ملائشیا کی سڑکوں پر شہباز شریف یاد آئے


ملائشیا میں یہ میری آخری رات تھی۔ صبح فجر کے وقت مجھے ہوٹل سے روانہ ہونا تھا۔ ائیر پورٹ یہاں سے چالیس منٹ کی مسافت پر تھا۔ منہ اندھیرے ٹیکسی میں اکیلے سفر کرنے کے خیال سے مجھ پر خوف طاری تھا۔ جینی اور ماہی سے بات ہوئی۔ دونوں نے تسلی دی کہ ٹیکسی محفوظ ہے اور پریشانی کی بات نہیں۔ لیکن میری بے اطمینانی قائم رہی۔ میں نے گھر فون کیا اور امی کو اپنی فکر مندی سے آگاہ کرنے کے بعد بے فکر ہو کر سو گئی۔ مجھے یقین تھا کہ میری ماں کی دعا سے یہ مرحلہ با آسانی طے ہو جائے گا۔

زندگی میں ہر چھوٹی بڑی پریشانی کا میرے پاس صرف یہی ایک حل ہوا کرتا ہے۔ اور پھر حسب توقع ایسا ہی ہوا۔ صبح بل کی ادائیگی کے بعد ہوٹل ریسپشنسٹ کو آن۔ لائن ٹیکسی آرڈر کرنے کا کہا۔ اس نے ٹیکسی بک کروائی اور کہنے لگا۔ آپ بہت خوش قسمت ہیں۔ ٹیکسی ڈرائیور ایک خاتون ہے۔ (کوالالمپور میں محض گنتی کی چند خواتین ٹیکسی چلاتی ہیں )۔ یہ سن کر مجھے بے حد تسلی ہوئی۔ تاہم ذہن میں خیال ابھرا کہ آسمان سے گرا، کھجور میں اٹکا۔

میں نے سوچا ایک تو اندھیرا۔ دوسر ا تیز بارش برس رہی ہے۔ اوپر سے خاتون ٹیکسی ڈرائیور۔ خدا خیر ہی کرئے۔ بہرحال ٹیکسی میں سامان رکھوانے کے بعد میں اگلی نشست پر جا بیٹھی۔ ڈرائیور لڑکی کو میں نے بتایا کہ زندگی میں پہلی بار میں کسی خاتون ٹیکسی ڈرائیور کے ہمراہ سفر کر نے جا رہی ہوں۔ میں نے کہا کہ خود اپنے سمیت، خواتین کی ڈرائیونگ کے متعلق میری رائے کچھ خاص اچھی نہیں ہے۔ امید ہے کہ تم مجھے بخیریت منزل تک پہنچا دو گی۔

میری بات سن کر وہ کھلکھلا کر ہنس پڑی۔ کہنے لگی کہ مجھے ٹیکسی چلاتے دو سال ہو چکے ہیں۔ فکر مندی کی بات نہیں۔ حسب عادت میں نے ان چالیس منٹوں میں اس کا انٹرویو لے ڈالا۔ اس کی کہانی انتہائی دلچسپ تھی (جو ایک علیحدہ کالم کی متقاضی ہے )۔ وہ میڈیکل کی طالبہ تھی اور ہارٹ سرجن بننا چاہتی تھی۔ پڑھائی کے سخت شیدول کی وجہ سے وہ رات میں ٹیکسی چلاتی تھی۔ کہنے لگی کہ مجھے دن میں اچھی نوکری مل سکتی ہے۔ مگر میں ڈاکٹر بننا چاہتی ہوں۔

لہذا ٹیکسی چلانے سے بہتر کوئی اور آپشن نہیں۔ خاندان والے مجھے انتہائی بے وقوف سمجھتے ہیں۔ جو اسقدرسخت زندگی گزار رہی ہوں۔ میں نے کہا کہ ایک دن ضرور تم ہارٹ سرجن بن جاؤ گی۔ پھر جب تم پیچھے پلٹ کر دیکھو گی تو یقینا اپنے فیصلے اور ہمت کی داد دو گی۔ یہی خاندان والے تمہاری مثال دیا کریں گے۔ میں نے پوچھا کہ رات کے وقت کسی خاتون کا ٹیکسی چلانا یقینا جوکھم کاکام ہے۔ وہ فلسفیانہ انداز میں کہنے لگی کہ زندگی میں کوئی بھی کام خطرے سے خالی نہیں۔ پیدل سڑک پار کرنا بھی پر خطرکام ہے۔ گھر بیٹھے بھی کوئی قدرتی آفت ہمیں دبوچ سکتی ہے۔ اس کے ساتھ باتیں کرتے ہوئے سفر کرنا مجھے بہت اچھا لگا۔

ہم تیزی سے منزل کی جانب گامزن تھے۔ صبح فجر کے بعد کا وقت تھا۔ ہلکی روشنی پھیل رہی تھی۔ تیز بارش جاری تھی۔ سڑکیں تقریبا خالی تھیں۔ کوا لالمپور کی کشادہ سڑکیں اور استنبول کی تیز رفتار میٹرو دیکھ کر ہر مرتبہ میرا دھیان صرف ایک شخص کی طرف جاتا ہے۔ وہ ہے میاں شہباز شریف۔ کیسا متحرک اور فعال وزیر اعلیٰ تھا۔ بطور اپوزیشن لیڈر اسی قدر غیر متحرک اور غیر فعال۔ میں نے سوچا کہ اگر شہباز صاحب وزارت اعلیٰ والے تحرک اور فعالیت بروئے کار لاتے تو یقینا ملکی سیاست کا رخ مختلف ہوتا۔

پھر مجھے خیال آیا کہ دنیا بھر میں ان سڑکوں، شاہراہوں، موٹر ویز اور میٹروز کو تجارتی اور سماجی سرگرمیوں کے لئے کس قدر اہم گردانا جاتا ہے۔ لیکن میرے ملک پاکستان میں محض سیاسی بغض اور عناد کی وجہ سے انہیں گالی بنا دیا گیا ہے۔ ائیر پورٹ کی جانب محو سفر جب میں یہ باتیں سوچ رہی تھی، اس وقت میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ دوران پرواز بھی مجھے گھنٹوں موصوف شہباز شریف کا ذکر سننے کو ملے گا۔ وہ بھی ایک سیاسی خانوادے سے تعلق رکھنے والی پی۔ ٹی۔ آئی کی ووٹر اور سپورٹر خاتون کی زبانی۔

یہ خاتون اپنے دو بیٹوں، بہووں اور پوتے پوتیوں کے ساتھ ملائشیا کے تفریحی دورے کے بعد پاکستان واپس جا رہی تھیں۔ میں ان کے برابر اپنی سیٹ پر بیٹھی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے دونوں بیٹے اور بہوئیں نوکری کرتے ہیں۔ سارا سال سخت محنت کے بعد وہ اس قابل ہوتے ہیں کہ سال ڈیڑھ سال بعد کسی ملک کا تفریحی دورہ کر سکیں۔ اب کرائے دگنے ہو گئے ہیں۔ (اس وقت پلوامہ کے تناظر میں معمول کی پروازیں معطل تھیں )۔ ڈالر کا ریٹ دیکھو چند ماہ میں کہاں سے کہاں پہنچ گیا ہے۔

 مہنگائی اس قدر ہے کہ اخراجات مشکل ہونے لگے ہیں۔ تاسف سے کہنے لگیں کہ شاید آئندہ یہ سالانہ تفریخی سفر بھی ممکن نہیں ہو سکے گا۔ انہوں نے تحریک انصاف کے چند معروف سیاستدانوں کے نام لئے اور بتایا کہ یہ ہمارے قریبی عزیز ہیں۔ کہنے لگیں کہ ہم نے بہت امید سے تحریک انصاف کو ووٹ دیا تھا۔ سوچا تھا کہ ملکی حالات پہلے سے بہتر ہو جائیں گے۔ مگر اب نہایت مایوسی ہونے لگی ہے۔

تحریک انصاف کی ایک دیرینہ اور معروف خاتون سیاستدان کا نام لے کر کہنے لگیں کہ اب باجی بھی بہت مایوس ہو گئی ہیں۔ مجھے انتہائی حیرت ہوئی جب وہ کافی دیر تلک بطور وزیر اعلیٰ شہباز شریف کی کارکردگی اور منصوبوں کی تعریف کرتی رہیں۔ کہنے لگیں کہ میں (ن) لیگ کی ووٹر نہیں ہوں۔ مگر سچ یہ ہے کہ اس آدمی نے صوبے اور خاص طور پر لاہور کا نقشہ بدل ڈالا۔ اس کا کام نظر آتا ہے۔ پنجاب میں ڈینگی پر جس طرح شہباز شریف نے قابو پایا، وہ انتہائی قابل ستائش ہے۔

 یہ باتیں سن کر میں نے سوچا کہ حکومتیں اپنے کاموں کی تشہیر کے لئے بلا وجہ لاکھوں کروڑوں روپے کے اشتہارات دیتی ہیں۔ جبکہ اچھی کارکردگی کسی تشہیری مہم کی محتاج نہیں ہوتی۔ شہری خود اچھی بری کارکردگی کے چلتے پھرتے اشتہار ہوا کرتے ہیں۔ خاتون کو یہ فکر لاحق تھی کہ نواز شریف پر کرپشن کے ”سنگین“ کیس کیسے ختم ہوں گے۔ ملکی حالات کے بارے میں وہ اتنی درد مندی سے بات کر رہی تھیں کہ میں کچھ بھی کہے بغیرانہیں سنتی رہی۔

اگرچہ میرے دل میں خیال آیا کہ انہیں بتاوں کہ میرا ملک تو کیسوں اور کمیشنوں کا قبرستان ہے۔ پہاڑ پہاڑ جتنی بڑی قبر جہاں پر قائم ہے۔ میرا ملک پاکستان ٹوٹ گیا تھا۔ نوے ہزار فوجی قیدی بنا لیے گئے تھے۔ وہ کیس ہم نے نہایت سہولت کے ساتھ بند کر دیا تھا۔ حمود الرحمن کمیشن رپورٹ کو ہم نے مال مسروقہ کی طرح چھپائے رکھا۔ پاکستان کو پہلا متفقہ آئین دینے والے اور پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھنے والے ذولفقار علی بھٹو کو پھانسی دے دی گئی۔

وہ کیس بھی ہم نے بند کر ڈالاتھا۔ میرے ملک کے پہلے وزیر اعظم (لیاقت علی خان) کو گولی مار دی گئی۔ میرے ملک کی پہلی خاتون وزیر اعظم (بے نظیر بھٹو) کو گولی سے اڑا دیا گیا۔ وہ کیس بھی ہم نے بند کر دیے۔ میرے ملک میں بار بار جمہوریت پر شب خون مارا گیا۔ منتخب وزرائے اعظم کو کان سے پکڑ کر گھر بھیجا جاتا رہا۔ جلا وطن کیا جاتا رہا۔ پابند سلاسل کیا جاتا رہا۔ بار بار آئین پاکستان کو توڑا گیا۔ سنگین غداری کا ارتکاب ہوتا رہا۔

وہ تمام کیسز ہم دھڑلے کے ساتھ بند کر تے رہے۔ امریکی طیارے دندناتے ہوئے آئے، میرے ملک کے سرحدی تقدس کو پامال کرتے ہوئے۔ اسامہ بن لادن کو اٹھا کر چلتے بنے۔ وہ کیس بھی ہم نے بندکر دیا۔ میں نے سوچا کہ ان کیسوں کے آگے تو یہ مالی بدعنوانی کا کیس (جسے یہ خاتون سنگین سمجھ رہی ہیں ) نہایت معمولی حیثیت کا حامل ہے۔ پھر مجھے خیال آیا کہ پاکستان میں مہاتیر محمد اور طیب اردگان کے قصیدے پڑھے جاتے ہیں۔ ہم ترکی اور ملائشیا جائیں، تو ہمیں ان دونوں سیاستدانوں کی کرپشن اور اقربا پروری کے بہت سے قصے سننے کو ملتے ہیں۔ اس کے با وجود ان ممالک میں اسقدر فساد اور انتشار نہیں، جس کا خمیازہ ملک کے عوام، جمہوریت اور معیشت کو بھگتنا پڑے۔

جہاز اب پاکستان کی سرزمین چھونے والا تھا۔ میں نے کھڑکی سے نیچے جھانکا اور سوچنے لگی کہ ہم کس بلندی سے لڑھکتے ہوئے یہاں تک آن پہنچے ہیں۔ چند ماہ پہلے تک ملائشیا کا یہ سفر چھ گھنٹوں میں طے ہوا کرتا تھا۔ آج دگنے کرائے کے عوض یہ سفر چوبیس گھنٹوں میں طے ہوا ہے۔ کچھ سال پہلے تک پاکستانی پاسپورٹ پر درجنوں ممالک کا ائیر پورٹ ویزہ مل جایا کرتا تھا۔ آج اس پاسپورٹ کا شمار دنیا کے پانچ بدترین پاسپورٹس میں ہوتا ہے۔

چند ہی ماہ میں ہمارے روپے کی قدر بنگلہ دیش اور افغانستان کی کرنسی سے بھی کمتر ہو گئی ہے۔ دو سال پہلے تک بلومبرگ اور اکانومسٹ ہمیں تیزی سے ابھرتی ہوئی معیشت قرار دیا کرتے تھے۔ آج معیشت ملکی تاریخ کی کم ترین سطح پر کھڑی ہے۔ کس بے فکری سے ہم ڈھلوان کے سفر پر گامزن ہیں۔ کاش ہم ماضی کی غلطیوں سے کچھ سبق سیکھیں۔ کاش ہم اپنے ذ اتی اور شخصی مفادات سے بالاتر ہو کر اس ملک کے بارے میں سوچیں۔ میں نے دعا کی کہ اللہ میرے ملک پر رحم فرمائے اور ہمیں تمام مصائب سے نجات دے۔

بشکریہ روزنامہ نئی بات


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).