چرس، آئس، شراب اور میرا بونیر


الفاظ کہاں تک لکھنے والوں کا حق ادا کرسکتے ہیں یہ علم تو نہیں لیکن ایک بات کا اچھی طرح علم ہے کہ آج لفظ میرے نہیں ہوں گے بلکہ ماؤں کی سسکیاں، بہنوں کی آہ وزاریاں، بیویوں کا ماتم اور کفیل بھائیوں کی مایوسیاں ہوں گی۔ میں شاید نہ لکھتا اگر رشتوں کی مسلسل پامالیاں اور سرکتے آنچلوں کی دہائیاں نظر نہ آتیں۔

ایک سوال کیا صرف کشمیر میں ہی مائیں روتی ہیں۔ وہاں تو بات ہی ختم کردی جاتی ہے۔ زندگی کا خاتمہ بندوق کی گولی یا تلوار کی دھار سے ہوجاتا ہے لیکن یہاں تو پل پل موت ہی موت ہے۔

آپ اگر والدین کی بے قرار دن راتوں میں تڑپتی روحیں، بہنوں کی وہ آہیں جو بھائیوں کے لاشوں پر ہوتی ہیں دیکھنا چاہتے ہیں تو کسی دن بونیر کا ایک دورہ کرکے دیکھیے۔ میں وہ دن شاید کبھی بھی فراموش نہ کرسکوں جس دن ایک بے چارا اور غریب باپ کئی سال دیار غیر میں پیٹ کے دوزخ کی آگ ٹھنڈی کرنے کے بعد جب گھر آیا تو اس کی دنیا لٹ چکی تھی۔ اس کی کل کائنات کو آئس، شراب اور چرس کی دیمک چاٹ چکی تھی۔ وہ آیا، ناظم اور نظام کو بہت کوسا، زار زار رویا لیکن اس کا واحد بچّہ کبھی لوٹ کر نہیں آیا۔

یہ صرف ایک کہانی نہیں ہزار کہانیاں ہیں جس میں محرومیاں ہی محرومیاں ہیں۔

پاکستان میں نوجوانوں کی شرح پر فخریہ جملے بولے جاتے ہیں لیکن کوئی ذمہ داری تو قبول کریں کہ یہاں چونسٹھ فی صد نوجوان کر کیا رہے ہیں۔ ضلع بونیر ہر طرح سے ایک پسماندہ ضلع ہے۔ روٹی، کپڑا، مکان اور معیار زندگی کا رونا چھوڑ کر اگر طرز زندگی کی بات کی جائے تو چہروں پر پژمردگی اور دلوں پر مایوسی ہی کا راج ہوگا۔ انتظامیہ سوشل میڈیا پر پہلے سے زیادہ ایکٹیو ہے لیکن کسی کو خبر نہیں کہ بونیر کے نوجوان آئس، چرس اور شراب کی لت میں تباہ ہورہے ہیں۔

میری اپنی تحقیق کہتی ہے کہ بونیر کا ہر تیسرا نوجوان نشئی ہے۔ یہ نشہ آور اشیاء کہاں سے آتی ہیں اور کون ہیں وہ لوگ جن کا یہ کاروبار دن بہ دن پروان چڑھ رہا ہے کسی کو خبر نہیں۔

آپ حیران ہوں گے ان نوجوانوں میں تیرہ سال سے لے کر بائیس سال تک کے نوجوان شامل ہیں جو سوتے جاگتے اس کوشش میں ہوتے ہیں کہ کہیں سے اگر چرس ملے تو بات بن جائے۔ چرس سے اس مسلسل تباہی کا آغاز ہوتا ہے۔ آج سے چند سال پہلے یہ وباء اتنی عام نہ تھی لیکن اب ہر گاؤں میں وہاں کے بے روزگار خوب منافع کمارہے ہیں۔

نوجوانوں کو باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت اس کا عادی بنایا جاتا ہے۔ عادی بننے کے بعد ان کے پاس پیسے نہیں ہوتے تو مجبوراً پھر وہ ڈاکے ڈالتے یا چوری چکاری کرتے ہیں۔ ان معصوم بچوں کے گھریلو حالات اتنے مخدوش ہوتے ہیں کہ ایک یا دو وقت کی روٹی کا ملنا بھی محال ہوتا ہے اوریہ انتہائی طاقتور لوگ ان کو مختلف جھانسے دے کر پھنسادیتے ہیں اور پھر ان کے لئے ماں باپ، بہن بھائی اور دوسرے رشتے تو درکنار زندگی ہی کوئی معنی نہیں رکھتی۔

بونیر کے داخلی راستوں پر پولیس کی کڑی نگرانی ہوتی ہے لیکن حیرانی اس بات پر ہے کہ بونیر کے اندر چرس کی تیاری کا کوئی بندوبست نہیں تو پھر یہ آتی کہاں سے ہے؟ ایک بات یہ بھی کی جاتی ہے کہ اس میں پولیس والے باقاعدہ شامل ہیں جو ہوسکتا ہے غلط ہو لیکن اگر پولیس اپنا کام کر رہی ہے تو پھر یہ زہر ضلع کے اندر کیسے آتا ہے اور بالفرض کوئی ہوشیاری دکھا کر لے بھی آتا ہے تو اس بات کی تو کوئی تک ہی نہیں بنتی کہ بونیر پولیس اور انتظامیہ کو ہر گاؤں میں موجود وہ اڈے معلوم نہ ہوں جہاں زندگیوں کے چراغ گل کیے جارہے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں دہشت گردی سے بڑا خطرہ یہی ہے۔ چرس میں نشہ آور گولیوں کا ملاپ ہوتا ہے جس سے اس کا وزن بھی بڑھ جاتا ہے اور استعمال کرنے والوں کی پیاس بھی بجھ جاتی ہے۔

چرس کے بعد آئس اور شراب کی دستیابی بھی آسانی سے ہورہی ہے۔

آئس یہاں کے نوجوانوں کے لئے نیا اور پرکشش نشہ ہے جس کے بہت سارے نقصانات ہیں لیکن جو سب سے بڑا نقصان ہے وہ شک کی بیماری کا ہے۔ ازدواجی زندگی اور گھریلو معاملات میں جب شک کی مداخلت شروع ہوجاتی ہے تو زندگی مشکل ہوجاتی ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ یہاں خاندان تباہ ہورہے ہیں۔ وجہ جس کی یہ ہے کہ نوجوان طبقہ ضد پر اڑا ہوا ہے کہ جو وہ کر رہے ہیں وہی ٹھیک ہے۔ انسومنیا کی جو بیماری ہے وہ بھی اسی لت کی وجہ سے آتی ہے جس میں یا تو انسان بہت دنوں تک سوتا رہتا ہے اور یا جاگتا رہتا ہے۔

بونیر میں ایسے بہت سے گاؤں ہیں جہاں آئس کا بے تحاشا استعمال ہورہا ہے جیسے ایلئے، انغاپور، ریگا، تورورسک، پیربابا اور چملہ کے علاقے جہاں نوجوان اس لت کے عادی بن چکے ہیں بالخصوص ایلئے تو نشہ آور چیزوں کا گڑھ ہے۔ اس کے علاوہ باجکٹہ، کلیاڑی، دیوانہ بابا، کلپانی، چینہ، ڈھیرے، ڈگراور بہت سارے مضافاتی علاقوں میں چرس اور آئس کا استعمال دن بہ دن بڑھ رہا ہے۔

شراب کے دور چلتے ہیں اور اور یار دوست اس وقت تک محفل نہیں بناتے جب تک بوتل دستیاب نہ ہو۔

میں سمجھتا ہوں انتظامیہ اگر یہ بہانہ بنا رہی ہے کہ سیاست دان روک تھام میں روڑے اٹکا رہے ہیں تو یہ ان کا صرف ایک بہانہ ہے۔ یہ اگر حقیقت ہے تو ان سیاستدانوں کے نام سامنے لائے جائیں جو خود ہی نئی نسل کو تباہ کر رہے ہیں۔

داخلی راستوں پر پولیس کو انتہائی سختی کرنی چاہیے اور جو گشت یہ لوگ کرتے ہیں اس میں گرفتاریاں ہونی چاہییں کیونکہ اکثر جن گلیوں سے ان کا گزر ہوتا ہے وہاں نوجوان نشے میں دھت ہوتے ہیں۔

سب سے اہم اور ضروری چیز سپلائی چینل کا کاٹنا ہے اور مجھے یقین ہے بونیر انتظامیہ اور پولیس سے زیادہ اس چینل کا کسی کو پتا نہیں۔

بونیر انتظامیہ کو میرا ایک مشورہ ہے کہ ہر گاؤں میں بزرگوں کا ایک جرگہ بنالیں جس میں ان کو یہ اختیار حاصل ہو کہ وہ نشئیوں اور نشہ آور چیزیں فروخت کرنے والوں کے خلاف خود ہی ایکشن لیں اور اگر وہ ایسا نہیں کرسکتے توان کے نام کھلے عام پولیس کو دیدیں۔

آخری مشورہ اگر نوجوانوں کے لئے اس سلسلے میں مستقل سیمینارز کا بندوبست ہوسکیں تو وہ بھی فائدہ مند ہوسکتا ہے اور اگر یہ بھی نہیں ہوسکتا تو میرا بزرگوں کو یہ مشورہ ہے کہ اپنی نسلوں کو اگر آپ تباہی سے بچانا چاہتے ہیں تو خود ہی ضلعی سطح پر ایک گرینڈ جرگہ تشکیل دے دیں اور اس ناسور کے خلاف ڈٹ جائیں۔ جو جو سیاسی لوگ یا انتظامیہ کے لوگ اس دھندے کو پروان چڑھانے میں شامل ہیں ان کے خلاف بھرپور آواز اٹھائیں۔ ایسا اگر ہوسکا تو ٹھیک ورنہ مستقبل کی ایک نشئی نسل مبارک۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).