سکول فیس پر سپریم کورٹ آف پاکستان کا فیصلہ


سالانہ سکول فیس بڑھانے پر والدین کی طرف سے دائر کیسز اور سکولوں کی طرف سے دائر اپیلوں کا تفصیلی فیصلہ بارہ ستمبر کو سپریم کورٹ کی طرف سے جاری کیا گیا۔ چونکہ یہ فیصلہ بہت سارے لوگوں کے لئے سود مند ہے تو اس کے چیدہ چیدہ پوائنٹ پر نظر ڈالتے ہیں تاکہ ہمارے سامنے معاملہ نکھر کر آ جائے۔

فیصلہ اسّی صفحوں پر محیط ہے، اور زیادہ تر بحث دستورِ پاکستان کے آرٹیکل اٹھارہ، جس میں ہر شہری کو تجارت، کاروبار اور پیشے کی آزادی دی گئی ہے، اور سندھ اور پنجاب کے تعلیمی اداروں کی رجسٹریشن کے قوانین کے گرد گھومتی رہی۔ پنجاب اور سندھ کے قانون کے مطابق (کچھ فرق کے ساتھ) وہ سکول جن کی ماہانہ فیس (ہر قسم کی ماہانہ فیس شامل، جس بھی نام سے ہو) چار ہزار سے زائد ہے وہ پچھلے تعلیمی سال کی فیس پر پانچ فیصد سے زیادہ کا اضافہ نہیں کر سکتے۔

سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے کے پیرا چونتیس ( 34 ) میں لکھا ہے کہ کورٹ سکولوں کے وکلاء کی اس دلیل سے متفق نہیں ہے کہ پانچ فیصد کا اضافہ صرف ٹیوشن فی کی مد میں ہے کیونکہ قانون ساز نے فی کا لفظ استعمال کیا ہے جبکہ وہ ٹیوشن فی کا لفظ بھی استعمال کر سکتے تھے اگر ان کا مطلب یہی تھا۔ سپریم کورٹ نے اسی پیرا میں یہ بھی لکھا کہ فی کو صرف ٹیوشن فی سمجھنا اس رول کو بے کار کر دیتا ہے کیونکہ پھر اس رول کا دوسری فیسوں میں بیش بہا اضافہ کر کے غلط استعمال شروع ہو جانے کا خدشہ ہے۔

سپریم کورٹ کے فیصلے کے پیرا چھیالیس ( 46 ) میں مختلف کورٹس کے فیصلوں سے دستورِ پاکستان کے آرٹیکل اٹھارہ کی تشریح کی گئی ہے۔ سپریم کورٹ کے مطابق دستور پاکستان ہر شہری کو یہ حق تفویض کرتا ہے کہ وہ آزادی سے تجارت، کاروبار یا پیشہ اختیار کر سکے، مگر یہ حق مطلق، غیر مشروط اور غیر مقید نہیں ہے بلکہ ان ضابطوں اور معقول پابندیوں کے ساتھ مشروط ہے جو کہ قانون کی طرف سے لگائی گئی ہوں۔ اسی تناظر میں اگلے پیرا میں لکھا ہے کہ جن اصولوں کو پچھلے پیرا میں بیان کیا گیا ہے ان کے اطلاق پر ہماری یہ رائے ہے کہ پاکستان کے شہریوں کے پاس پیسہ کمانے کے لئے نجی تعلیمی خدمات دینے کے کاروبار کا حق حاصل ہے مگر یہ حق مطلق اور غیر مقید نہیں ہے۔

فیصلے کے پیرا انچاس ( 49 ) میں لکھا ہے کہ افراد کے حقوق اور معاشرے کے مفادات میں توازن رکھنا لازمی ہوتا ہے اور اگر معاشرے کے مفادات کو خاطر میں لاتے ہوئے کسی فرد یا افراد پر دستور میں دیے گئے حقوق پر کوئی پابندیاں عائد کرنی پڑیں تو یہ پابندیاں کبھی بھی غیرمعقول نہیں قرار پا سکتیں۔ اسی پیرا میں آگے لکھتے ہیں کہ سکول کی طرف سے فاضل وکلاء ٹھوس طریقے سے یہ بات ثابت نہیں کر سکے کہ فیس کے اضافے کی حد یا ٹیچرز کی کم سے کم تنخواہ مقرر کرنا کس طرح سے دستوری اصول کی خلاف ورزی ہیں ضابطے کے اغراض سے زائد ہے۔

پیرا پچاس ( 50 ) میں فیصلے کا اختتام کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ہمیں بتایا گیا کہ جون 2017 کے شروع سے ہی بہت سارے نجی تعلیمی ادارے غیر قانونی طور پر سکول فیس کو بے حد بڑھا رہے ہیں جس پر اٹھارٹیز نے آنکھیں بند رکھیں، لہذا سپریم کورٹ نے اپنے عبوری حکم نامے بتاریخ 30۔ 12۔ 2018 میں قرار دیا کہ تمام تعلیمی ادارے جو پانچ ہزار ماہانہ سے زیادہ فیس لے رہے ہیں وہ فیس کو بیس فیصد کم کر دیں۔ اب سپریم کورٹ یہ حکم دیتی ہے کہ:

۔ فیس میں بیس فیصد کی کمی کی رقم بقایاجات کی صورت میں کسی بھی حالت میں واپس نہیں لی جائے گی۔

۔  2017 کے بعد فیس میں کیے گئے تمام اضافے کالعدم قرار دیے جاتے ہیں۔ فیس جنوری 2017 کے ریٹس پر منجمد سمجھی جائیں گی۔

۔  سکول فیس اوپر منجمد کی گئی فیس سے آگے سندھ اور پنجاب کے قانون کے مطابق اضافہ لگا کر بنائی جائے گی اور اتھارٹیز اس کی نگرانی کریں گی اور صرف ان کی اجازت کے بعد یہ اضافہ شدہ فیس وصول کی جائے گی۔

۔  تمام زائد فیس اگلے مہینوں میں ایڈجسٹ کی جائے گی۔

۔  اتھارٹیز فیس میں اضافہ کی نگرانی کریں گی اور فیس میں اضافے کے خلاف شکایت سیل بنائے گی۔

سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد ہم والدین یہ امید رکھتے ہیں کہ سکول مافیا اب سپریم کورٹ کے فیصلے پر مکمل طور پرعمل کریں گے اور اتھارٹیز بھی اپنا کام یقینی بنائیں گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).