جنرل لِدھر سے جنرل بپن رَوت تک۔ بھارتیوں سے متعلق چند یادیں


میں ان چندپاکستانی فوجی افسروں میں سے ہوں جنہیں بھارتی فوج کے ساتھ بہت قریب سے کام کرنے کا موقع ملا۔ چنانچہ میں بھارتیوں کے عمومی رویوں، عادات اور مزاج سے قدرے واقف ہوں۔

صدیوں کی غلامی، غربت اور ذلت کے بعد حال ہی میں دستیاب مالی آسودگی میں پلنے بڑھنے والی متوسط طبقے سے وابستہ بھارتی نسل اسی خمار و تکبر میں مبتلا ہے جو ہمارے مشرقی معاشروں میں نو دولتیوں سے وابستہ ہے۔ کم و بیش چار سو آگ اگلتے ٹی وی چینلز نے بھارتیوں، بالخصوص شہروں میں آباد نوجوانوں کے ذہنوں میں یہ تصور پختہ کر دیا ہے کہ بھارت ایک سپر پاور ہے، جس کا مقابلہ اب پاکستان نہیں بلکہ امریکہ، روس اور چین سے ہے کہ پاکستان محض ایک ایسا پسماندہ ملک ہے جو دنیا بھر اور بالخصوص بھارتی قبضے والے کشمیر میں ہونے والی دہشت گردی کا ذمہ دار ہے۔

فوراً سے پیشتر مشتعل ہونے والے، ’چندرایان‘ کی ناکامی پر زاروقطار رونے والے بھارتیوں کی اکثریت کو مودی سے شخص کا ہی کاندھا درکار ہے۔ اپنے پردھان منتری سے انہیں امید ہے کہ ایک دن وہ پاکستان کو ضرور ’سجا‘ (سزا) دیں گے۔ نا صرف عام بھارتی بلکہ سیاست اور میڈیا میں سے سنجیدہ عناصر بھی اس بیانیے کے خبط میں مبتلا ہیں۔

قریباً ایک عشرہ قبل مجھے سوڈان میں اقوام متحدہ کی امن فوج میں شامل پاکستانی دستے کا حصہ بننے کا موقع ملا۔ جنگ سے تباہ حال وسیع و عریض ملک کو مختلف سیکٹرز میں تقسیم کرکے علیحدہ علیحدہ ممالک کی افواج کے زیر انتظام کیا گیا تھا، جبکہ مجموعی طور پر ان کثیرلاقوامی افواج کی کمان ایک تین ستارہ بھارتی جنرل کے پاس تھی۔ یہ تاریخ میں پہلا موقع تھا کہ پاکستانی دستے کسی ہندوستانی فورس کمانڈر کے زیر کمان رکھے گئے۔

ہمارے فورس کمانڈرجنرل جسبیر سنگھ لِدھر ایک خالص سکھ افسر تھے۔ پاکستانی سیکٹر کے مرکزی کیمپ میں ہم نے چھوٹے سے کرکٹ گراؤنڈ کے علاوہ ایک ٹینس کورٹ بھی بنارکھا تھا۔ ہمارے میس میں روایتی پاکستانی کھانے بشمول تکے اور کباب بنانے کی سہولت دستیاب تھی اور کیمپ میں پنجابی بولنے والے افسران کثیر تعداد میں پائے جاتے تھے۔ فورس کمانڈر جو ٹینس کھیلنے اور مصالحہ دار کباب کھانے کے شوقین اور فورس ہیڈکوارٹرز میں پنجابی بولنے کو ترستے تھے، آئے روز میلوں دور پاکستانی کیمپ چلے آتے اور مذکورہ سہولیات سے خوب سیر ہوکر لوٹتے۔

پاکستانی کیمپ میں، میں فورس کمانڈر کے لئے مختص ٹینس ٹیم کا مستقل حصہ تھا۔ ایک سال سے زائد عرصہ ٹینس کورٹ میں ہمارا تعلق خوشگوار یادوں پرمشتمل ہے اس امر کے باوجود کہ ہماری شناسائی کبھی بھی بے تکلفی میں نہیں بدلی اور گفتگو کرکٹ اور ٹینس جیسے موضوعات تک ہی محدود رہی۔

ہمارے سیکٹر ہیڈکوارٹرز میں جہاں دیگر ممالک سے سٹاف افسر تعینات تھے وہیں افسر تعلقات عامہ (PRO) کی ذمہ داری ایک بھارتی میجر کے سپرد تھی۔ آئیے ہم انہیں میجر سنگھ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ میجر سنگھ پکی رنگت کا انتہائی متحرک، خوش مزاج اور کھلکھلا کر ہنسنے والا افسر تھا۔ ہندو مذہب سے تعلق رکھنے کی بنیاد پر گوشت خوری سے سختی کے ساتھ اجتناب برتتا۔ کمپیوٹرز میں بہت ماہر اور اشاعتی امور سے واقف تھا۔ مجھے میری بنیادی ذمہ داریوں کے علاوہ پاکستانی سیکٹر کے ہفتہ وار نیوزلیٹر کی باقاعدہ اشاعت اور سیکٹر کی ’ایئر بک‘ کی تدوین و اشاعت کی اضافی ذمہ داری تفویض کی گئی، جس میں معاونت کے لئے میجر سنگھ کو میرے زیر کمان کردیا گیا۔

میری معاونت کے سلسلے میں میجر سنگھ کافی وقت میرے ساتھ گزارتا۔ ہم نیوز لیٹر کے مواد پر سیر حاصل گفتگو کرتے۔ کھانے کا وقفہ ہوتا تو میجر سنگھ کو خصوصی طور پر تیار کردہ دال سبزیوں کی ڈش پیش کی جاتی، کبھی کبھار ہم میجر سنگھ کو ستانے کے لئے کہتے کہ اس کے لئے تیار کردہ دال کو گوشت کی یخنی میں پکایا گیا ہے تو سنگھ کھلکھلاکر ہنس پڑتا۔ تاہم اسے یقین تھا کہ پاکستانی اس کی مذہبی حساسیت کو سمجھتے ہیں۔ خوب گپ شپ چلتی مگر پاکستان بھارت معاملات پر کوئی بات ہوتی نہ ہی ہم میں سے کوئی ایک دوسرے کے مذہب کے بارے میں استفساری گفتگو کرتا۔

ایک سال پر محیط عرصے کے دوران میجر سنگھ نے ہفتہ وار نیوز لیٹر کی باقاعدہ اشاعت اور سالانہ Year Book کی تیاری کے سلسلے میں میری طرف سے دی گئی ذمہ داریوں کو پوری محنت، جوش و خروش اور بھرپور دلچسپی سے ادا کیا۔ دونوں ملکوں کے مابین پہلے ٹی ٹوینٹی کرکٹ عالمی کپ کا فائنل جنرل لدھر اور میجر سنگھ نے ہمارے ساتھ پاکستانی کیمپ میں دیکھا۔ اسی سال جنرل لدھر چودہ اگست کا دن بھی پاکستانی کیمپ میں گزارنے کو آمادہ تھے۔ عین موقع پر مگرہمیں پتا چلا کہ انہیں چودہ اور پندرہ اگست کے دن بھارتی کیمپ میں گزارنے کو کہا گیا ہے۔

میجر سنگھ کا پاکستان سیکٹر میں تعیناتی کا عرصہ اختتام پذیر ہوا تو حسب روایت میں نے ان کے اعزاز میں عشائیے کا اہتمام کیا جس میں دیگر ممالک سے بھی افسران شریک ہوئے۔ اگلے روز میجر سنگھ میلوں دور واقع امن مشن کی لاجسٹک بیس کے لئے روانہ ہوگئے۔ اس لاجسٹک بیس سے ہی تمام بین الاقوامی پروازیں اڑتی تھیں۔

چند ہفتے کے بعد امن مشن میں اپنا عرصہ تعیناتی پورا ہونے پر میں بھی لاجسٹک بیس کے لئے روانہ ہوا جہاں سے اسی شام مجھے براستہ سعودی عرب، عمرہ پرواز سے پاکستان کے لئے روانہ ہونا تھا۔ لاجسٹک بیس پہنچتے ہی پاکستانی ٹرانزٹ کیمپ میں سنہا نامی بھارتی بریگیڈیئر جو لاجسٹک بیس کا کمانڈر تھا، کی طرف سے رات کے کھانے کا دعوت نامہ میرا منتظر تھا۔ میری معذرت پر مجھے بتایا گیا کہ میرا کوئی بھی عذر ناقابل قبول ہے، کیونکہ دعوت نامہ خود فورس کمانڈر کی ہدایت پر جاری کیا گیا تھا۔

چاروناچار میں رات کو مقررہ مقام پر پہنچا تو محفل عروج پر تھی۔ ہم دو پاکستانی افسروں کو لیمونیڈ پیش کی گئی۔ اسی دوران لاجسٹک بیس کمانڈر میرے پاس آئے اور اِدھر اُدھر کی ہانکنے کے بعد یک طرفہ طور پر کشمیر کا ذکر چھڑا، یک طرفہ دلائل دینے کے بعد یک طرفہ طور پر طیش میں آئے اور اسی دھت حالت میں بڑبڑاتے ہوئے ایک طرف کو نکل گئے۔ اسی دوران فورس کمانڈر میرے پاس آئے مجھ سے ٹینس کی بابت مختصرگفتگو کے بعد پاس کھڑے ایک سکھ افسر کی مونچھوں پر فقرہ کسا اور پھر لہک بہک کر اپنی ایک پرانی لاہور یاترا کا ذکر چھیڑ دیا۔ یادیں خوشگوار تھیں اور سکھ کے منہ سے جھڑنے والی پنجابی میں اور بھی بھلی لگیں۔

رات گئے کھانے کی طویل میز پر میجر سنگھ کو بھی موجود پاکر مجھے خوشگوار حیرت ہوئی۔ کھانے کا دورجاری تھا کہ اسی دوران میری پرواز کا وقت ہوجانے پرمیں نے فورس کمانڈر سے روانگی کی اجازت طلب کی۔ میں نے فورس کمانڈر سے ہاتھ ملایا اور دیگر سے الوداعی اشارے سے رخصت لی۔ ایئرپورٹ پر احرام پہنا اور جیسے میں لاؤنج میں اپنی نشست لی تو سامنے دروازے سے میجر سنگھ کو تیزی سے اندر آتے دیکھا۔ سنگھ نے اِدھر اُدھر دیکھا اور مجھے دیکھتے ہی سیدھا میرے پاس آکر کھڑا ہوگیا۔

ایک دور روز میں میجر سنگھ بھی بھارت کے لئے روانہ ہورہا تھا۔ رخصت کے ان لمحات میں حیرت انگیز طور پر ہمارے پاس کہنے کو کچھ نہیں تھا۔ نہ دوبارہ ملنے کے وعدے، نا رابطے میں رہنے کے پیمان۔ میجر سنگھ اس دوران زیادہ تر احرام باندھے مسافروں کو تجسس بھری نگاہوں سے تکتا رہا۔ پرواز کی روانگی کا اعلان ہوا تو میجر سنگھ اور میں گلے ملے ایک دوسرے کی ای میل ایڈریس اور فون نمبرز ہم دونوں کے موبائل فونز میں موجود تھے۔

تاہم ہم دونوں جانتے تھے کہ اس رخصت کے بعد ہم دونوں میں کبھی بھی کوئی رابطہ نہیں ہوگا۔ ہم دونوں پیشہ ور افواج سے تعلق رکھتے تھے اور باہم خوشگوار یادوں کے باوجود عسکری روایات، پیشہ ورانہ اخلاقیات و ذمہ داریوں سے بخوبی آگاہ تھے۔ متحارب افواج کے پیشہ ور سپاہیوں کے درمیان یہ رشتہ صرف اس پیشے سے وابستہ افراد ہی سمجھ سکتے ہیں۔

مجھے نہیں معلوم جنرل لدھر، بریگیڈیئر سہنا اور میجر سنگھ اس وقت کہاں ہیں۔ یہ مگر ہم سب جانتے ہیں کہ بھارت اس وقت ہندوتوا کی گرفت میں ہے۔ مودی وہاں حکمران ہے اورانتہا پسندوں کے ارغوانی جتھے کہ صدیوں کی غلامی اور نفرت جن کی رگوں میں دوڑ رہی ہے، مسلمانوں کے خون کے پیاسے ہو رہے ہیں۔ جھنجلاہٹ، خود پسندی اور برتری کے سحر میں زندگی بسر کرنے والے بھارتیوں کو مودی، بریگیڈیئر سنہا اورجنرل بپن رَوت ہی راس ہیں۔ یوں بھی جنرل لدھر اور میجر سنگھ جیسے کرداروں کی بالی ووڈ میں کوئی مانگ نہیں۔
اس بار مگر حالتِ طیش میں جینے والے بھارتیوں کے مقابلے میں کرکٹ کھیلنے پر آمادہ کشادہ بانہوں والے مہمان نواز پاکستانیوں کا موڈ بھی بدل چکا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).