ضیاالحق، فریڈم فائیٹرز اور عقلمند امریکہ بہادر


مملکتِ خداداد میں مذہب ایک ایسا ادارہ ہے جس سے لوگوں کی بہت گہری اور جذباتی وابستگی ہے۔ مذہب کو تمام سیاسی، معاشی، معاشرتی، علمی وفکری اور روحانی مسائل کے حل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ مذہب ان تمام مسائل کا واحد حل ہے یا نہیں یہ تو ایک الگ بحث ہے لیکن اس ملک میں تقریباً ہر صاحبِ اقتدار ہستی نے اپنے مقاصد کے حصول کے لئے مذہب کا استعمال بڑے احسن طریقے سے کیا ہے۔ ان تمام ہستیوں میں سب سے ذیادہ مذہب کا تجارتی و سیاسی استعمال ضیاءالحق کے دورِ حکومت میں ہوا جس کی سر پرستی امریکہ بہادر نے خود کی۔ یہ انہی کے ہی تیار کردہ ” فریڈم فائیٹرز“ ہیں جنھیں آج کل امریکہ نے دہشت گرد قرار دیا ہوا ہے ۔ ابھی چند دن پہلے صدارتی امیدوار ہیلری کلنٹن نے اپنی تقریر میں اس بات کا اعتراف کیا کہ ” آج ہم جن لوگوں کے خلاف لڑ رہے ہیں ان کو پیدا کرنے والے ہم خود ہی ہیں“۔

5 جولائی 1977 میں جب ضیاءالحق بر سر اقتدار آئے تو مذہبی جماعتوں نے ان کی بھر پور حمایت کی تاکہ وہ پاکستان میں شریعت کے نفاذ کو یقینی بنا سکیں۔ ادھر ضیاءالحق نے بھی مذہبی جماعتوں کو اپنا آلہ کار بنایا تاکہ وہ اپنے اقتدار کومستحکم بنا سکیں۔ صورتِ حال میں بڑی تبدیلی اس وقت سامنے آئی جب سویت یونین اور افغانستان کے درمیان جنگ شروع ہوئی اور امریکہ نے سویت یونین کو شکست دینے کی غرض سے پاکستان اور افغانستان کی جانب گہری د لچسپی کا اظہار کیا۔ اپنے مقصد کی تکمیل کی خاطر امریکہ بہادر نے سائکلون آپریشن شروع کیا جسے ہمارے خطے میں جہاد تحریک کا نام دیا گیا۔ اس جہاد تحریک کو کامیاب بنانے کے لئے امریکہ نے ضیا حکومت کو 7 جبکہ افغان جہادیوں کو 2 بلین ڈالر سے نوازا۔ اس کے علاوہ ایک امریکن یونیورسٹی نیبراسکا) NEBRASKA ) نے پاکستان کا تعلیمی نصاب مرتب کیا اور نصابی کتابوں میں جہاد کے متعلق آیات اور احادیث کی بہت بڑی تعداد کو شامل کیا گیا۔ یہ وہی جہاد ی لٹریچر ہے جسے آج کل نصاب سے خارج کرنے کی کوششیں کی جاری ہیں اور اسی وجہ سے کئی بار مختلف مذہبی تنظیموں کی جانب سے مظاہرے بھی ہوئے ہیں۔

امریکی ”خیرات“ اتنی بھاری مقدار میں ملنا شروع ہوئی کہ ایسی مذہبی جماعتیں جن کا کوئی نام تک بھی نہیں جانتا تھا وہ بھی منظرِ عام پر آنے لگیں۔ 1970 کی دہائی میں پاکستان میں مذہبی جماعتوں کی کل تعداد رصرف 30 تھی جو 1980 کی دہائی میں237 تک پہنچ گئی۔ ان تنظیموں کو ”مجاہدین“ کی کھیپ مختلف مدارس فراہم کرتے تھے۔ افرادی قوت کو بڑھانے کے لئے ملک کے مختلف حصوں میں بے تحاشا مدارس قائم کئے گئے ۔ یہ مدارس زیادہ تر دیہات اور چھوٹے شہروں میں بنائے گئے کیونکہ دیہاتی پس منظر رکھنے والے نوجوانوں کو ”جہاد“ کے لئے تیار کرنا نہایت آسان ہوتا تھا۔ ایک اندازے کے مطابق افغان جہاد شروع ہونے سے پہلے پاکستان میں مدارس کی کل تعداد تقریباً 700 تھی جو بعد ازاں 10,000 سے بھی تجاوز کر گئی۔ دھڑا دھڑ بننے والی ان جہادی تنظیموں کے نام بھی ایسے رکھے جاتے تھے کہ ان کے ممبران میں جوش اور” شوقِ شہادت“ کا سرائیت کر جانا ایک فطری عمل تھا جیسا کہ لشکر طیبہ، حرکت الجہاد الاسلامی اور حرکتہ المجاہدین وغیرہ وغیرہ۔

مالی امداد حاصل کرنے کی دوڑ میں ان جہادی تنظیموں کے درمیان بھی مقابلہ بازی نے جنم لیا۔ ۔ شہرت حاصل کرنے کی خاطر ہر تنظیم بڑھ چڑھ کر یہ کو شش کرتی کہ افغان جنگ میں ”شہید “ ہونے والے زیادہ سے زیادہ افراد کا تعلق اپنی جماعت سے ثابت کیا جائے۔ اس مقصد کے حصول کے لئے یہ تنظیمیں اپنے رسائل، میگزین اور اخبارات وغیرہ کا استعمال کرتی تھیں ۔ اس طرح جتنی ذیادہ شہرت ملتی اسی تناسب سے مالی امداد حصے میں آتی۔ اس کے علاوہ مالی امداد حاصل کرنے کا ایک طریقہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو تنظیم میں شامل کر کے وسعت کو بڑھانا بھی تھا تاکہ زیادہ افرادی قوت دکھا کر امداد کی ایک بہت بڑی مقدار حاصل کی جا سکے۔

”جہادیوں“ کی حوصلہ افزائی کرنے کے لئے ایک خاص قسم کا کلچر متعارف کریا گیا۔ مختلف قسم کے جوشیلے ترانے لکھے اور پڑھے جاتے جو جذبہ بڑھانے میں اہم کردار ادا کرتے تھے۔ مزید یہ کہ اگر کسی خاندان کا کوئی فر د میدان جنگ میں مارا جاتا تو تنظیموں کے سربراہان اس کے ورثاءسے افسوس کرنے کی بجائے ان کے ہاں مٹھائیاں لے کر جاتے کہ مبارک ہو آپ کے بیٹے نے وہ مقام حاصل کر لیا جو ہر کسی کو نصیب نہیں ہوتا۔

نائن الیون کے بعد حالات نے پلٹا کھایا، وہی لوگ جو مجاہدین اور فریڈم فایئٹر کہلاتے تھے دہشت گرد قرار پائے۔ امریکہ بہادر نے اپنی ہی پیدا کردہ جہادی تنظیموں کی مالی امداد بند کر تے ہوئے پاکستانی حکومت کے توسط سے ان پر پابندیاں بھی لگوا دیں۔ امریکہ نے تو اپنا کام نکلوایا اور چلتا بنا لیکن ہم آج بھی ان تنظیموں کو پیدا کرنے کے نتائج بھُگت رہے ہیں۔ یہی ”مجاہدین“ آج کل پاکستان میں دہشت گردی کے لاتعداد واقعات میں ملوث ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق نائن الیون کے بعد پاکستان میں 60 ہزار سے زائد لوگ دہشت گردی کی بھینٹ چڑھے چکے ہیں ۔ لیکن افسوس کہ ہم آج بھی 1980کی دہائی والے رومانس سے باہر نہیں آئے، آج بھی عوام کی ایک بہت بڑی تعداد ان ”مجاہدین“ کو ہیرو سمجھتی ہے اور یہ بات ماننے کو تیار نہیں کہ ان کو پیدا کرنے کا مقصداسلام کی خدمت نہیں بلکہ امریکہ بہادر کی خوشنودی اور بھاری مالی معاونت حاصل کرنا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments