بھارتی مسلم لیڈران، علماء و کشمیر


ریاست جموں و کشمیر کو تحلیل و تقسیم کرنے جیسے غیر آئینی یکطرفہ اقدامات کے بعد مواصلاتی ناکہ بندی اور ملٹری آپریشنز کے ذریعے مقامی آبادی کو ہراساں کرنے پر جہاں دنیا بھر میں وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت والی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) حکومت پر لعن و طعن ہو رہی تھی، کہ بھارتی مسلمانوں کی قدیمی تنظیم جمعیت علماء ہند کے دونوں دھڑوں نے سادگی میں یا دانستہ ایسے قدم اٹھائے اور بیانات داغے کہ حکومت کی باچھیں کھل گئیں۔ غالباً پہلی بار یورپ و امریکہ میں سول سوسائٹی و میڈیاکو بھارت میں ابھرتے ہوئے فاشزم کا ادراک ہوا اور ہندو انتہا پسندوں کی مربی تنظیم آرایس ایس یعنی راشٹریہ سیویم سیوک سنگھ کی مقامی شاخوں کی سرگرمیوں پر قدغن لگانے کی مانگ زور پکڑتی جا رہی تھی۔

چاہے بابری مسجد کی شہادت کا واقعہ ہو یا گھر واپسی یا ہندو فرقہ پرستوں کی دیگر مہمات، اس کیلئے خاصی رقوم بیرون ملک بھارتیوں کی طرف سے ہی آتی رہی ہیں۔ پہلے جمعیت کے ایک دھڑے کے راہنما اور بزرگ لیڈر مولانا ارشد مدنی نے آر ایس ایس کے سربراہ موہن سنگھ بھاگوت سے ملاقات کر کے ا سکی خوب تشہیر کی۔ مسلم اور یورپی ممالک میں جہاں بھارتی سفراء کوکشمیر اور فاشزم کے خلاف مہم کی وجہ سے کوئی جواب نہیں بن پا ررہا تھا، مولانا مدنی اور موہن بھاگوت کی ملاقات ان کیلئے نعمت غیر مترقبہ ثابت ہوگئی۔ گو کہ مدنی صاحب کا کہنا ہے کہ یہ ملاقات فرقہ وارانہ ہم آہنگی برقرار رکھنے اور مسلمانوں کے خلاف ہجومی تشدد کو قابو کرنے کیلئے رکھی گئی تھی، مگر اسکی ٹائمنگ ایسی تھی کہ یورپ و امریکہ میں آر ایس ایس کی ذیلی تنظیموں نے راحت کی سانس لی۔

فاشزم کے حوالے سے جو کمپین بنی تھی، اس پر کاری ضرب لگ گئی۔ بھارتی سفار ت کاروں نے اس میٹنگ کی رپورٹ میڈیا کے حوالے کرکے یہ تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی کہ آر ایس ایس تو ایک غیر سرکاری فلاحی تنظیم ہے، جو مسلمانوں کی بہبودکیلئے بھی کوشاں ہے ، اسلئے اسکو فاشزم کے ساتھ نتھی کرنا ایک پروپگنڈہ ہے۔ مولانا ارشد مدنی کی قیادت والے جمعیت کے گروپ کی طرف سے حال ہی میں آسام میں شہریت کے معاملے میں مسلمانوں کی راہنمائی اور جیلوں میں بند معصوم مسلم نوجوانوں کو مفت قانونی امداد فراہم کروانے پر میں نے اپنے کالمز میں اکثر ان کی ستائش کی ہے ۔

ان کے ایک معتقد کے طور پر بس یہی گذارش ہے کہ جہاں دشمنوں کے ساتھ بھی ملاقاتوں کا سلسلہ بند نہیں ہونا چاہئے، وہیں وقت کی نزاکت کو بھی سنجیدگی کے ساتھ لینے کی ضرورت ہے۔ اگر ملاقات ناگزیر ہی تھی، تو اسکو میڈیا کی رسائی سے دور یا فی الحال ا لتواء میں رکھنا چاہئے تھا۔ مگر کیا کریں: یہ نادان گر گئے سجدے میں جب وقت قیام آیا۔ خیر جب چچا مولانا ارشد مدنی نے آرایس ایس کے سربراہ سے ملاقات کرکے بھارتی میڈیا اور حکومت کی واہ واہی لوٹی ، تو بھتیجا کیسے پیچھا رہتے۔مولانا محمود مدنی کی سربراہی والی جمعیت کے دوسرے دھڑے نے کشمیر پر ایک قرارداد منظور کرکے اور بیانات داغ کرزخم خوردہ کشمیریوں کے زخموں پر نمک اور مرچ چھڑکنے کا کام کیا۔پھر مغل فرمانرا اورنگ زیب اور شیواجی مرہٹہ کا موازنہ کرکے شیواجی کو قابل تقلید بتا کر تاریخ کو ایسا مسخ کیا، کہ اپنی علم و فراست پر ہی سوالیہ نشان کھڑے کردیئے۔

کاش وہ حال ہی میں شائع آڈری تروشکی کی کتاب Aurangzeb:The Man and the Myth یا جواہر لال نہرو کے ڈسکوری آف انڈیا میں شیوا جی پر کمنٹ یا امریکی اسکالر جیمس لاویا کی ہی نگارشات کا مطالعہ کرتے۔ بدقسمتی سے کشمیریوں کی جمہوری آواز کو دبانے کیلئے بھارتی حکومت نے کئی بار جمعیت اور دیگر مسلم لیڈران کو استعمال کیا ہے۔ مولانا محمود مدنی کا کہنا ہے کہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے۔ کشمیر میں بسنے والے سبھی لوگ ہمارے ہم وطن ہندستانی ہیں اور ملک کی سلامتی اور وحدت ان کے نزدیک بہت اہمیت رکھتی ہے۔ اس لیے وہ کسی بھی علیحدگی پسند تحریک کی ہرگز تائید نہیں کرسکتے ہیں، بلکہ اس طرح کی تحریکات کو نہ صرف ہندستان بلکہ خود کشمیریوں کے لیے نقصان دہ سمجھتی ہے اور انکی نظر میں کشمیر ی عوام کی فلاح و بہبو د ہندوستان کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔

قرار داد میں پاکستان کا نام لئے بغیر اسکو تمام مسائل کی جڑ بتایا گیا۔ قرار داد کے مطابق ملک دشمن طاقتیں کشمیر کو برباد کرنے کے درپے ہیں۔ ’’دشمن نے ہندستان کے خلاف کشمیر کو محاذ بنار کھا ہے جو مظلوموں کی فریاد رسی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے ۔ اگر ان سے اب کوئی پوچھے کہ کشمیر اٹوٹ انگ ہی سہی تو کون اپنے اٹوٹ انگ پر تیر و نشتر چلاتا ہے۔ کشمیری پنڈتوں کی طرح بھارتی مسلم لیڈروں نے بھی نئی دہلی اور کشمیر کے درمیان ایک پل بننے کے بجائے، جموں وکشمیر میں جمہوریت کے شب خون میں اپنا حصہ ڈال کر اپنے ہاتھ کشمیریوں کے خون سے رنگے ہیں۔

1947ء سے 1990ء تک اگر بار بار دغا بازیاں نہ کی گئی ہوتیں، مہاتما گاندھی ،جواہر لال نہراور دیگر لیڈروں کے وعدوں کو نبھا کر بھارتی آئین کے اندر بھی جمہوری حقوق ملے ہوتے، انتخابات میں بے پناہ دھاندلیاں نہ کی گئی ہوتی، تعصب نہ برتا گیاہوتا، تو شاید کشمیر میں پاکستان یا علیحدگی پسندی کے تئیں جذبات اتنے شدید نہیں ہوتے۔یہ بھی شاید یا د دلانا پڑیگا کہ خاص طور پر 1971ء کے بعد اور پھر شیخ عبداللہ کے برسراقتدار آنے کے بعد تو تحریک آزادی کب کی ٹھنڈی پڑ چکی تھی۔ کشمیریوں نے بھی تو حالات سے سمجھوتہ کر لیا تھا۔ چاہے 9اگست 1953ء میں وزیر اعظم شیخ محمدعبداللہ کی گرفتاری اور برخاستگی ہو یا جون1984ء میں وزیر اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ کی معزولی یا 1987ء کے اسمبلی انتخابات میں بے پناہ دھاندلیاں، بھارتی مسلمان لیڈروں کو کشمیریوں کے سینوں میں خنجر گھونپنے کیلئے استعمال کیا گیا۔ (جاری ہے)

بشکریہ روزنامہ نائنٹی ٹو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).