’کھڑکیاں کون کھلی چھوڑ گیا…‘


بعض لوگوں کو اپنی مشابہت فلمی ایکٹروں میں تلاش کرنے کا شوق ہوتا ہے۔ ہماری نوجوانی میں یہ جاننے کا خبط عام تھا کہ بھئی، کس کس کی آنکھیں بھارتی اداکارہ ہیما مالنی سے ملتی ہیں۔ دو ایک دوستوں کو جواب میں سننا پڑا کہ جاؤ ہیما مالنی تو ایک طرف، تمہاری تو ایک آنکھ دوسری سے نہیں ملتی۔ اسی وضع کا ایک نوجوان گورڈن کالج راولپنڈی کی ادبی تقریب میں نظم سنانے کے لئے اٹھا تو اُس نے اپنا ’زاویہ نگاہ‘ درست رکھنے کے لئے بالوں کی لِٹ اپنی ایک نسبتاً چھوٹی آنکھ پہ گرا رکھی تھی۔ نظم کا عنوان تھا ’کالج کا لیڈیز گارڈن‘ جس کے گرد ایک گھنی باڑ چادر اور چار دیواری کی حفاظت کیا کرتی۔ نوجوان شاعر نے باڑ کو پھلانگنے کی علامتی خواہش ظاہر کرتے ہوئے کہا ’میرے ماتھے پہ آنکھوں کی دو تتلیاں ……‘ سامعین میں سے آواز آئی ’ڈیڑھ تتلی‘۔ شاعری قہقہوں کے شور میں ڈوب گئی۔

اگر آپ سراغرسانی کا مزاج رکھتے ہیں تو اِس واقعہ میں بھی تنقیدی جگالی کے لئے کئی نکتے نکل آئیں گے۔ جیسے یہی سوال کہ پروفیسر جیلانی کامران کی زیرِ صدارت جوبلی ہال کی بیسمنٹ میں ہونے والی اس محفل میں ’کون تھا یہ گستاخ‘؟ جُگت سن کر پرنسپل خواجہ مسعود نے کس رد عمل کا اظہار کیا؟ اور مسٹر شاہد ملک، فقرے کا ہدف بننے والا تمہارا مرحوم دوست اگر آج اِس دنیا میں ہوتا تو کیا تم یہ کہانی اُس کے سامنے دہرانے کی جرأ ت کر سکتے تھے؟ عرض ہے کہ تقریب میں خواجہ مسعود نے ہنسی بمشکل ضبط کی تھی۔ فقرہ باز پچھلی نصف صدی کا عظیم ترین ادبی مخولیا شعیب بن عزیز تھا۔ رہا یہ کالم نگار تو جنت کی کھڑکی سے جھانکنے والے جُگت زدہ شاعر امانت ندیم کی دائمی مسکراہٹ سے حوصلہ پاکر وہ صرف یہی قصہ نہیں، کچھ اور کہانیاں سنانے کا ارادہ بھی رکھتا ہے۔

ہماری کہانیاں شاعری کے لورے میں رہنے والی اُس انسانی تکون کے گرد گھومتی ہیں، جس کا زاویہئ قائمہ زمان ملک تھا۔ بطور طالب علم لاہور سے راولپنڈی آ جانے پر میری اِس نئے ہم جماعت سے آشنائی گورڈن کالج کا گیٹ پار کرتے ہی ہو گئی۔ پھر یہ تعلق عین اُس لمحے پکی دوستی میں بدلا جب زمان نے چھٹی ہونے پر مجھے سڑکوں پہ گھومتے رہنے کی بجائے ہر روز کچھ نہ کچھ وقت ساتھ گزارنے کی کھلے دِل سے دعوت دی تھی۔ ’دوپہر نوں میرے ول آ جایا کر، چنگی روٹی نوں چھڈ کے ہر سہولت ملے گی‘۔ اِس بے ساختہ پن کی بدولت زمان جلد ہی میری لغت میں خان بن گیا، جو اُس کا گھر کا نام تھا۔ ہاں، ڈیڑھ تتلی والے امانت ندیم مرحوم میرے لئے ہمیشہ ندیم صاحب ہی رہے جن سے پہلا تعارف کمرہ جماعت میں زمان ہی نے کرایا اور پھر وہ ہم تینوں کے مشترکہ شعری مجموعے کے پبلشر بھی بن گئے۔

آج کی تاریخ میں امانت ندیم کے لئے میرا مودبانہ رویہ کچھ عجیب سا لگتا ہے۔ شاید سبب یہ ہو کہ ندیم صاحب، جو عمر میں زمان اور مجھ سے کوئی تین سال بڑے ہوں گے، پہلے سے ریاضی میں ایم ایس سی تھے اور موجودہ ’ماورا‘ والے خالد شریف کے ساتھ کتابیں چھاپنے کا کام بھی کرتے تھے۔ ہمارے ایم اے انگریزی میں اُن کا داخلہ ایک ہابی سمجھ لیں۔ کاروباری دہشت اُن کے ویسپا اسکوٹر اور اسی رنگ کے ہلکے نیلے ٹائی سوٹ کی بدولت اُور نمایاں ہو جاتی۔ گورڈن کالج سے نکل کر جب کبھی ہم لوگ لیاقت روڈ کی طرف آئے تو پڑاؤ مری روڈ کے سنگم پر الحیات یا اس سے آگے سٹی ہوٹل میں ہوا جہاں میزبانی کسی غیر تحریری معاہدے کے تحت ہمیشہ ندیم نے کی۔ یہ بھی تھا کہ انٹر کالج مشاعروں میں نمائندگی کا خرچہ بیک وقت دو شعراء کو ملتا، لیکن ایک خاموش سمجھوتے کے تحت ہر مشاعرے میں ہم تینوں کی ٹیم ایک ساتھ جایا کرتی۔

بین الکلیاتی مشاعروں کو کرکٹ کی اصطلاح میں تخلیقی سرگرمیوں کا ٹونٹی ٹونٹی سمجھنا چاہئے۔ ہم تینوں اُن پیشہ ور طلبہ میں نہیں تھے جن کی گزر بسر کالج یونیورسٹی کے شعری اور تقریری مقابلوں پہ ہوتی ہے۔ پھر بھی کئی بار کلاس میں پہنچ کر پتا چلتا کہ آج ہی پچھلے پہر کسی مقامی درس گاہ میں مشاعرہ ہے اور کل بھی اسی غرض سے شہر سے باہر جانا ہو گا۔ تینوں میں سے ایک آدمی نظم کہنی شروع کر دیتا اور باقی دو بندے طرحی غزل کے مصرعے جوڑنے لگتے۔ میچ جیتنے کے لئے ہم نے اتنی نیٹ پریکٹس کر لی تھی کہ تکون کے ضلعے ذرا آگے پیچھے ہو بھی جائیں تو تینوں زاویوں کا مجموعہ دو قائموں کے برابر ہی ٹھہرتا۔ اِس سارے عمل میں چالاکی یہ تھی کہ قافیہ گھسی پٹی ڈگر سے ہٹ کر باندھو اور گرہ لگاتے ہوئے تھوڑا سا ڈرامائی تاثر بھی پیدا کرو۔ نمونے کے طور پر یہ مصرعہ طرح جسے مطلع ہی میں لپیٹ دیا تھا:

ہر چند اُس کی اپنی انا بھی شریک ہے

’انساں کی آرزو میں خدا بھی شریک ہے‘

چونکہ لوگوں کو شاعرانہ کلام میں معانی تلاش کرنے کی عادت ہوتی ہے، اس لئے ہو سکتا ہے آپ پوچھیں کہ آخر اِس شعر کا مطلب کیا ہے۔ میں جواب میں اپنے عہد کے مقبول استادِ ادب پروفیسر انور مسعود کا یہ مزاحیہ قول دہراؤں گا کہ ’میریاں نظماں دی پرہیز ایہہ ہے کہ ایہناں تے بوہتا غور نئیں کرناں‘۔ مشاعرہ پڑھنے کے انداز میں ہم تینوں انور مسعود سے زیادہ احمد ندیم قاسمی کی ادائیگی سے متاثر تھے، اِس لئے اُنہی کی طرح سگریٹ پی پی کر ذرا بیٹھی ہوئی مگر گمبھیر آواز نکالنے کی کوشش کرتے اور خاص خاص الفاظ ایک متین اتار چڑھاؤ کے ساتھ ادا کرکے مشاعرہ لوٹ لیتے۔ اگر ہو سکے تو ندیم قاسمی کا لہجہ یاد کیجئے اور پنڈی کے حشمت علی اسلامیہ کالج میں جہاں، مرزا غالب ہماری مشق ِ سخن کی زد میں آئے، میری غزل کی ’ٹرن‘ لیتی ہوئی گیند دیکھئے:

غم کی تجلیات کو ارزاں کئے ہوئے

ہم آ گئے ہیں چاک گریباں کئے ہوئے

شہرِ خیال میں کبھی اترے نگارِ غم

’مدت ہوئی ہے یار کو مہماں کئے ہوئے‘

ایک مرتبہ گورنمنٹ کالج، اٹک کے انٹر کالجیٹ انعامی مشاعرے میں پرنسپل، لیفٹیننٹ کمانڈر ظہور احمد، ڈاکٹر غلام جیلانی برق اور پشاور کے ترقی پسند شعرا فارغ بخاری، رضا ہمدانی اور خاطر غزنوی کے سامنے بھی میں نے خاطر صاحب کی مقبول زمین میں غزل سنائی تھی:

سچ کہا تو سوئے مقتل تیرے دیوانے گئے

پھر بھی خوش ہیں وقت کے منصور گردانے گئے

چپکے چپکے بوئے گل کو لے اڑی موج صبا

’مجھ سے پہلے اُس گلی میں میرے افسانے گئے‘

دیکھنا جس دن چلی شاہد ہوائے انقلاب

شہر کے اونچے مکاں، دولت کے کاشانے گئے

ظاہر ہے مقطع میں جو سرپرائز پوشیدہ تھی، اس نے رنگ دکھایا اور اساتذہ نے داد دی۔

پر جی، حاصل مشاعرہ میرا کلام نہیں بلکہ زمان ملک کی غزل تھی جسے امانت ندیم اور میں اپنے پروفیسر کے طور پہ ساتھ لے گئے تھے۔ بیس سالہ زمان نے انٹر کالجئیٹ مقابلہ کے بعد سینئر شعرا کے دور میں بزرگانہ شان کے ساتھ اپنی غزل پڑھی اور آگ لگا دی۔ مقطع سن کر پروفیسر انور مسعود نے کھڑے ہو کر ہاتھ ہوا میں لہرائے۔ ’کیہہ کہہ گیا ایں زمان ملک…… کھڑ کیاں کون کھلی چھوڑ گیا آنکھوں کی‘۔ والہانہ داد دیتے ہوئے انور مسعود نے پنجابی طریقہ کے مطابق لفظ ’ملک‘ کے درمیانی حرف کی زیر یا زبر کو جزم سے بدل دیا تھا۔ آپ میری بات نہیں بھی سمجھے تو زمان کی اس یاد گار غزل کے دو ایک شعر تو سن لیجئے:

ہم نے جس شخص کو سمجھا تھا ضیا آنکھوں کی

آخر کار گیا شمعیں بجھا آنکھوں کی

دیکھنے میں تو فقط خون کی تحریریں ہیں

لوح پر جانے وہ کیا لکھتا رہا آنکھوں کی

تیرگی دل میں اترنے لگی راتوں کی زمان

کھڑکیاں کون کھلی چھوڑ گیا آنکھوں کی

چھیالیس سال کے وقفے سے زمان ملک نے گورڈن کالج والی ایم اے کی کلاس کا گروپ فوٹو فیس بک پہ لگایا تو کیا دیکھا کہ امانت ندیم آزاد کشمیر کے موجودہ صدر مسعود خان کی طرح اساتذہ والی کرسیوں پہ ڈٹے ہوئے ہیں۔ پر اِس شان سے کہ تصویر میں بھی بالوں کی لِٹ دائیں آنکھ کی پردہ داری کر رہی ہے۔ اِس تجدید ِ ملاقات پر امانت ندیم کی شاعری میرے کالم کا موضوع بنتی تو اچھا تھا۔

اِس لئے بھی کہ ہم تینوں کے منتخبہ مجموعے کی اشاعت کے عمل میں اِس دوست نے مشہوری کے نسخے ہی نہیں، کتابوں کی تجارت کے ایسے اسرار و رموز بھی سمجھا دیئے تھے کہ پھر دوبارہ اپنا کلام چھپوانے کی جرات نہیں کی۔ یہ داستان کسی اور دن کے لئے۔ آج بس اتنا ہی کہ زمان ملک کی ’کھڑکیاں کون کھلی چھوڑ گیا‘ والی غزل ہو یا امانت ندیم کی ’تو نے کس پیڑ پہ جا رنگ بکھیرے اپنے‘ دونوں کا گمشدہ ہیرو ایک ہی ہے…… اور وہ ہے عین جوانی میں دنیا سے منہ موڑ لینے والا امانت ندیم:

تو نے کس پیڑ پہ جا رنگ بکھیرے اپنے

میری ہر شاخ پہ تو اشک ہیں میرے اپنے

تیری چپ نے ہی زمانے کی زبانیں کھولیں

تیرے سب دکھ ہیں خریدے ہوئے تیرے اپنے

اب دریچوں سے اٹھا لو یہ سوالی آنکھیں

اپنی ہی ذات سے پھوٹیں گے سویرے اپنے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).