ایک دفتری بابو کا قصہ


ہماری ابتدائی نوکری ہوئی تو ٹریننگ کے لیے بھیجے گئے، بعد میں نوکری کی تو محکمے میں جس سے بھی ملے پتا لگا کہ اپنے اپنے وقت میں اِس بھٹی سے گزرے تھے۔ تربیتی ادارہ ایسا تھا کہ مثلِ پلِ صراط کہ جس سے گزر کر ہی منزل پانا تھی۔ یہ بھٹی جلاتی تھی کبھی ہلکی آنچ پر، کبھی بھرپور حرارت پر، کبھی چہرہ دمک اٹھتا تو کبھی سیاہی پھیل جاتی تھی، کبھی سوختہ چنوں کی مانند بھن بھن کر اٹھتے۔ ریت بھری کڑاہی میں سب چنے اکٹھے تھے، ایک ہاتھ تھا جو وقتاً فوقتاً اٹھاتا اور ٹپک دیتا۔ کچھ چنے اس حرارت کو برداشت نہ کر پائے، ٹوٹے اور بکھر گئے مگر اپنا رنگ دے گئے۔ آ نسو کی مانند یوں پھیلے کہ ریتلی کڑاہی کو نمکدار کر گئے۔ کسی اور سفر پر جا نکلے، سخت وقت کے ساتھی تھے سو یاد میں آج بھی سخت جان آباد ہیں۔

حرارت سے سب اندر باہر سامنے آ گیا، ملمع اتر گئے، پردے جل گئے، سب سامنے تھا، کورا، کسی لیپا پوتی کے بغیر، خباثتوں اورمحبتوں کے ساتھ۔ انسانی رنگ، خالص، بغیر کسی آمیزش کے سامنے دھرا تھا۔ کسی نیوڈ بیچ کے منظر کی مانند، بیک وقت اپنی طرف کھینچتا اور کراہت دلاتا۔ اس خالص دور میں بے سمجھوں نے لوگوں کی شخصیت کے مطابق نام رکھ دیے ؛ کوئی ٹوکہ تھا تو کوئی بیبا، کوئی ڈوگی تو کوئی اینجل۔ عجب بات ہے کہ وقت کے سا لہا سال کے بہاؤ کے باوجود، ترقی کے زینوں پرچڑھ کربھی، اپنے اوپر رنگا رنگ کے ملمع تان کر بھی ڈوگی ڈوگی رہا اوربیبا بیبا۔

بے سمجھ کچھ ایسے بھی بے سمجھ نہ تھے۔

سو باؤ کے نام سے تو باخبر تھے، مگر جانتے نہ تھے کہ موصوف باؤ کیوں کہلاتے ہیں۔ بعد میں دفتری واسطہ پڑا تو یہ جانا کہ باؤ ٹرین کہ جو ہر صبح لاہو ر کے نواحی علاقوں سے نوکر پیشہ کو لاہور لے کر آتی ہے کہ نام پر باؤ کہلاتے ہیں۔ بلا کے نوکر پیشہ تھے، چہرے پر افسردگی جسے وہ طمانت سمجھتے تھے۔ ذہنی طور پر غائب دماغ، آپ سے بات کرتے کرتے فون کی طرف ہاتھ بڑھاتے، ہاتھ واپس لاتے، پھر بڑھاتے۔ غرض کہ ہر چند کہیں کہ وہ آپ کے سامنے ہیں، مگر نہیں ہیں۔

آ نکھیں چوکھٹے میں ہروقت گھومتی رہتیں کہ کسی عالم اضطراب میں محسوس ہوتے۔ دفتری قواعد و انشاء سے ان کی آگاہی اپنے ذاتی خاندان سے زیادہ تھی۔ کئی کاغذی جنگوں میں انہوں نے کشتوں کے پشتے قومہ اور فل سٹاپ کے تبدیلیِ مقامات سے لگائے۔ اپنی انگریزی کا زعم حضرت بہت رکھتے تھے۔ محدود انگریزی کے باوجود الفاظ کے چناؤ میں ضیاعِ وقت جسے وہ ضیاء وقت سمجھتے تھے، قابلِ سزا ہونا چاہیے تھا۔ اکثر اس کا نتیجہ ”گاڑی نکل گئی تھی، پٹری چمک رہی تھی“ کی صورت میں نکلتا تھا۔

حقائق کی دنیا سے جیسے بھی ناواقف ہوں مگر ان کی خوش فہمی کی داد دیجیئے کہ سالارِ قواعد وانشا ء کو سپہ سالارِجنگ پر فوقیت دیتے تھے۔ ایک عام سے دفتری انگریزی خط کو لکھتے ہوئے بھی ایک ایک لفظ کو ناپتے اور تولتے تھے کہ ایسا گھما کر پھینکوں گا کہ اگلے کی ناک زخمی ہوگی اور دانت باہرآن پڑیں گے۔ ایسی ضربِ کاریِ الفاظ ہوگی کہ اگلے کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا جائے گا۔ ایک لفظِ بھاری کو اٹھاتے، واپس رکھتے، اگلے کی جانب جھپٹتے، ہاتھ میں لیا، وزن کیا، واپس رکھا، ایک اور کی طرف لپکے، نظر میں نہ جچا، سوچا پہلا ہی کارگر تھا، واپسی کو لوٹے۔

غرض میدانِ الفاظ کے سنگریزوں کو اٹھاتے، جانچتے، پلٹتے، ہاتھ اور دامنِ خیال دونوں ہی تار تار ہوئے۔ اور آخر میں تھکن سے چور جو کہا اور لکھا ایسا کہ کچھ تو سمجھے خدا کرے کوئی۔ اکثرفرماتے کہ خط ایسا لکھو کہ جاہل سے جاہل پڑھے تو سمجھ جائے، غرض اسلوبِ جاہلانہ کے شیدائی تھے کہ عالم اورجاہل کو ایک ہی نگاہ سے دیکھتے یعنی جاہلانہ۔

انجمنِ سوداگرانِ سرکاری کے ممبر تھے، سواسی لیے پلاٹوں کی خبر، خریدنے اور بیچنے میں لگے رہتے۔ نیزانجمنِ دانشوارانِ سرکاری کے بھی ممبر تھے۔ اس انجمن کے رکن ہونے کی شر ط تھی کہ پہلے انجمنِ تحفظِ ذاتی مفاد کے ممبر ہوں۔ ان انجمنوں کے اجلاس تواتر سے مختلف دفتروں میں چلتے، ایک نشست سے دوسری نشست، مختلف افراد پررائے زن ہوتے، چائے اور بسکٹ کے دور پر اکثر حرام و حلال کی بات ہوتی۔ آپ خوب حلال و حرام پر تقریرفرماتے، اِسی بنا پراپنے زیرِانتظام سرکاری املاک، ملازمین اور سرکاری گاڑیوں کا بے دریغ استعمال کلی طور پر حلال یعنی ذبح کرنے کے طور پر کرتے، گو تکبیر پڑھتے ہم نے کبھی نہ دیکھا گمان ہے کہ دل میں پڑھتے ہوں گے۔

ان کے جوہر دیکھ کرایک دن ہم نے پوچھا کہ اس مختصر فانی زندگی میں ایسی قابلیت کیسے حاصل کی؟ مسکرا ئے اور کہنے لگے کہ آج کل کی بات نہیں پیشہ آباء کئی پشت سے سرکاری ہے، بلکہ یوں کہیے کہ پیڑھی بہ پیڑھی سرکاری پشت پر سوار پھرتے رہے ہیں۔ اس کے بعد قسمت کی خوبی دیکھیے کہ کچھ استاد بھی ایسے ملے کہ کندن کر گئے۔ فرمانے لگے سرکاری نوکری انسانی نہیں حیوانی وصف مانگتی ہے۔ سیکھنا چاہو تو انسان کے وفادار جانور سے سیکھو۔

میری بات کو نہیں مانتے تو اپنے آس پاس دیکھو کئی ترقی کے خواہش مند رالیں ٹپکاتے، ندیدہ کھڑے نظرآئیں گے۔ آ نکھوں میں چمک، خیالی دم متواتر ہلتی ہوئی، صاحب گوشت کے اردگرد متواتر چکر لگاتے ہوئے، کبھی پچھلی ٹانگوں پر کھڑے ہو کر، کبھی کمر کے بل لیٹ کراوپرٹانگیں ہلاتے غرض اپنے تعیں ہرکوشش کہ صاحب کو محظوظ کریں۔ ٹکڑا حاصل کر کے اگلے کرتب کی جانب مرکوزہو جاتے ہیں۔ مگر یاد رکھنا یہ سگِ آستاں نہیں بلکہ سگِ روزگار ہیں جب جان جاتے ہیں کہ صاحبِ اقتدار اب بے مصرف ہوا تو ایسا اغراض برتے ہیں کہ کتوں کو بھی رونا آتا کہ ناحق ہماری نسل کو بدنام کیا۔

ایک دن اپنا قصہ سناتے کہنے لگے کہ کسی زمانے کی بات ہے کہ میں سطح مرتفع پوٹھوہارکے ایک قصبے میں رہتا تھا۔ ایک صبح تقاضائے قدرتی سے نکلا اورایک پتھر کو رگڑا تو ایک جن حاضر ہوا۔ میں نے جن کو سرکاری نوکری میں بدل لیا کہ سب فائدے وہیں سے اٹھاونگا۔ نوکری نے بہت انہیں بتلایا کہ وہ لاغرتن ہے کیونکہ وہ تنہا ہے اور اُس کے کئی مالک ہیں، اورعام لوگ جن کی خدمت کے لیے سرکار نے بنایا ہے وہ بے چارے ترستے ہی رہتے ہیں۔

مگرانہوں نے کچھ نہ سنا، نوکری کو پہلے اپنے فائدے کے اصول پر دوڑانا شروع کرا دیا۔ ایک ماتحت ان کے کاروں کی خرید فروخت کے کاروبار میں مصروف ملتا، دوسرا کبھی بحریہ ٹاون کے پلاٹوں کے فارم کی قطار میں کھڑا پایا جاتا، کبھی فرنیچربنوانے پر معمور ہوتا، غرض ماتحت دفتر کے باہر صورتِ خورشید جیتے تھے کہ اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے، اُدھر ڈوبے ادھر نکلے۔ دفتر ڈوبتا رہا، مگر اُن کی ناؤ پار ہوتی رہی۔ آخر کار جب ریٹائر ہوئے تو تب ہی کمزور جانوں کی جان چھٹی۔

دفترباؤ سے وفاتِ جن یعنی ریٹائرمنٹ کے بعد ملاقات ہوئی تو زمانے کے شاکی تھے کہ لوگوں کی آنکھیں بدل گئی ہیں کہ پرانے ماتحت دعا سلام سے بھی گئے۔ ہم نے پوچھا کہ کیا آپ کی بھی آں کھیں کھلی ہیں؟ کہنے لگے کہ وقت بس اب یادِ ماضی میں ہی کٹتا ہے۔ یہ تو بھلا ہو فیس بک کا کہ احادیث اور اقوالِ زریں شیئر کر کے ثوابِ مفت لوٹ رہا ہوں۔ ہم نے کہا کہ شیخ سعدی شیرازی نے کہا تھا کہ ”وقت پیری گرگ ظالم میشود پرہیزگار“۔ مسکرا پڑے کہنے لگے ایسا بھی نہیں، چور چوری سے جائے، ہیرا پھیری سے نہیں۔ ابھی بھی کوشش ہے کہ کسی فیس بکی چہرے کو لوٹ لیں۔

ہم نے سوچا کہ وہ دور گزر گیا کہ کتاب چہرے چلمن سے چھپ کر جھانکتے تھے، اب فیس بکی چہرے ہیں کہ کہ آشکار ہیں اور کہتے ہیں کہ ہے کوئی کہ شکار کرے۔ کئی مواقع پر شکاری آپ شکار ہوا بلکہ ویڈیو بھی بن گئی کہ وقتِ پیری بھی گرگِ ظالم پرہیزگار نہ بن سکا۔ دفتر بابوں کے لیے اس سے بڑا ظلم کیا ہوگا۔

عاطف ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عاطف ملک

عاطف ملک نے ایروناٹیکل انجینرنگ {اویانیکس} میں بیچلرز کرنے کے بعد کمپیوٹر انجینرنگ میں ماسڑز اور پی ایچ ڈی کی تعلیم حاصل کی۔ یونیورسٹی آف ویسڑن آسڑیلیا میں سکول آف کمپیوٹر سائنس اور سوفٹ وئیر انجینرنگ میں پڑھاتے ہیں ۔ پڑھانے، ادب، کھیل اور موسیقی میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ طالبعلمی کے دور میں آپ نے اپنی یونیورسٹی کا400 میٹر کی دوڑ کا ریکارڈ قائم کیا تھا، جبکہ اپنے شوق سے کے-ٹو پہاڑ کے بیس کیمپ تک ٹریکنگ کر چکے ہیں۔

atif-mansoor has 73 posts and counting.See all posts by atif-mansoor