الطاف بھائی کی گاندھی گیری


\"adnan-khan-kakar-mukalima-3b4\"

ہماری طرح آپ نے بھی مشہور فلمیں ”منا بھائی ایم بی بی ایس“ اور اس کا سیکویل ”لگے رہو منا بھائی“ دیکھی ہوں گی۔ نہیں دیکھیں تو ضرور دیکھ لیں۔

“لگے رہو منا بھائی“ میں مشہور غنڈے منا بھائی ایک دن ریڈیو سن رہے ہوتے ہیں تو ریڈیو کی دیوی کی آواز سن کر اس پر فدا ہو جاتے ہیں۔ اوپر سے ان کو گاندھی جی بھی درشن دینے لگتے ہیں جو ان کی فکری رہنمائی پر کمربستہ ہوتے ہیں اور مار کٹائی کے مواقع پر عدم تشدد کا فلسفہ محبت ذہن نشین کراتے رہتے ہیں۔

قصہ مختصر، منا بھائی ساری مار دھاڑ چھوڑ کر ایک سچے گاندھی بھگت بن جاتے ہیں اور اہنسا کا پالن کرنے لگتے ہیں۔

بھئی فلم دیکھ کر ہم تو یہی سمجھتے تھے کہ یہ سب قصے کہانیوں کی باتیں ہیں۔ بھلا کون اس طرح اپنا ماضی بھلا کر اس طرح سے عدم تشدد کا حامی بن جاتا ہے۔ مگر پھر یوں ہوا کہ ہمارے کراچی کے بھائی نے ہمیں غلط ثابت کر دیا۔ ہمارے الطاف بھائی کی رابطہ کمیٹی نے چند غیر متوقع سے بیان داغ دیے۔ گو کہ بظاہر دنیا کو دکھانے کو بھائی اور کمیٹی ایک دوجے کے دشمن بنے ہوئے ہیں، مگر ہمیں تو یہی حسن ظن ہے کہ دونوں میں محبت قائم ہے۔ وہ اسٹیبلشمنٹ سے مخاطب ہو کر کچھ یوں کہتے ہیں کہ

\"Altafہم پر يہ سختی کی نظر ہم ہيں فقير رہگزر
رستہ کبھی روکا تيرا دامن کبھی تھاما تيرا

اے بے دریغ و بے اَماں، ہم نے کبھی کی ہے فغاں؟
ہم کو تِری وحشت سہی ، ہم کو سہی سودا تیرا

دو اشک جانے کس لئے، پلکوں پہ آکر ٹک گئے
الطاف کی بارش تيری، اکرام کا دريا تيرا

یعنی خدارا ماضی کی تلخ باتوں کو بھول جائیں میرے حضور۔ ہم اپنے ہیں، کوئی پرائے تو نہیں۔ یہ سچ ہے کہ ہم سے الفت کے تقاضے نہ نباہے گئے، اور ہمارے چند ہزار کارکن ۹۲ کے دور ہنگام میں ملک سے غتربود ہو گئے اور ان میں سے اگر چند سو یا ہزار بھارت جا کر تربیت وغیرہ بھی پا گئے، تو یہ قبیح حرکت وہ قیادت سے پوچھے بغیر ہی کر گزرے ہیں۔ بھائی کا اس سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ خدارا ہم سے تو خفا مت ہوں۔ بس جیسے بھی ہیں، شریر ہیں، نادان ہیں، پریشان کرتے ہیں، لیکن آپ کے ہی تو ہیں۔ بس اب ایک ہی تمنا اس دل ناشاد میں باقی ہے کہ ہم سب کو ویسے ہی عام معافی دے دیں جیسے بلوچ فراریوں کو دی ہے۔

ممکن ہے کہ الطاف بھائی یا رابطہ کمیٹی کے الفاظ کچھ مختلف ہوں، لیکن بیان کا مفہوم و انداز کچھ ایسا سا ہی ہے۔

بخدا ہم حیرت زدہ ہی رہ گئے۔ کہاں الطاف بھائی کا وہ دبدبہ ہوا کرتا تھا کہ کراچی میں ہوا بھی ان سے پوچھ کر چلا کرتی تھی۔ بھائی کی تیوری پر بل آتا تھا تھا تو اس کے پیچ و خم میں پھنس کر شہر کی سب راہوں پر پہیہ جام ہو جایا کرتا تھا۔ بھائی کبھی زرداری صاحب کو دھمکا دیتے تھے تو پیپلز پارٹی کا تخت لرز جاتا تھا۔ کبھی میاں نواز شریف صاحب ان کے غضب کا نشانہ ہوتے تھے اور کراچی جا کر للو پتو کرنے پر مجبور ہوتے تھے۔ لیکن پھر بھائی اسٹیبلشمنٹ کو للکار بیٹھے اور اب یہ حال ہے کہ ڈبلیو بارہ کی بس بھی ان کے بس سے باہر ہوئی جاتی ہے اور عین ہڑتال کے دن بھی پہیہ گھماتی دندناتی چلی پھرتی ہے۔

پھر بھائی کا دل کچھ ایسا نرم ہوا سب کچھ بدل گیا۔ ہمیں نہیں معلوم کہ منا بھائی کے قصے کی مانند، وہ کون سی دیوی تھی جسے ہمارے الطاف بھائی نے سن لیا اور گاندھی گیری اختیار کی۔ کیا وہ ارض پاک کی کوئی شکتی شالی کالی دیوی تھی جس نے بھائی کے خیالات بدلے، یا کوئی گوری دیوی تھی جو ان سے سکاٹ لینڈ سے مخاطب ہوئی، لیکن بہرحال ہمارے والے بھائی بھی اب عدم تشدد کے پیروکار ہیں۔ جہاں پہلے ہڑتال کا یا کوئی دوسرا ڈنڈا چلاتے تھے، اب وہاں نرم بول چلاتے ہیں۔ اب وہ مہاتما گاندھی کے اس قوم کی عملی تفسیر نظر آنے لگے ہیں کہ جب تمہارا کسی مخالف سے سامنا ہو، تو اسے محبت سے فتح کر لو۔ یہی خیالات ان کی کتاب ”فلسفہ محبت“ میں جھلکتے ہیں۔

اور اب یہی فلسفہ وہ اسٹیبلشمنٹ کو پیش کر رہے ہیں۔ مہاتما گاندھی نے کیا خوب بات کہیں ہے کہ طاقت دو طرح کی ہوتی ہے، پہلی سزا کے خوف سے ملتی ہے اور دوسری محبت سے حاصل ہوتی ہے۔ محبت سے حاصل ہونے والی طاقت مستقل ہوتی ہے اور وہ خوف سے پائی جانے والی طاقت سے ہزار گنا زیادہ موثر ہوتی ہے۔

بس الطاف بھائی بھی یہی فلسفہ محبت بیان کر رہے ہیں گر کوئی سمجھے۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments