کم ظرف پر احسان


حضرت علی علیہ السلام دنیائے اسلام کی وہ عظیم ہستی ہیں جن کے ہر قول بلکہ ہر لفظ میں دانش پنہاں ہے۔ ان کی ذاتِ مبارک علم و عرفان کا ایک ایسا چشمہ ہے جس سے دنیا کا ہر انسان مستفید ہو سکتا ہے۔ یوں تو اکثر مواقع پر ان کے اقوال ہماری رہنمائی کرتے ہیں بلکہ فکر کے نئے در وا کرتے ہیں مگر ان کا ایک قول ہم روزمرہ زندگی میں بار بار سنتے ہیں کہ اگر کسی پر احسان کرو تو اُس کے شر سے بچو۔ تو کیا حضرت علی علیہ السلام جیسی صاحبِ فراست ہستی لوگوں کو ایک دوسرے کی مدد سے دور کر سکتی ہے کیوں کہ کائنات میں تمام انسان احسان کی رسی میں بندھے ہوئے ہیں اس لئے اس مقولے کی تفہیم میں ہم سے غلطی ہوئی ہے ورنہ لوگ احسان کرنا بند کر دیں تو معاشرہ کی کشاد اور ہم آہنگی یوں ختم ہو جائے کہ وہ تنہا انسانوں کا زندہ قبرستان محسوس ہونے لگے۔ سماجی جڑت ایک دوسرے کے کام آنے سے پیدا ہوتی ہے حتیٰ کہ محبت اور احساس کے رشتے بھی اسی سے جنم لیتے ہیں۔

ارسطو نے انسان کو سماجی حیوان کہا ہے۔ سماج ایک ایسی کڑی ہے جس کے بغیر اس کا گزارا نہیں۔ دنیا جہان کی نعمتیں اور آسائشیں بے وقعت ہو جائیں اگر فرد کو بات کرنے، صلاحیتوں کا اظہار کرنے اور رابطے کے لئے اپنے جیسے انسان میسر نہ ہوں۔ بھلے انسانوں کی فطرت اور رویوں میں تضاد ہو مگر پھر بھی ان کا موجود ہونا ایک نعمت سمجھا جاتا ہے اس لئے انسان کسی ایسی دنیا کا تصور ہی نہیں کرتا جہاں اُس کے علاوہ کوئی نہ ہو۔ شاعر بھی چند لمحوں کی یاسیت دور ہونے کے بعد حقیقی دنیا سے جڑت کو ہی اہم جاننے لگتا ہے۔ روحانیت اور ظاہری علوم پر سند کی وجہ سے حضور ﷺ نے انہیں علم کی اس عمارت کا دروازہ کہا جس کے وہ خود مکین و مختار ہیں۔

دراصل سماج اِنسانوں کے رابطے اور اخوّت کا ایسا ادارہ ہے جہاں فرد صاحبِ حیثیت ہوتے ہوئے بھی خود کفیل نہیں۔ مختلف ضرورتوں اور کاموں کے لئے اُسے دوسروں کی رہنمائی، مدد اور خدمت کی ضرورت پڑتی ہے۔ ہر انسان کی زندگی میں قدرت کی طرف سے کچھ وسیلے بنائے جاتے ہیں جو اُسے منزل تک پہنچنے میں مدد دیتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ انسان کی اسّی فیصد قسمت اس کے جینز میں رکھ دی جاتی ہے جب کہ اس کا اختیار اور صوابدید صرف بیس فیصد تک ہے کہ وہ موقع و محل کے مطابق ردِّعمل کا اظہار کرے اور درست وقت پر درست فیصلہ کرے تاہم کبھی کبھی یہ بیس فیصد اسی فیصد پر حاوی ہو جاتا ہے کیوں کہ طلبگار اس دروازے پر دستک ہی نہیں دیتا جس کے اندر اس کے خوابوں کی تعبیر منتظر ہوتی ہے۔ کبھی فیصلہ سازی کے فقدان اور کبھی خوف کے باعث عمل سے اجتناب ناکامی کا سبب بنتا ہے۔

ہر انسان کی زندگی میں احسان کے کئی مقام آتے ہیں۔ یہ بھی معاشرے کو مربوط کرنے کی ایک شکل ہے۔ احسان کرنے والے کا یہ افتخار ہے کہ وہ احسان کر کے بھول جائے مگر احسان لینے والے کی یہ پہچان کہ ہمیشہ احسان مندی کے جذبات سے لبریز رہے۔ حضرت علی علیہ السلام کے قول کی تشریح کرتے ہوئے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ان کا اشارہ کم ظرف انسان کی جانب ہے جس کے دامن میں زیادہ کچھ سمیٹنے کی جگہ نہیں ہوتی اس لئے اپنی اوقات بھول کر دشمنی اور برابری پر اُتر آتا ہے کئی بار اس کا احساسِ کمتری سرکشی کا روپ دھار کر اُس ہستی کے مقابل لے آتا ہے کہ وہ احسان کرنے والے کو خود سے برتر سمجھ کر اُس سے مخاصمت پر تُل جاتا ہے۔

یہی وہ مقام ہے جب اس کا جوہرِ انسانیت بکھر جاتا ہے، انتقام اور نفرت کی آگ اسے جلا کر راکھ کرنے لگتی ہے اور رفتہ رفتہ رحمتِ خداوندی اس سے دُور ہونے لگتی ہے۔ مگر اس دوران وہ خبثِ باطن سے نکلنے والی شر کی آگ سے اپنے محسن کو جلانے کی کوشش کرتا ہے اور کچھ نقصان بھی پہنچا دیتا ہے۔ اسی لئے کہا گیا کہ اگر کم ظرف پر احسان کرو تو اس کے شر سے بچو۔ احسان کرنے والا اپنی فطرت سے مجبور ہوتا ہے۔ وہ خیر اور نیکی کے رستے پر چلتا ہوا اپنی فطرتِ سلیم کے تحت ہمیشہ دوسروں کی مدد کرنے پر آمادہ ہوتا ہے۔

اس کے باطن میں جگمگاتے خیر کے چشمے اسے کسی کو نقصان پہنچانے کی اجازت ہی نہیں دیتے۔ قدرت نے اس کی رسّی مضبوطی سے تھامی ہوتی ہے۔ وہ اپنے مرکز سے دور نہیں جا سکتا۔ وہ مرکز جو نُور کا گہوارہ ہے ایسے میں اگر ذرا سا تکبر اُس کے دل میں آ جائے تو رسّی کھینچ کر زور کا جھٹکا دیا جاتا ہے۔ مگر دوسری طرف وہ لوگ ہوتے ہیں جو اپنی نفرت کی آگ میں جل بجھ کر رذالت کی اس سطح پر پہنچ چکے ہوتے ہیں جہاں دلوں پر مہریں لگ جاتی ہیں۔ یہ بھی تقدیر غیر مبرّم کا وہ فیصلہ ہے جس میں انسان کا اختیار بھی شامل ہے۔ دراصل جب کوئی انسان اپنے باطن کی آواز پر کان نہیں دھرتا اور غلط سمت کا رُخ کر لیتا ہے تو پھر منطقی نتیجہ بھٹکنے اور نقصان اٹھانے کے سوا کچھ نہیں نکلتا۔

حضرت علی علیہ السلام کے فرمان کے مطابق نیک فطرت لوگوں کو خبر ہوتی ہے کہ ظرف والا اور کم ظرف کون ہے اس لئے جب وہ ظرف والوں کی رہنمائی کرتے ہیں تو وہ انہیں احساسِ تشکر سے نہال کرتے ہیں لیکن جب وہ کم ظرف سے اچھا سلوک کرتے ہیں تو جواباً کسی حسنِ سلوک کے طلبگار ہوتے ہیں نہ زیادہ راہ و رسم کے قائل کہ احسان فراموش کی فطرت میں ڈنک مارنا اس طرح شامل ہوتا ہے جیسے زہر میں ہلاکت۔ اسی لئے جنابِ علی علیہ السلام کے قولِ فیصل کی رو سے ایسے لوگوں سے محتاط رہنے کی تلقین کی گئی ہے۔

حضرت علی علیہ السلام انسانی رویوں اور انسان کی جبلّی قوتوں کے مثبت اور منفی اثرات سے واقف تھے اس لئے انہوں نے زندگی کی بڑی حقیقت کی طرف اشارہ کیا۔ ضروری ہے کہ اس قول کو صرف کم ظرف انسانوں کے حوالے سے پڑھا جائے ورنہ اگر یہ مقولہ ہر انسان کے ساتھ وابستہ کر لیا جائے تو پھر آپس میں اخوت اور یگانگت کی فضا ہی ختم ہو جائے۔ یہ قدرت کا نظام ہے ہم سب کسی نہ کسی کے احسان مند ہوتے ہیں اس طرح ہم احساسِ تشکر سے لبریز رہتے ہیں۔

وہ تشکر جو خدا کو پسند ہے۔ وہ چاہتا ہے بندہ اس کی نعمتوں کا شکر کرے اس لئے وہ اپنی نعمتوں اور احسانات کا تذکرہ کر کے انسان کو شکر کی طرف راغب کرتا ہے۔ شُکر کرنے سے ایک عجیب تسکین اور خوشی میسر آتی ہے، بے چینی اور اضطراب کم ہو جاتا ہے اور اِنسان خود کو یکایک تپتی فضا سے گھنی چھاؤں میں خود کو محسوس کرتا ہے۔

ہزاروں کروڑوں سال سے زندگی کا سفر جاری ہے جس میں ایک چھوٹے سے وقفے کے لئے ہم سٹیج پر آتے ہیں۔ اِس وقت کو اچھی طرح گزارنا ہمارے اپنے ہاتھ میں ہے ورنہ فراعین بھی چلے جاتے ہیں اور سکندر بھی مگر اچھے اعمال اور دانش بھرے لفظ زندہ رہتے ہیں، خوشبو کی طرح اُڑتے پھرتے ہر طرف مہک رچاتے ماحول کو خوشگوار بناتے۔ آئیے زندگی کی ہماہمی سے وقت چرا کر ان بھلے لوگوں کے بارے میں بھی سوچیں جن کے احسان کے ہم مقروض ہیں۔ اگر ہم نے کسی پر احسان کیا ہے تو مت بھولیں کہ اس زندگی میں بہت سے لوگوں نے ہم پر بھی احسانکیے ہوں گے۔ سو ذرا وقت نکال کر ان لوگوں کا شکریہ ادا کرتے چلیں جنہوں نے کسی مشکل وقت میں ہماری داد رسی کی۔ اُن کے حق میں دُعا کر کے اپنا آپ بلند کر لیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).