پاکستانی میڈیا انڈسٹری پر آئے بحران کی حقیقت


وزیر اعظم عمران خان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد پاکستانی میڈیا انڈسٹری شدیدبحران کا شکار ہے۔ سینکڑوں میڈیاورکرز روزگار کھو چکے ہیں اور ابھی بھی ملازمتوں سے نکالے جانے کا سلسلہ زور وشور سے جاری ہے۔ بہت سے میڈیا ہاؤسز میں عملے کی تعداد نصف سے بھی کم ہوکر رہ گئی ہے جبکہ اس بحران کے ختم ہونے کے دور دور تک کوئی آثار نظر نہیں آتے۔

چند روز قبل اسلام آباد پریس کلب میں احتجاجی ریلی نکالی گئی جس میں بڑے نیوز چینلز سے تعلق رکھنے والی صحافی برادری نے شرکت کی اور شدید تحفظات کا اظہار کیا۔ شرکاء نے حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ورکرز کے چولہے ٹھنڈے پڑگئے ہیں۔ صحافیوں کے ساتھ ظلم اور زیادتی ہو رہی ہے۔ صحافیوں کا معاشی قتل عام کیا جا رہا ہے۔ اینکر ز سے لے کر عام میڈیا ورکر تک ہر کوئی اپنی نوکری بچانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ موجودہ صورتحال میں جو لوگ میڈیا انڈسٹری سے منسلک ہیں انہیں کئی کئی مہینے بغیر تنخواہ کام کرنا پڑرہا ہے جبکہ میڈیا مالکان کی جانب سے نئی حکومتی پالیسوں کو مسائل کی وجہ بتایا جا رہا ہے۔ انہوں نے سارا ملبہ حکومت پر ڈالتے ہوئے کہا ہے کہ میڈیا انڈسٹری کے حالیہ بحران کی سب سے بڑی وجہ سرکاری اشتہارات کی بندش ہے، جسے آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ سمجھا جا رہا تھا۔

گزشتہ ہفتے لاہور میں مین سٹریم میڈیا چینل میں کام کرنے والے ایک دوست سے بات ہوئی۔ حال احوال پوچھنے کے بعد جب تنخواہ کے بارے میں پوچھا تو انتہائی مایوسی کے ساتھ جواب دیا کہ مالکان نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ اگرادارے میں رہنا ہے توخاموشی سے کام کریں ورنہ نوکری چھوڑدیں۔

کیا میڈیا انڈسٹری کے تمام اخراجات سرکاری اشتہارات کی مد میں ملنے والی رقم سے پورے کیے جاتے تھے؟ کیا غیر ملکی میڈیا انڈسٹری بھی سرکاری اشتہارات سے ملنے والی رقم پر منحصر ہے؟ اگر آپ مندرجہ بالا سوالات جا ئزہ لیں تو آپ کو جواب نہیں میں ملے گا۔ دراصل میڈیا مالکان ایک مافیا کا روپ دھار چکے ہیں۔ اگر کسی ورکرز نے معاوضہ مانگنے کی غلطی کی تو اسے نوکری سے نکالنے کی دھمکیا ں دی جاتی ہیں بلکہ بعض کو تو عہدے سے فارغ بھی کر دیا جاتا ہے۔

میڈیا مالکان کی اشتہارات کی انوکھی منطق سمجھ سے بالاتر ہے۔ میڈیا کا موجودہ بحران مالکان کی غفلت اور لاپرواہی کا نتیجہ ہے اورباقی کی رہی سہی کسرپروگرامز کے ناقص معیار نے پوری کی ہے۔ مثال کے طور پر آفتاب اقبال نے جیو نیوز کے پلیٹ فارم سے خبرنا ک پروگرام شروع کیا۔ یہ پاکستانی میڈیا انڈسٹری میں منفرد نوعیت کا پروگرام تھا۔ جیو نیوز کو دیکھا دیکھی دیگر میڈیا مالکان بھی اسٹیج اداکاروں کو بھاری تنخواہوں پر لائے جن کا کام صرف جگت بازی کرنا ہے۔ اس دوڑ میں جیو نیوز کے ساتھ جی این این، دنیا نیوز اور آپ نیوز بھی شامل ہو چکا ہے۔

ایک کاروباری شخص کی ماہانہ آمدن اگر کئی ارب روپے ہے اور اچانک کم ہو کر چند کروڑ رہ جائے تو اس شخص کے پیٹ میں مروڑ اٹھنا ایک عام فہم بات ہے۔ میڈیا مالکان کے پیٹ میں مروڑ پڑنے کی وجہ بھی یہی ہے حالانکہ ان کی اضافی آمدن غیر قانونی اور بلیک میلنگ کی مد میں اکٹھی کی جارہی تھی۔ ڈالر کی قیمت بڑھنے سے جہاں دیگر کاروباری افراد نے جان بوجھ کر مہنگائی میں اضافہ کیا ہے وہی کئی اخبارات مالکان نے اپنے ملازمین کو کئی ماہ سے تنخواہیں ادا نہیں کیں اور جواز پیش کیاگیا ہے کہ کاغذ کی قیمت میں اضافے کے باعث ادارے کو مالی دشواریوں کا سامنا ہے۔ بڑے بڑے چینلز مالکان اپنے ورکرز اور نمائندگان کے سامنے خود کو کنگال ظا ہر کرنے کی کوششوں میں مصروف عمل ہیں۔

میڈیا بحران کی بڑی وجہ سرکاری اشتہارات نہیں بلکہ ویب اور سوشل میڈیا کا بڑھتا ہوا رجحان بھی ہے۔ دور حاضر کی نوجوان نسل میں اخبارات اور جرائد پڑھنے کی عادت بالکل ختم ہو چکی ہے۔ اسی وجہ سے ٹی وی چینلز کے ناظرین میں کمی واقع ہوئی ہے۔ سوشل میڈیا پراپنی مرضی سے من چاہا پروگرام دیکھنے کی سہولت موجود ہے۔ سوشل میڈیا کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ ویب چینلز کسی معروف اینکر پرسن، کسی پروگرام اور ڈرامے کی مقبولیت کے دعووں کی حقیقت بتا سکتے ہیں۔

آج کل میڈیا چینل مالکان اور بڑے بڑے صحافی سینسر شپ کا رونا رو رہے ہیں۔ ہمارے ملک میں کوئی میڈیا ورکر اس وقت تک صحافی نہیں گردانا جاتا جب تک پاک فوج یا دیگر ملکی اداروں کے خلاف زہر نہ اگلے۔ اداروں کے خلاف بولنا کامیابی کا شارٹ کٹ سمجھا جاتا ہے۔ قومی سلامتی کے معاملات میں کوشش کی جاتی ہے کہ تحریر، کالم یا انٹرویو انٹرنیشنل میڈیا کی زینت بنے۔ میڈیا انڈسٹری میں نام بنانے کے لیے اوچھے ہتھکنڈے آزمائے جاتے ہیں۔

لاہور میں کئی میڈیا چینل ایسے ہیں جو صرف انٹرنز کی مدد سے چل رہے ہیں۔ سٹوڈنٹ تجربے کی غرض سے آتے ہیں اور ادارے ان کی مجبوریوں کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں۔ کام سیکھنے کے بعد معاوضہ کی بات چیت کی جائے تو مالکان کو ان کے الفاظ ناگوار گزرتے ہیں اور یوں انہیں نوکری سے برخاست کر دیا جاتا ہے۔ میڈیا انڈسٹری میں نئے آنے والے طلباء کی کئی لمبی قطاریں ہیں، اس لیے میڈیا مالکان جب چاہے ملازمین کو نوکری سے نکال دیتے ہیں۔

بڑے بڑے میڈیا اینکرز کے لیے سپورٹنگ ٹیم بنائی گئی ہیں جن کا کام پروگرام کے لیے روزانہ کی بنیاد پر ڈیٹا اکٹھا کر نا ہوتا ہے۔ ان ورکر ز کو معمولی تنخواہوں پر رکھا جاتا ہے جبکہ کئی کئی تنخواہوں کے بغیر بھی کام کروایا جاتا ہے جبکہ انہیں اینکرز پر میڈیا مالکان لاکھوں روپوں کی بارش کرتے ہیں۔ خبرناک پروگرام کی مہمان اینکر عائشہ جہانزیب کومحض ہنسنے کے لیے 10 لاکھ ماہانہ معاوضہ دیا جاتا ہے یہی صورت حال دیگر کئی اینکرز کی بھی ہے۔

ہر سال یونیورسٹیوں سے کئی ہزار طلباء صحافت کی ڈگریاں لے رہے ہیں لیکن انڈسٹری میں انٹرن شپ کے لیے انہیں کئی سال انتظار کرنا پڑتا ہے۔ میڈیا چینل کے دہرے معیار کا اندازہ آپ اس بات سے بخوبی لگا سکتے ہیں کہ جیو نیوز صرف نسٹ، نمل، اقراء، بحریہ، ذوالفقار علی بھٹو یونیورسٹی اورانسٹیوٹ آف بزنس منیجمنٹ کے طلباء کو اپنے ادارے میں ٹریننگ کرواتا ہے جبکہ لاہور رنگ اور نیو نیوزصرف سپیرئیر یونیورسٹی کے طلباء کی کامیابی کی ضمانت ہے۔ دنیا نیوز میں یونیورسٹی آف سنٹرل پنجاب کے طلباء پہلی ترجیح ہیں۔ میڈیا چینلز میں دیگر سرکاری یونیورسٹیوں کے طلباء کے لیے نو انٹری کا بورڈ لگایا گیا ہے۔ انٹرن شپ کے لیے اچھی فیملی یا ریفرنس کا ہونا بھی انتہائی ضروری ہے۔

میڈیا انڈسٹری پر آئے خودساختہ بحران کے باوجود صحافت میں حصہ لینے کے خواہشمند نواجوانوں کو چاہیے کہ صحافت کابطور روزگار انتخاب نہ کریں بلکہ اس شعبہ میں آنے کے لیے آپ کا متبادل ذریعہ آمدن ضرور ہونا چاہیے۔ میڈیا کے سٹوڈنٹ دوران تعلیم خود کو حسن نثاراور جاوید چوہدری سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک یہ شعبہ آمدن کا ایک بہترین ذریعہ ہے لیکن میڈیا انڈسٹری میں حقائق اس کے بالکل برعکس ہیں۔ میڈیا انڈسٹری پر آئے بحران کا اینکرز پرکوئی اثر نہیں کیونکہ انہی کے دم سے سیٹھوں کی دکان چمک رہی ہے۔ اصل بحران نیوز ایڈیٹرز، ٹیکنیکل سٹاف اور نیوز ڈیسک پر کام کرنے والے ہزاروں ورکرز پر ہے جوکہ موجودہ حکومت کے آنے سے نہیں بلکہ کئی سالوں سے جاری ہے۔ میڈیا مالکان اینکرز کی بھاری تنخواہوں میں کمی کرکے نہ صرف تنخواہوں کو بیلنس کر سکتے ہیں بلکہ انڈسٹری پر آئے بحران پربا آسانی قابو پایا جا سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).