اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کیا ہو گا؟


پاک بھارت کشیدگی میں درجہ حرارت کبھی بلندی کی انتہاکو چھو رہا ہوتا ہے۔ تو کبھی یہ مانند پڑ جاتا ہے اس سب میں کشمیر کا درد رکھنے والے پاکستانی بھی دہری اذیت کا شکار ہیں۔ کہ اک طرف کشمیر پر اصولی موقف پر ڈٹ جانے کی باتیں کی گئیں تھیں۔ لیکن دوسری جانب دو طرفہ مشروط مذاکرات سمیت کرتارپورہ راہداری منصوبہ اور بھارتی ہائی کمیشن کا بھی دفتر کھلا ملتا ہے۔ تو یوں معلوم پڑتا ہے کہ کہیں نا کہیں ریاست اس بات پر مجبور ہوتی نظر آتی ہے۔

کہ پڑوسی ملک سے رابطے کے سارے راستے بند نہیں ہو سکتے۔ ضرورت پڑنے پر دوطرفہ بات چیت اور مشترکہ مسائل پر مل بیٹھنا پڑتا ہے۔ ابھی گزشتہ ماہ بھارت کی جانب سے دریاوں میں سیلابی پانے چھوڑے جانے کے بعد دونوں ممالک کا واٹر کمشن مل بیٹھا اور اس معاملہ کے حل پر بات چیت کی گئی۔ حالانکہ حالیہ جو ماحول پاکستان اور بھارت کے درمیان چل رہا ہے اس میں کسی بھی معاملے پر مل بیٹھ کر بات کرنا مشکل ترین نظر آرہا تھا۔ لیکن چونکہ مسائل مشترکہ ہیں اس لیے دونوں ممالک کو مجبورا بیٹھنا پڑتا ہے۔ اس سارے طرز عمل کو دیکھ سمجھ کر یہی لگتا ہے۔ کہ دونوں ممالک میں ترجیحات کا تعین کر دیا گیا ہے۔ کہ کس معاملہ پر مل بیٹھ کر بات کرنا ہے اور کس معاملے پر صرف سیاست اور بیاں بازی کرنا ہے۔

وفاقی حکومت نے کشمیریوں سے یکجہتی کی اک نئی طرح ڈالی ہے۔ کہا گیا ہے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی تک ہر ہفتہ قوم کچھ منٹوں کی خاموشی اختیار کرے اور کھڑی رہا کرے۔ اورکشمیریوں سے یکجہتی کرے اور ایسا دنیا بھر میں مقیم کشمیریوں اور پاکستانیوں نے کیا بھی۔ اب سوال یہ ہے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کیا گل کھلائے گی۔ عالمی سطح پر بھارت کے انسانیت سوز مظالم تو کچھ حد تک عیاں ہو چکے ہیں۔ لیکن کیا کیجیے دنیا بھر میں ممالک ترجیحات کی بنیاد پر پڑوسی ممالک سے تعلقات استوار کرتے ہیں۔

اپنے دیرپا مفادات کو دیکھتے ہوئے ممالک ایک دوسرے کی امداد کرتے ہیں۔ یہ سب عالمی سطح پر بھی ہوتا ہے یعنی عالمی دنیا میں دنیا کے مختلف ممالک کے بلاک موجود ہوتے ہیں۔ جن کا استعمال کر کے وہ اپنے وسیع تر مفادات کے لیے لابنگ کرتے ہیں۔ اسے سفارکاری کہیں یا کچھ بھی لیکن عالمی برادری میں یہی چل رہا ہے۔ اب مسئلہ کشمیر پر پاک بھارت حالیہ کشیدگی کو دیکھا جائے تو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس ہوا اور وہاں ہوتا وہی ہے۔

جو پانچ بڑے ممالک جو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل رکن ممالک ہیں۔ جو ان کی ترجیحات کے مطابق ہو ہوتا وہی ہے۔ چین کی درخواست پر یہ اجلاس منعقد ہوا اور تقریبا بے نتیجہ ثابت ہوا۔ اس اجلاس میں چین نے پاکستان کی طرفداری کی تو روس اور فرانس بھارت کی زباں بولتے سنے گئے۔ مجموعی طور پر ان پانچ مستقل رکن ممالک میں سے تین ممالک چین فرانس اور روس پاکستان اور بھارت کی کشیدگی میں اپنی اپنی منوا چکے اور ایک ایسا گول فیصلہ سامنے آیا جس کی امید کی جا رہی تھی۔ یعنی پاکستان اور بھارت دو طرفہ مذاکرات اور شملہ معاہدے کے ذریعے مسئلہ کا پرامن حل ڈھونڈیں۔ سلامتی کونسل اس سے زیادہ کچھ بھی نہیں کر سکے گی۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ہنگامی اجلاس سے اس بات کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ کہ اقوام متحدہ میں کس کی چلتی ہے اور یہ کس

قدر ممالک کے مسائل انسانی بنیادوں پر حل کرتا ہے۔ اب 72 ستمبر کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا اجلاس ہونے جا رہا ہے۔ اور توقع کی جا رہی ہے کہ مسئلہ کشمیر کی موجودہ صورتحال پر بحث مباحثہ ہو گا۔ لیکن ایک بار پھر کوئی امید نہیں کہ بھارت کے جارحانہ اقدام کی مذمت ہو گی۔ یا اسے اپنے کیے گے کشمیر دشمن فیصلے سے پیچھے ہٹانے کے لیے اس پر دباؤ ڈالا جائے گا۔ ایسا اس لیے نہیں نظر آرہا کہ بھارت کے ہاں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل اراکین سے تعلقات پاکستان سے زیادہ مضبوط ہیں۔

اور بھارت میں ان ممالک کی سرمایہ کاری بھی موجود ہے۔ ایک بات انتہائی اہم ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں کوئی بھی معاملہ زیر غور آنے سے قبل اس کی منظوری اقوام متحدہ میں موجود پی۔ فائیو۔ ممالک دیتے ہیں۔ یعنی امریکہ برطانیہ روس فرانس چین یہ مما لک اس بات کو طے کریں گے۔ کہ جنرل اسمبلی میں مسئلہ کشمیر پر کس طرح بحث مباحثہ کروانا ہے اور اس کا حل کیا نکالنا ہے۔ یہ تمام باتیں پہلے سے طے شدہ ہیں۔ اس لیے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے بھی توقعات لگانا بے سود ہی ہے۔ البتہ یہ بات ضرور ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں حالیہ بھارت کے جارحانہ اقدام سے دنیا کے بیشتر ممالک آگاہ ہو چکے ہیں۔ اب کی بار اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں عین ممکن ہے کچھ نیا ہو ؟

ایک بات بہت ہی واضح ہے کہ بھارت کی جانب سے کشمیر کی جغرافیائی حثیت تبدیل کرنے کے بعد کشمیر پر پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونے والے تمام معاہدے ختم ہو چکے ہیں۔ اقوام عالم کشمیر پر دونوں ممالک کے موقف سے بھی بھرپور آگاہ ہیں۔ لیکن عالمی برادری میں بھی فیصلے کیونکہ ترجیحات کی بنیاد پر ہوتے ہیں۔ اس لیے کوئی بھی امید لگانا بے معنی ہو گا۔ یاد رہے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اپنے فیصلوں پر عملدر آمد کروانے کا حق رکھتی ہے۔

اور اس میں ان کی ترجیحات لازمی طور پر شامل ہوتی ہیں۔ یہ وہی سلامتی کونسل ہے جس نے عراق میں کیمائی ہتھیاروں کی موجود گی کا ڈرامہ رچا کر وہاں جنگ مسلط کروائی تھی۔ اس لیے اس عالمی برادری سے خیر کی توقع مت رکھیں کشمیر کے مسلے پر سولہ قراردادیں پہلے سے موجود ہیں سلامتی کونسل ان میں سے کسی ایک پر بھی دونوں ممالک سے عمل در آمد نہیں کروا سکی۔ اس سب سے یہی معلوم پڑتا ہے کہ اقوام متحدہ اور اس کی سلامتی کونسل صرف انہی معاملات پر ثالثی کرتے ہیں ان کا حل پیش کرتے ہیں یا اپنی قراردادوں پر عمل در آمد کرواتے ہیں جن میں ان کا مفاد پنہاں ہوں۔ اس لیے کشمیر کی حالیہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے اگر یہ کہا جائے کہ 72 ستمبر کو ہونے والی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا اجلاس کوئی حل نکال پائے گا تو یہ محض اک خواب ہو سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).