زندگی دھوپ چھاوں کا کھیل


کل کی بات ہے نماز جمعہ کی ادائیگی کے لئے مسجد کا رخ کیا۔ قیامت خیز گرمی مزاج پوچھ رہی تھی۔ سورج جیسے سوا نیزے پہ۔ حبس کے مارے سانس رکتا ہوا۔ حدت یوں جیسے قریب کوئی آتش فشاں پھٹ پڑا ہو۔ نصف ستمبر بیت چلا مجال یے جو موسم مہربان ہوا ہو۔ کچھ غضب سی تپش ہے فضا میں۔

نماز جمعہ کی ادائیگی کے دوران پسینہ سر سے پاوں تک بہنے لگا۔ مسجد سے باہر نکلا تو سورج بادلوں کی اوٹ میں چھپ چکا تھا۔ لیکن گرمی جوں کی توں۔

کوٹلہ سے کھاریاں کی راہ لی۔ قطب گولڑہ سے نکلتے ہی گاڑی کی ونڈ اسکرین پر بارش کے چھینٹے دکھائی دیے۔ یا حیرت یہ وہم تھا یا حقیقت؟ بس پھر کیا تھا ابر رحمت کھل کے برسنے لگا۔ جیسے پیاس کے مارے جاں بلب دھرتی کی تشنگی مٹانے کو بے تاب ہو۔ بمشکل پل تک پہنچا کہ طوفانی بارش نے آن لیا۔ پل بھر میں جل تھل کیسے ہوتا ہے آج پتہ چلا۔

جھومتی مچلتی گھٹائیں سرگوشیاں کرتی سنائی دیں۔
کیوں ہم سے خفا ہو گئے ہو اے جان تمنا
بھیگے ہوئے موسم کا مزا کیوں نہیں لیتے
کفران نعمت ہوتا جو اس نظارے سے منہ موڑ کے نکل جاتا۔ گاڑی سائیڈ پہ پارک کی اور باہر نکل آیا۔

آنکھوں کو یقین آ کے ہی نہیں دے رہا تھا۔ کہ ابھی چند لحظے قبل کیا موسم تھا۔ بارش کا دور دور تک کوئی امکان تھا نہ پیشین گوئی۔ لیکن یہی تو میرے رب کے کارخانہ قدرت کا کمال یے۔ جہاں انسانی علم کے سارے قیافے سر پٹخ پٹخ کر جواب دے جائیں وہاں کرشمے ہو جاتے ہیں۔

رم جھم برستی برکھا مشام جاں کو سرشار کرتی یخ بستہ ہوائیں ہر سو لہلہاتا سبزہ دور کشمیر کے پہاڑوں کی چوٹیوں سے گلے ملتا نیلگوں فلک۔ تپتے سلگتے وجود پہ ابر رحمت کی بوندیں پڑیں تو جیسے من کو قرار آ گیا ہو۔

بانہیں وا کیے آسمان کی جانب چہرہ اٹھایا اور آنکھیں بند کر لیں۔ سرشاری سی سرشاری جیسے ماں نے اپنی مہربان آغوش میں لے لیا ہو۔ سوچا میرا رب بھی تو ستر ماؤں سے بڑھ کر مہربان یے۔ ہمیں کبھی اپنی رحمت سے مایوس نہیں ہونے دیتا۔ ہمارے اعمال اس قابل نہ بھی ہوں تو وہ خشک ہوتی کھیتیوں کی سنتا یے۔ پیاس سے نڈھال پرندوں پہ رحم کھاتا ہے۔ بے زبان جانوروں کی آنکھوں میں لکھی فریاد پڑھ لیتا ہے۔

ٹوٹ ٹوٹ کے برستی بارش کو اپنے تن من میں اچھی طرح کشید کر لینے کے بعد واپسی کا سفر شروع کیا۔ جونہی کوٹلی بجاڑ کی حدود سے باہر نکلا تو کیا دیکھا کہ اس سے آگے زمین خشک پڑی تھی۔ جییسے مہینوں کی پیاسی ہو۔ گلیانہ پہنچا تو دست قدرت کا تخلیق کردہ ایک اور رنگ آنکھوں کے سامنے تھا۔ سرمئی بادلوں کی اوٹ سے جھانکتا ہوا سنہری سورج۔ جیسے کوئی شرارتی بچہ کہہ رہا ہو مجھے ڈھونڈ لو میں یہاں ہوں۔ موسلا دھار بارش تھمتے ہی سورج کا نکلنا یوں جیسے چلمن کی اوٹ سے جھانکتی کوئی الہڑ مٹیار۔ یا پھر روتے روتے اچانک کوئی حسینہ ہنس پڑے اور کہے بہت خراب ہو تم!

فطرت کے ان حیران کن نظاروں کے سحر میں کھوئے ہوئے نصیرہ پہنچا تو پھر وہی دھوپ تھی۔ وہی حبس جو دن بھر جان کو آیا رہا۔ راستے میں خود پر برسنے والی بارش کچھ پل کا مہربان موسم ایک خواب سا لگنے لگا۔

چند کلومیٹر پر محیط سفر میں کتنے رنگ تھے فطرت کے جلوہ گر۔ جھلسا دینے والی دھوپ سیاہ گھٹائیں مچلتی بدلیاں موسلا دھار بارش پھر چمکتی دھوپ۔

یہ سب نظارے خاموش پیغام تھے کہ جیون بھی بس دھوپ اور چھاوں کا کھیل ہی تو ہے۔ کبھی خوشی کبھی غم۔ کہیں آسائشیں کہیں آزمائشیں۔ کسی کے لئے زندگی ایک بھرپور نخلستان اور کسی کے لئے لق و دق صحرا محض ایک سراب۔ کسی شے کو ہمیشگی اور دوام حاصل نہیں۔ سوائے رب کی ذات کے تو پھر یہ اکڑ کیسی؟

آو رب ارض و سما کی بارگاہ میں سجدہ شکر بجا لائیں۔ اس جیون کو نعمت خداوندی سمجھتے ہوئے اس کی قدر پہچانیں۔ زندگی کے جام سے اپنے حصے کی خوشیوں کا ایک ایک قطرہ نچوڑ کر اس کا حق ادا کریں۔

اور ہاں

ایک پل یہ بھی تو سوچتے جائیں

دوسروں کے لئے ہمارا وجود کیسا ہے؟

ٹھنڈی دلگیر چھاوں جیسا۔
یا پھر
کڑکتی دھوپ جیسا نا مہربان۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).