اکتوبر میں کیا ہو گا


بابا جی سے یہ دوسری ملاقات تھی۔ آج بابا جی قدرے پر سکون لگ رہے تھے۔ گرم چائے جوں ہی پہنچی، میں نے مجلس سخن کی ابتداء کرتے ہوئے بابا جی سے فرمایا۔ کہ اکتوبر میں کیا ہو گا؟ بابا جی نے چائے کا پہلا گھونٹ حلق سے اتارا۔ عینک ٹیبل پر رکھی۔ اور بڑے پر امید لہجہ میں کہا کہ اکتوبر میں حکومت کا خاتمہ ہو گا۔ میں نے دوسرا سوال داغا۔ کہ وہ کیسے؟ بابا جی نے میری طرف گھور کر دیکھا۔ اور کہا۔ کہ ابھی چند سالوں کی تو بات ہے۔

جب تحریک انصاف کی حکومت نے جنرل شجاع پاشا کے پلان پر عمل کرتے ہوئے اسلام آباد میں 126 دن کا دھرنا دیا تھا۔ اس دھرنے کے نتیجے میں حکومت ختم نہ ہو سکی۔ حالانکہ اس لاک ڈاون کو اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل تھی۔ بابا جی نے لرزتے ہاتھوں سے چائے کا ایک سپ سلگایا۔ اور مجھ سے ہی سوال کر ڈالا۔ کہ آپ بتائیں کہ مسلم لیگ کی حکومت عمران خان کے دھرنے کی وجہ سے کیوں ختم نہ ہو سکی؟ میں نے مسکرا کر جواب دیا کہ حضرت یہ بھی آپ ہی بتا دیں۔ بابا جی نے کپ ٹیبل پر رکھا۔ جواب دینے سے پہلے کچھ خاموش رہے۔ پھر کہا کہ تمام سیاسی جماعتیں مسلم لیگ کی پشت پر کھڑی تھیں اس لیے اسٹیبلشمنٹ مضبوط ہونے کے باوجود حکومت نہ گرا سکی۔

بیٹا! اس ملک میں جمہوریت جتنی کمزور ہے اس کی بڑی وجہ جمہوری جماعتوں کا عدم اتفاق ہے۔ جب بھی یہ جماعتیں ایک ہوئی ہیں بڑے بڑے مقاصد حاصل ہوئے ہیں۔ جیسے تہتر کا آئین۔ اٹھارویں ترمیم۔ این ایف سی ایوارڈ وغیرہ وغیرہ۔

بابا جی اب بولتے ہی رہے۔ آپ کی گفتگو میں بلا کی کشش تھی۔ بابا جی نے گفتگو کو سمیٹتے ہوئے کہا کہ اکتوبر میں تمام سیاسی جماعتیں اسلام آباد میں ہوں گی۔ اسٹیبلشمنٹ حکومت کے ساتھ ہو گی۔ اسٹیبلشمنٹ حکومت کو نہیں بچا سکے گی۔ کیونکہ سیاسی جماعتیں متحد ہوں گی۔ جیسے 2014 میں سیاسی جماعتوں کے اتحاد نے حکومت کو گرنے نہیں دیا ویسے ہی اکتوبر میں سیاسی جماعتوں کا الائنس حکومت کو بچنے نہیں دے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).