گھوٹکی واقعہ اور ایک تباہ کن بیانیہ


بتایا جا رہا ہے کہ بچہ اپنی پڑھائی پر توجہ نہیں دے رہا تھا اور اس دن بھی وہ ہوم ورک کر کے نہیں آیا۔ سکول کے پرنسپل نوتن کمار (جس کا تعلق ہندو مذہب سے ہے ) نے چودہ سالہ بچے کو سزا دی اور اسے اپنی پڑھائی بہتر بنانے پر سخت وارننگ دی۔ بچہ گھر پہنچا تو اپنے والد سے شکایت لگائی کہ پرنسپل نوتن کمار نے توھین رسالت کی ہے اور یہیں سے شاہ لطیف کی شاعری میں خوابیدہ مضافاتی سندھ کے شہر گھوٹکی کے گلی کوچوں میں وہ عفریت نما بیانیہ اچانک در آیا جسے ایک کمزور ریاست نے عدم برداشت جبر اور انسانی حقوق کی پامالی سے پروان چڑھایا۔

اور پھر مقامی سیاسی اور مذہبی رہنما  اور سابق ممبر اسمبلی عبدالحق عرف میاں مٹھو مذہب کے نام پر اپنے سیاسی مفادات کی خاطر جہالت کے جتھے لے کرایک اقلیت پر ٹوٹ پڑے، مندر ڈھائے گئے، گھروں پر چڑھائی کی گئی، آگ لگائی گئی، خوف اور دہشت پھیلائی گئی اور فضا زندہ باد مردہ باد کے نعروں سے بھی حسب معمول گونجی اور یوں اس بیانئیے کو پھر سے عوامی پذیرائی فراہم ہوئی جو کسی پراسرار رہداریوں اور بے ضمیر ذہنوں کی مرہون منت ہے۔

ابھی ابھی پاکستان ہندو کونسل کے سرپرست اعلٰی اور ممبر قومی اسمبلی ڈاکٹر رمیش کمار سے فون پر بات ہوئی تو بھرائی ہوئی آواز کے ساتھ اس نے قرآن پاک کے اس آیت کریمہ کا حوالہ دیا، جس میں اللہ تعالٰی حکم دیتا ہے کہ اگر کوئی تمھارے پاس خبر لے کر آئے تو خوب تحقیق کر لیا کرو تاکہ بعد میں تم اپنے کیے پر نادم نہ ہو۔

میں ڈرائیونگ کر رہا تھا اور رمیش بھائی بھی پریس کانفرنس کے لئے جلدی میں تھے ورنہ پوچھ لیتا کہ ندامت تو ہمیں اس وقت بھی نہیں ہوئی جب آدھا ملک گنوا بیھٹے تھے ایک چھوٹے سے ضلع گھوٹکی میں معمول کے دنگا فساد سے ہمیں کیا ندامت ہوگی؟

رہے احکامات الٰہی اور اس کی پابندی تو عرض ہے کہ ان پر عمل کے لئے جھالت کا نہیں بلکہ انسانیت کا معیار درکار ہے، جس سے من حیث القوم ہم بد قسمتی سے ابھی کوسوں دور ہیں۔

اس وقت اہم سوال یہ ہے کہ توھین مذہب اور توھین رسالت کے واقعات میں دن بدن تیزی کے ساتھ اضافے کی وجوھات کیا ہیں؟

کیونکہ اُنیس سو سینتالیس سے پہلے جب دوسرے مذاھب کے لوگ خصوصًا ہندو برادری ہمارے انتہائی پسماندہ اور دور افتادہ دیہاتوں میں مسلمانوں کے ساتھ کثرت میں موجود تھے۔

تو اس وقت یہ واقعات کیوں نہیں ہو رہے تھے، حالانکہ اس وقت شعور، سمجھ اور تعلیم کا تناسب بھی بہت کم تھا لیکن موجودہ ترقی یافتہ اور قدرے باشعور دور میں اس کے بڑھنے کی وجوہات کیا ہیں؟

ایک رپورٹ میرے سامنے ہے 1986 ء سے 2016 تک توھین رسالت کے 1472 مقدمات درج ہوئے۔ 730 مسلمانوں، 501 احمدیوں، 205 مسیحیوں اور 26 ہندوؤں کے خلاف مقدمے چلے۔ ( گویا اس سلسلے میں مسلمانوں کا تناسب سب سے زیادہ ہے )

حیرت کی بات یہ ہے کہ کسی بھی مقدمے کو عدالت میں ثابت نہیں کیا جا سکا، جبکہ رہائی پانے والے اکثر افراد قتل کر دیے گئے، یعنی عمومًا مسئلہ توھین مذہب یا توھین رسالت کا نہیں ہوتا بلکہ اس کی آڑ میں کوئی اور کھیل کھیلا جاتا ہے۔

امت سیّد لولاک سے خوف آتا ہے

میں کوئی عالم دین ہرگز نہیں لیکن حضور کی محبت میں تقریبًا وہ سب کچھ پڑھا جو ان کی روشن زندگی سے پھوٹا ایک واقعہ آپ سے بھی شئیر کر تا چلوں!

مدینہ میں ایک غیر مسلم فرقے کی عبادت گاہ کسی وجہ سے گر پڑی اور ان کے پاس عبادت کے لئے جگہ نہیں تھی۔

حضور کریم کو پتہ چلا تو ایک صحابی کو ان کے پاس بھیجا اور آفر کردی کہ آپ اپنی عبادت ہمارے مسجد میں ایک سائیڈ پر کرلیا کریں، پیغام پہنچا تو غیر مسلم فرقہ بہت خوش ہوا لیکن بتایا کہ ہم اپنی عبادت کے دوران بعض اوقات موسیقی کا استعمال بھی کرتے ہیں۔ اس سے آپ لوگوں کی عبادت میں خلل پڑنے کا اندیشہ ہے۔

صحابی لوٹ کر پیغام لے آیا تو ایمان سے انکار کرنے والوں کے لئے بھی سرکار دو جہاں کی پریشانی دیدنی تھی۔

کچھ دیر سوچا اور پھر فرمایا۔ انہیں بتا دیں کہ ہم مسجد کے وسط میں ایک پردہ حائل کردیں گے اور آپ لوگوں کے لئے علیحدہ جگہ فراہم کردیں گے تا کہ آپ آسانی کے ساتھ اپنی عبادت کر سکیں۔

واہ میرے حضور واہ
آپ کو رحمت اللعالمین ایسے تو نہیں بنا کر بھیجا گیا تھا۔

لیکن المیہ یہ ہے کہ آپٌ کا عظیم پیغام کن لوگوں کے ہاتھ لگا اور اس قابل احترام وراثت کے دعویدار بھی کون بنے؟

کوئی سر راہ شلواریں لٹکانے لگا
کسی کی زبان سے پین دی سری کی گردان ہونے لگی
تو کوئی میاں مٹھو بن کر سامنے آیا اور خدا کی مخلوق پر زمین تنگ کر دی۔

حماد حسن
Latest posts by حماد حسن (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).