پرویز مشرف کا اعتراف شکست


\"pervez-musharraf\"پاکستان میں سابق صدر اور آرمی چیف جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے جمہوریت دشمن بیان کی مذمت کی جا رہی ہے۔ واشنگٹن میں ایک فورم پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے جمہوریت کو پاکستان کےلئے غیر موزوں قرار دیا تھا کیونکہ یہ اس کی ضرورتوں اور ماحول کے مطابق نہیں ہے۔ اسی لئے ملک بدانتظامی کا شکار ہوتا رہا ہے اور سابق فوجی سربراہ کے بقول اسی وجہ سے فوج کو بار بار سیاست میں مداخلت کرنی پڑتی ہے۔ ملک کا نظام احتساب اور بدانتظامی کی روک تھام کرنے میں ناکام رہا ہے اور آئین بھی چیک اینڈ بیلنس کا نظام فراہم نہیں کرتا۔ ایسی صورت میں عوام فوج کی طرف دیکھتے ہیں اور اسے مجبوراً سیاست میں مداخلت کرنا پڑتی ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان کمزوریوں کو دور کئے بغیر ملک میں جمہوری نظام کام نہیں کر سکتا۔ جعلی میڈیکل سرٹیفکیٹ دکھا کر ملک سے فرار ہونے والے سابق آمر کے اس بیان پر احتجاج کرنے کی بجائے اس سے محظوظ ہونے کی ضرورت ہے۔ یہ 73 سال کے ایک ایسے شخص کا اظہار شکست ہے جو خود کو ناقابل تسخیر سمجھتا رہا ہے اور جو اس غلط فہمی کا شکار رہا ہے کہ ماضی میں اس کی آئین شکنی، بدعنوان حکومت اور بے اعمالیوں کے باوجود پاکستان کے عوام اس کی آمد کا انتظار کر رہے ہیں تاکہ وہ بحران میں ان کی رہنمائی کر سکے۔ وہ اب بھی اس سراب سے باہر نکلنے کو تیار نہیں ہیں۔

جنرل (ریٹائرڈ) پرویز مشرف 40 برس تک فوج سے وابستہ رہے ہیں۔ وہ اس تعلق پر فخر کا اظہار بھی کرتے ہیں اور یہ تسلیم کرنے میں \"pervez_musharraf_nawaz-sharif\"عار بھی محسوس نہیں کرتے کہ انہیں فوج سے تعلق ہی کی وجہ سے ملک چھوڑنے کی اجازت ملی تھی۔ حالانکہ ان کے خلاف آئین سے غداری اور سیاسی لیڈروں کو قتل کروانے جیسے سنگین الزامات میں مقدمات قائم ہیں۔ اس حوالے سے پہلی بات تو یہ ہے کہ ایک سابق فوجی آمر کو جس نے ساری زندگی حکم مانتے اور حکم دیتے ایک خاص ڈسپلن کے تحت گزاری ہو، یہ اجازت نہیں دی جا سکتی کہ وہ اس ملک کے سابق صدر کے طور پر ملنے والی عزت کی بنیاد پر پاکستانی عوام کو جمہوریت کی کمزوریوں سے آگاہ کرے۔ ایک فوجی اپنی تربیت اور طریقہ زندگی کی وجہ سے جمہوری نظام کو سمجھنے اور اس کا ماہر ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔ کیونکہ ایسے کسی شخص کےلئے جمہوری اصولوں اور اس نظام پر عمل کرتے ہوئے پیش آنے والی مشکلات کو سمجھنا ممکن نہیں ہو سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ بار بار غلطیاں کرنے، ملک کو نقصان پہنچانے اور بالآخر انتہائی توہین آمیز حالات میں اقتدار سے رخصت ہونے کے باوجود یکے بعد دیگرے چار بار ملک میں فوجی حکومت قائم کی گئی جو ہر بار ناکام ہوئی۔ اگر فوج کی تربیت میں سیاسی غلطیوں سے سبق سیکھنے کا نصاب شامل ہوتا تو جنرل ایوب خان کی ناکامی کے بعد یحییٰ خان اور ان کے ہاتھوں آدھا ملک گنوانے جیسا سانحہ رونما ہونے کے بعد جنرل ضیا الحق اور ان کی حکومت میں ملک میں مذہبی منافرت اور سیاسی انتشار کا بیج بونے کے بعد خود پرویز مشرف کبھی ایک جمہوری حکومت کو رخصت کرنے اور خود اقتدار پر قابض ہونے کا اقدام نہ کرتے۔

اس پس منظر میں سابق آمر کو جمہوریت اور پاکستان کے نظام حکومت پر اپنی مہارت کا دعویٰ کرنے کی بجائے زندگی کا باقی وقت یاد اللہ \"GeneralMusharraf\"میں یہ شکر کرتے ہوئے گزارنا چاہئے کہ وہ پاکستان کی عدالتوں میں مقدمات کا سامنا کرنے کی بجائے پاکستان کے آرمی چیف اور سربراہ مملکت کے طور پر حاصل کئے ہوئے وسائل کے بل بوتے پر دنیا بھر میں مزے لوٹ رہے ہیں۔ وگرنہ جس احتساب اور جوابدہی کی وہ بات کرتے ہیں، اگر ان کی ذات پر اس کا اطلاق کیا جائے تو انہیں بین الاقوامی اشتہاری مجرم قرار دے کر انٹرپول کے ذریعے واپس بلوانے کی ضرورت ہے۔ جوابدہی اور بہتر نظام کی بات اس شخص کو زیب دیتی ہے جس نے اس مقصد کےلئے کوئی خدمت سرانجام دی ہے۔ پرویز مشرف جیسا شخص جو اپنے 9 سالہ دور اقتدار میں بدعنوانی اور بدانتظامی کی سرپرستی کرتا رہا ہو، اس قسم کا دعویٰ کرتے ہوئے اچھا نہیں لگتا۔

پرویز مشرف کہتے ہیں کہ انہیں فوجی ہونے اور 40 برس تک پاک فوج کا حصہ رہنے پر فخر ہے۔ اس تعلق کی وجہ سے آئین شکنی اور قتل جیسے الزامات سے جان چھڑا کر بھاگنے والا شخص بلاشبہ یہ اعلان کر سکتا ہے۔ لیکن اسے یہ بھی احساس ہونا چاہئے کہ وہ اپنی ذات میں پاک فوج کےلئے تہمت اور ندامت کا باعث ہے۔ پاک فوج کو ایسے کمزور اور آئین شکن شخص کے ساتھ تعلق سے کوئی راحت محسوس نہیں ہوتی ہوگی۔ پرویز مشرف کی بدانتظامی اور بطور سربراہ عدم مقبولیت ہی کی وجہ سے ان کے دور اقتدار کے آخری برسوں میں پاک فوج کے افسر اور جوان باوردی کسی عام جگہ پر جانے کا حوصلہ نہیں کرتے تھے۔ پورا ادارہ ان کے کالے کرتوتوں کی وجہ سے بدنام ہو چکا تھا۔ اس لئے انہیں اس تعلق سے ملنے والے فائدے پر خاموش رہنے کی ضرورت ہے۔

سابق صدر ایک ناکام جنرل اور ناکام منتظم ثابت ہوئے تھے۔ انہوں نے ملک کے منتخب وزیراعظم کی لاعلمی میں کارگل کی مہم شروع کی\"pervaiz تھی اور جب اس میں پسپائی اختیار کرنا پڑی تو اسی وزیراعظم کی مدد اور کوششوں سے بھارت کے ساتھ کسی بڑی جنگ کو ٹالا گیا تھا۔ نواز شریف نے امریکہ کے صدر بل کلنٹن کے تعاون سے جنرل مشرف کی اس ناکامی کو قوم سے پوشیدہ رکھا۔ اس احسان کا بدلہ انہوں نے اکتوبر 1999 میں نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹ کر اور انہیں طیارہ اغوا کرنے کے جھوٹے مقدمے میں سزا دلوا کر دیا۔ گویا وہ نااہل فوجی کمانڈر ہونے کے علاوہ ناشکر گزار انسان بھی تھے۔ انہیں بہتر نظام حکومت کی بات یوں بھی زیب نہیں دیتی کہ اسی کرپٹ اور دیمک زدہ نظام کو استعمال کرتے ہوئے انہوں نے ایک منتخب لیڈر کو ایک عام مجرم کی طرح عدالتوں سے سزا دلوائی اور ان کے معتمد ساتھیوں کو سیاسی رشوت دے کر اپنا ساتھ دینے پر مجبور کیا۔ اگر وہ اصول پرست انسان اور بہتر منتظم ہوتے اور انہوں نے عوام کی محبت اور ملک کی خدمت کے عظیم تر جذبہ سے مغلوب ہو کر آئین شکنی کا انتہائی اقدام کیا ہوتا تو وہ اس حکومت کے اہم وزیروں اور نواز شریف کے قریبی ساتھیوں کو انتقامی کارروائیوں کی دھمکیوں اور سیاسی مراعات کے وعدوں کے ذریعے اپنے ساتھ ملانے پر مجبور نہ ہوتے۔ ماضی میں اقتدار پر قبضہ کرنے والے سارے فوجی جرنیلوں کی طرح پرویز مشرف بھی ذاتی اقتدار کی ہوس میں مبتلا تھے۔ ان کا ہر قدم اور پورا دور حکومت اس ہوس کا واضح ثبوت ہے۔

اقتدار سے بے پایاں محبت کا مظاہرہ جنرل (ر) پرویز مشرف نے 12 مئی 2007 کو بھی کیا تھا۔ سابق چیف جسٹس افتخار کے جلوس کو روکنے کےلئے انہوں نے اپنی حلیف سیاسی قوت کے ذریعے کراچی کو سیاسی کارکنوں کی قتل گاہ بنا دیا تھا۔ اس روز کراچی میں جاں بحق ہونے والے سب لوگوں کا خون پرویز مشرف کے دامن پر بدنما داغ ہے جو اسلام آباد کے جلسے میں اس بربریت کو عوامی قوت کا مظاہرہ قرار دے رہے تھے۔ پرویز مشرف کو اپنے اس فعل پر شرمندگی ہونی چاہئے لیکن وہ جھوٹ اور خود فریبی سے استوار کی ہوئی دنیا میں رہتے ہیں۔ اسی لئے فیس بک پر اپنے شائقین کی تعداد سے متاثر ہو کر وہ فوج کی طرف سے واضح مشورہ کے باوجود 2012 میں خود ساختہ جلا وطنی ترک کرکے 2013 کے انتخابات کے ذریعے برسر اقتدار آنے کے خواب دیکھتے ہوئے پاکستان واپس آگئے۔ یہاں نہ ان کا ساتھ دینے والے لوگ تھے اور سیاسی کامیابی ان کا راستی دیکھ رہی تھی۔ بلکہ ملک کی عدالتیں ان سے ان کے جرائم کا حساب مانگتی تھی۔ 2007 میں نافذ کی گئی ایمرجنسی کی بنیاد پر ان کے خلاف آئین شکنی کا مقدمہ قائم کیا گیا۔ تاہم وہ اس مقدمہ کا سامنا کرنے میں ناکام رہے۔ ایک بار پھر جھوٹی بیماری اور جعلی سرٹیفکیٹس کا سہارا لے کر وہ اس سال کے شروع میں ملک سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔

اب وہ یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ وہ فوج کی اعانت کی وجہ سے ملک چھوڑنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ فوج نے کبھی ایسا دعویٰ نہیں کیا ہے۔ \"mushraf\"فوج کی طرف سے کبھی پرویز مشرف کی حمایت میں بھی کوئی بیان جاری نہیں ہوا۔ اس کے باوجود ملک میں بھی یہ تاثر عام طور سے موجود ہے کہ فوج کےلئے اپنے ایک سابق سربراہ کو غداری کے الزام کا سامنا کرتے دیکھنا مشکل تھا۔ اس لئے حکومت اور عدالتوں کےلئے اس شخص کو ملک سے جانے کی اجازت دینا پڑی۔ پاکستان ایک طویل فوجی دور کے بعد 2008 میں نئے جمہوری دور میں داخل ہوا تھا۔ پرویز مشرف کے انتہا پسند پیشرو ضیا الحق کے دور میں پاکستان کو انتہا پسندی کی آگ میں جھونک دیا گیا تھا۔ پرویز مشرف نے امریکہ کے حکم پر سر خم کرتے ہوئے افغان طالبان کے خلاف جنگ میں پاکستان کو فریق بنا کر ملک میں دہشت اور فساد کے ایک نئے دور کا آغاز کیا۔ پاکستانی قوم اس فیصلہ کی بھاری قیمت ادا کر چکی ہے۔ پاک فوج دو سال سے پرویز مشرف کے دور میں بچھائے ہوئے دہشت گردی کے کانٹوں کو چننے میں مصروف ہے۔ ان حالات میں ملک کی سیاسی قیادت اس حد تک خود مختاری کا مظاہرہ کرنے میں ناکام رہی ہے جو حقیقی جمہوری نظام کا تقاضہ ہے۔ اس حوالے سے سیاستدانوں کی کمزوریاں بھی ایک اہم وجہ ہیں لیکن ملک کے حالات ، دہشت گردی کے خلاف جنگ اور فوج میں پائے جانے والے اس رجحان کو بھی عمل دخل حاصل ہے کہ سکیورٹی اور خارجہ امور پر ان کی رائے کو اہمیت دی جائے۔ بار بار ’’فوجی انقلاب‘‘ کے ڈسے ہوئے سیاستدان ایک نئی فوجی حکومت کے خطرے کو ٹالنے کےلئے فوج کے بہت سے ناجائز تقاضے ماننے پر بھی مجبور ہوتے ہیں۔ پرویز مشرف کی رہائی اور ملک سے روانگی بھی ان میں سے ایک فیصلہ ہے۔ یہ غلط فیصلہ تھا لیکن ملک میں جمہوری نظام کو استوار کرنے کے نام پر یہ اقدام کیا گیا تھا۔ عوام نے بھی حالات کے تناظر میں یہ کڑوا گھونٹ پی لیا تھا۔ اور یہ قبول کر لیا گیا تھا کہ پرویز مشرف کا ملک سے جانا شاید کسی نئی مشکل میں گرفتار ہونے سے بہتر ہے۔

پاکستان میں مبصر اور صحافی اکثر سول حکومت کے خاتمہ کے بارے میں اندیشوں اور قیاس آرائیوں کا سبب بنتے ہیں۔ یہ خوش آئند صورتحال نہیں ہے۔ اس سے سیاسی نظام پر تو عدم اعتماد میں اضافہ ہوتا ہی ہے لیکن فوج کی شہرت بھی داغدار ہوتی ہے۔ ملک میں یہ یقین کر لیا گیا ہے کہ ہماری فوج کسی مہذب ملک کی عسکری قوت کی طرح سیاسی قیادت کی رہنمائی میں کام کرنے کےلئے تیار نہیں ہے۔ دل چاہتا ہے کہ اس رائے کو مسترد کر دیا جائے تا کہ پاک فوج کے دامن پر لگے ہوئے ان داغ دھبوں کو دھونے کے کام کا آغاز ہو سکے جو ایوب خان ، یحییٰ خان ، ضیا الحق اور پرویز مشرف کی سیاہ کاریوں کی وجہ سے لگے تھے۔ لیکن عام آدمی کے کہنے، ماننے یا نہ ماننے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ پاک فوج کو ہی اپنے طرز عمل اور ملک کی خدمت میں مثبت رویہ کے ذریعے یہ ثابت کرنا ہوگا کہ سیاست میں دخل اندازی فوج کا کام نہیں ہے۔ فوج کو بطور ادارہ یہ بات طے کرنا ہوگی کہ اس کا کام حکومت کرنا نہیں ہے بلکہ ملک کا دفاع کرنا ہے۔ تب ہی وہ روشن دن طلوع ہو سکے گا کہ پاک فوج کو پرویز مشرف جیسے آئین شکن کی پشت پناہی جیسا ناخوشگوار اقدام نہیں کرنا پڑے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2767 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments