنی حالت ٹھیک نہیں لگتی تھی۔ میں نے اکثر اسے محرم میں دیکھا لیکن اور دنوں میں بھی آجاتا تھا۔ میدان میں پہنچ کر گول گول گھومنا شروع کردیتا۔ اتنے زور سے گھومتا کہ ہارمونیم ہوا میں رقص کرنے لگتا۔ میں بچپن میں کئی بار ایسا کرچکا تھا اس لیے جانتا تھا کہ چند چکر لگانے کے بعد دماغ گھوم جاتا ہے۔ لیکن اس ملنگ کا دماغ پہلے ہی گھوما ہوا تھا۔ تھوڑی دیر بعد وہ رک جاتا اور ایسے بار بار سر جھکاتا جیسے پرفارمنس کے بعد داد وصول کررہا ہو۔ کبھی ہارمونیم بجاکر کوئی گیت یا نوحہ بھی سناتا لیکن الفاظ سمجھ نہ آتے۔ خدا جانے کون تھا اور کہاں رہتا تھا، کون کھلاتا پلاتا تھا۔

ایک انکل بھی کسی اور علاقے سے انچولی آتے تھے۔ چار فٹ قد ہوگا۔ بال سفید، داڑھی مونچھیں سفید، بھنوئیں تک سفید۔ مجلسوں میں شرکت کے سوا انھیں دنیا میں کوئی کام نہیں تھا۔ منبر کے بالکل سامنے بیٹھ جاتے اور بہت زور سے صلوات پڑھتے تھے۔ انچولی کے لڑکوں نے ان کا نام صلے علیٰ رکھ دیا۔ ایک بار امام بارگاہ سے نکل کر بس اسٹاپ جارہے تھے کہ میرے شرارتی دوست خرم نے زور سے صلے علیٰ پکارا۔ انھوں نے سن لیا اور اسے مارنے کو دوڑے۔ معلوم ہوا کہ غصے والے تھے۔

ایک نوجوان بھکاری کچھ عرصہ تواتر کے ساتھ انچولی آنے لگا تھا۔ وہ مجھے زہر لگتا کیونکہ صبح سویرے گلی میں آکر بھیک مانگتا تھا۔ آواز گونج دار تھی اور گہری نیند سے جگادیتی تھی۔ وہ امام حسین، مولا عباس اور اہل بیت کا صدقہ ایسے دردناک انداز میں مانگتا کہ رقیق القلب خواتین اور بزرگ کچھ دیے بغیر نہ رہ پاتے۔ کسی نے بتایا کہ وہ اچھے خاندان کا لڑکا تھا لیکن نشے کی عادت میں پڑگیا تو باپ نے گھر سے نکال دیا۔ ایک دن میں نے اسے سہراب گوٹھ کے چوراہے پر نشے کا انجکشن لگاتے ہوئے دیکھا تو نفرت ہوگئی۔ وہ بھیک مانگتے ہوئے لرزنے لگتا اور اس کا جسم جھٹکے کھاتا۔ پھر صبح کو اس کی آواز آنا بند ہوگئی۔ نشہ جان لے گیا ہوگا۔

ایک اور عجیب شخص بھی کبھی کبھار انچولی میں دکھائی دیتا تھا۔ طویل قامت۔ بڑا سا پیٹ نکلا ہوا۔ لمبا کرتا اور سر پر گول ٹوپی۔ گہری رنگت تھی اور افریقی معلوم ہوتا تھا۔ خاص بات یہ تھی کہ گھڑی نہیں پہنتا تھا لیکن شاید اس کے پیٹ میں کوئی گھڑیال نصب تھا۔ لڑکے راہ چلتے اس سے وقت پوچھتے اور وہ آسمان کی طرف منہ اٹھاکر بالکل ٹھیک بتاتا۔ میرے سامنے کئی بار یہ واقعہ ہوا اور میں ہر بار حیران ہوا۔

ایک لڑکا انچولی میں اس گلی میں رہتا ہے جہاں پہلے ممتاز شاعر حسن اکبر کمال رہتے تھے۔ بظاہر مجہول سا ہے لیکن اس کے پاس بھی ایک کرامت ہے۔ اس سے پوچھیں کہ پانچ سال پہلے عید کون سی تاریخ کو تھی یا آئندہ سال عاشورہ کس تاریخ کو ہوگا تو وہ بے سوچے درست جواب دیتا ہے۔ عقل میں یہ بات نہیں آتی لیکن آزمائی ہوئی ہے۔ دوسرے لوگ خود بھی آزما سکتے ہیں۔

ایک مزے کی شخصیت بھائی وقار ہیں۔ انچولی کے بہت سے لوگ ان سے واقف نہیں۔ ہم کراچی منتقل ہونے کے بعد سب سے پہلے انھیں کے گھر میں کرائے دار رہے۔ وہ شروع میں پراسرار لگے۔ بوڑھی آواز، لال لال آنکھیں۔ سر پر تھوڑے سے بال تو تھے لیکن الجھے رہتے۔ خاص امروہے والوں کا بڑے پائنچے کا پاجامہ اور کرتا پہنتے اور پان کھاتے۔ اس وقت چالیس کے ہوں گے لیکن ستر کے دکھتے تھے۔ گھر سے کم نکلتے۔ ایک بار میں نے انھیں عشا کے بعد اندھیری گلی میں دیکھا تو ڈر گیا۔

بعد میں ان سے دوستی ہوگئی اور خوف ختم ہوگیا۔ میں ان کے بھانجوں صفدر غزنی کی طرح انھیں وقار ماموں کہنے لگا۔ وہ پرلطف باتیں کرتے تھے۔ معلوم ہوا کہ پینٹر ہیں اور آنکھوں میں تکلیف کے باوجود بینر اور سائن بورڈ لکھ لیتے ہیں۔ یہ کام گھر پر ہی کرتے۔ باہر زیادہ نہ نکلنے کی ایک وجہ آنکھوں کا مسئلہ تھا۔ دوسرے، ملنا جلنا زیادہ پسند نہیں کرتے تھے۔ بہت ہوا تو شام کے وقت اپنے مکان کے سامنے کھڑے ہوگئے۔ سورج چھپتے ہی چھپ جاتے۔

ان کی دونوں آنکھوں میں لال جھلی پتلی تک چڑھی ہوئی تھی۔ ڈاکٹر نے سرجری کرکے صاف کرنے کی پیشکش کی لیکن وقار ماموں کو آپریشن کے نام سے ڈر لگتا تھا۔ انھوں نے آنکھوں میں تکلیف گوارا کرلی لیکن آپریشن نہیں کروایا۔

ان کا ایک دوست کبھی کبھی ملتے آتا۔ مجھے نام یاد نہیں۔ لیکن یہ یاد ہے کہ وہ دونوں ایک خاص زبان میں گفتگو کرتے تھے۔ زبان تو اردو ہی تھی لیکن ہر لفظ میں دو تین کاف آتے۔ وہ دونوں یہ کیسے کرلیتے تھے اور ایک دوسرے کی بات کیسے سمجھ لیتے تھے، میری سمجھ میں کبھی نہیں آیا۔ اگر آپ کو وہ زبان آتی ہے تو انچولی جاکر وقار ماموں سے گفتگو کرسکتے ہیں۔

مبشر علی زیدی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مبشر علی زیدی

مبشر علی زیدی جدید اردو نثر میں مختصر نویسی کے امام ہیں ۔ کتاب دوستی اور دوست نوازی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ تحریر میں سلاست اور لہجے میں شائستگی۔۔۔ مبشر علی زیدی نے نعرے کے عہد میں صحافت کی آبرو بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔

mubashar-zaidi has 194 posts and counting.See all posts by mubashar-zaidi