” مزے“


میں نے ایک ساوتھ انڈین مووی دیکھی جو ہندی ڈبنگ میں تھی اس میں ایک گورکن اپنے خاندان سمیت قبرستان میں رہتا ہے۔ ان کا ایک آٹھ سالہ بچہ جب بھی کوئی جنازہ آتا ہے بھاگ کر اس میں شامل ہو جاتا ہے دفنانے تک وہ ساتھ ہی رہتا ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ وہ اس میّت کے ساتھ کیوں رہتا تھا کیونکہ اسے رونے والے لوگوں کی چیخیں اچھی لگتی تھیں۔ وہ ان چیخوں اور ہاہا کار سے نشاط حاصل کرنے لگا تھا۔ ایک بار ایسا ہوا کہ قبرستان میں دس دن تک کوئی جنازہ نہ آیا۔

اس کا جسم ٹوٹنے لگا کیونکہ اسنے لوگوں کو روتا دیکھنا تھا۔ آٹھ سال کے اس بچے نے اپنی اس اڈیکشن کے لئے اپنی اِسی بستی میں ایک بوڑھے آدمی کا قتل کر ڈالا۔ اور پھر خود اُسی گھر میں جا کر بیٹھ گیا۔ لوگ رو رہے تھے اور وہ ہنس رہا تھا۔ اسے آپ بیماری کہیں یا کچھ اور یہ کم و بیش ہر انسان میں موجود ہوتی ہے ایک تحقیق بتاتی ہے کہ ہر شخص پیدائشی طور پر تیس فیصد تک اس بیماری کا شکار ہوتا ہے۔ ہم نے دیکھا ہو گا جیسے ہی کوئی روڈ پر ایکسیٹینٹ ہوتا ہے ہم بھاگ کر وہاں جمع ہو جاتے ہیں۔ کیا ہم دکھ کی وجہ سے بھاگ کر جاتے ہیں ہر گز نہیں صرف سب سے پہلے مزہ لینا ہی ہماری ترجیح ہوتی ہے ایسے ہی لڑائی کو لے لیں جس لڑائی میں جتنا زیادہ خون ہو گا کہیں نہ کہیں ہمیں اتنی ہی خوشی اور انٹرٹینمینٹ میسر آئے گی۔ گلی محلوں کی لڑائیوں کا حال بھی کچھ ایسا ہی حال ہے۔

صرف مزے لینا ہی ہمارا مقصدِ حیات بن چکا ہے اور اس بیمار ذہنیت کی شرع بتدریج بڑھتی جا رہی ہے۔ مجموعی طور پر ہمارا معاشرہ مزے لینے والا تماشائی بن چکا ہے۔ اور یہ مزے انہیں ہمارا کلچر مہیا کرتا ہے۔ آج باتیں کچھ کڑوی کروں گا ہضم کرنے کی کوشش کرنا چلو پہلے ”طلاق“ کو ہی لے لیتے ہیں طلاق ایک ایسا تِیر ہے یہ جس حلق میں ترازو ہوتا ہے اس کی پِیڑا بھی وہی جان، جان سکتی ہے۔ جس کے سَر پہ یہ بم پھوٹا ہو اس کے لیے تو یہ ساری دنیا ناگا ساکی بن چکی ہوتی ہے۔

لیکن ہمارے مزے یہیں سے شروع ہوتے ہیں، مُحلے کی عورتوں سے لے کر خونی اور دیگر رشتے داروں تک سب کی کوشش ہوتی ہے کہ کسی طرح عورت کو ہی قصور وار ٹھہرایا جائے۔ تاکہ ہمیں اس کے خاندان کو کوسنے کا موقع میسر آ سکے کسی کو درد نہیں ہوتا کہ ایک عورت اُجڑ کر گھر آ گئی ہے بجائے اس کے کہ اس کی ڈھارس بندھائیں۔ گروہ کے گروہ اس کے گھر جا کر اس زندہ لاش کا لفظی پوسٹ مارٹم کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ ظلم تو یہ ہے کہ اگر کسی کے گھر لگاتار تیسری بیٹی ہو جائے تو یہاں بھی ہم اپنے حِصے کا مزہ کشید کر لیتے ہیں۔

اور دوسرا بیٹی کی ماں کے قریب بیٹھ کر میٹھی میٹھی پُھل جَھڑیاں چُھوڑنا وہ ایک الگ لذت ہے۔ میرا ایک ذاتی سا تجزیہ ہے کہ ہم لوگوں کو اُجاڑ کر خوش ہوتے ہیں۔ اس لئے ہم حقیقی سکون سے کوسوں دور ہیں کیونکہ اجاڑ چاھنے والے گُلوں کی چھاوں ۚ کیسے پا سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نیگٹیوٹی کا شکار لوگ اپ کو ہمیشہ اپنے ہی جال میں پھسے ہوئے نظر آئیں گے۔ اگے چلئے! فرض کرو آپ کا کوئی دوست ہے اسے کسی کے ساتھ نین لڑانا مہنگا پڑ گیا ہے۔تو آپ اس کے جتنے بھی جگری دوست ہوں گے سب سے پہلے آپ اپنا منہ پھاڑ کر ضرور ہنسیں گے۔ کہ اچھا ہوا۔ پھر ہاتھ پہ ہاتھ مار کر کہیں گے کہ اس کے ساتھ یہی ہونا چاھیئے تھا۔ چل اس یک سے چل کر پوچھتے ہیں۔ دوستو! ہمارے مَن میلے ہو چکے ہیں چلو میں اپنے تئیں آپ لوگوں کو کچھ باتیں سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں اگر عمل کر گئے تو تَا دِیر دلوں میں زندہ رہنے کا ہنر پا جاؤ گے۔ اگر کہیں آپ کے دوست رشتے دار کے ساتھ کچھ ایسا مِس ہیپ ہو جاتا ہے۔

یعنی بدنامی اس کے گلے پڑ جاتی ہے۔ یا یہ کہ آپ کو پتہ چل جاتا ہے کہ اس نے دوسری شادی کر رکھی ہے اور وہ ڈیٹ پر بھی جاتا ہے۔ تو میچورٹی کی انتہا یہ ہے کہ آپ اس کے ساتھ ان باتوں کا ذکر تک نہ کریں۔ اس کی مجبوریوں کی رودادیں اور ستم ظریفیاں اس کے گلے پر انگوٹھا رکھ کر مت پوچھیں۔ ہمدردی ہو تو الگ بات ہے مگر ہمدردیاں کہاں۔

مقصود تو وہی مزے ہی ہے

کیسی تھی، کہاں تھی، کیوں تھی، کیا کِیا، کہاں رکھا، اور کب چھوڑا۔ کسی دوست کو اِنسِسٹ کرکے اس سے ایسے راز اُگلوانا میرے نزدیک زخم کُھرچنے کے مترادف ہے۔ اور پھر اگر اس بے چارے نے دوستی کے بھرم میں راز اُگل ہی دیے تو اِسے دوسرے دوستوں کے ساتھ ڈریگولا بن کر شیئر کرنا یہ دوستی کا سب سے بُرا روپ ہے یہ تو گویا دوست کی کھال اتارنے کے مترادف ہے۔ مگر کیا کِیا جائے لوگوں کے کپڑے اتارنا ہمارا شوق بن چکا ہے۔

اؤ بھائیو! پہرے دار بنو سب کچھ جان کر بھی انجان رہو۔ پردے ڈالو۔ اللہ کا وعدہ ہے کہ میں تم پر پردے ڈالوں گا۔ بطور انسان ہم سب کمزور ہیں۔ کسی کی بیٹی کیوں اجڑ کر آگئی ہم نے اس سے کیا لینا ہے۔ عبرت پکڑو دعا کرو کہ اللہ کسی کے ساتھ ایسا نہ کرے۔ کسی کے راز ٹوہ لگا کر جاننے کی کوشش نہ کرو۔ یہ بھی مزے ہیں ایسے مزے وقتی طور پر شاید بھلے لگیں لیکن دھیرے دھیرے انسان ان مزوں کا عادی ہو جاتا ہے۔ جیسے وہ بچہ ہوا تھا۔

پھر یوں ہوتا ہے کہ اس نشے کو پورا کرنے کے لئے ہم اپنے ذاتی راز دوسرے کی جھولی میں ڈالتے ہیں تاکہ دوسروں کے راز بطور نشہ آپ کے اس مرض کو تشفی دے سکیں۔ بات چل ہی نکلی ہے تو اِسی لذتی لڑی میں ایک مزہ اور پرو لیتے ہیں۔ اچھا اگر کسی کا بچہ کوئی کلاس ٹاپ کر گیا ہے تو بہت اچھی بات ہے آپ اسے چاند پر لے جائیں ستاروں سے اس کی نظر اتروائیں بادلوں کے جھولے پر اسے لوریاں دلوائیں

لیکن ایسا ہر گز نہ کریں کہ آپ اس کامیابی کو توپ بنا کر عِلمی طور پر قدرے کمزور بچوں پر یلغار کر دیں۔ فیملی سسٹم ہونے کے ناتے ہمیں بچوں میں خود اعتمادی بھرنی چاھیئے۔ بچوں کا قابل ہونا ایک تو گاڈ گفٹڈ ہوتاہے اور دوسرا گھر کا مآحول خصوصا ماں کا پڑھا لکھا ہونا بھی مَیٹر کرتا ہے۔ لیکن اگر حادثاتی طور پر آپ کا بچہ قابل ہے تو اللہ کا شکر ادا کیجیئے اسے مہرہ بنا کر شریکے میں مزے مت لوٹیئے۔ یہاں قابل بچوں کے پیئرنٹس پر زیادہ ذمہ دار عائد ہوتی ہے کہ وہ بہن بھائیوں کے بچوں کے ساتھ کھڑے ہوں بجائے اس کے ان کے پاوں تلے سے زمین کھینچیں ان کے سر پر آسمان بن کر ٹھہر جائیں۔ جی ہاں یہی وہ پازٹیوٹی جو آپ کو روحانی سفر کا پتہ دے گی۔ اور آپ جان پائیں گے کہ روحانیت کس شے کا نام ہے۔ اور یہ بھی کہ مَن کا مَیل اتر جائے تو انسان کتنا پوتّر ہو جاتا ہے۔

وسیم رضا، سعودی عرب
Latest posts by وسیم رضا، سعودی عرب (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).