پیارے کپتان اپوزیشن تو بکنے کو تیار ہو گی، خرید لو


جو بتائی جاتی ہیں ، ان میں سے کوئی بھی ڈیل لے کر نوازشریف کیا کریں گے ۔ وہ خود اپنے ملاقاتیوں کو جیل میں کہہ چکے ہیں ۔ ان کی ہر ڈیل کہانی میرے باہر جانے پر ختم ہوتی ۔ باہر کدھر جاؤں گا ؟ لندن فلیٹوں کے گیٹ پر ٹھڈے تو مار چکے۔ میں وہاں جاؤں گا ؟

پر خبریں ہیں کہ آنی بند ہی نہیں ہوتی ۔ کہیں کوئی خبر نہ ہو تو گھڑ لی جاتی ہے ۔ افواہوں کے جھکڑ چل پڑتے ہیں۔

مولانا فضل الرحمن نے اسلام آباد کی طرف مارچ کا اعلان کر رکھا ہے۔ ان کی حمایت کرنے پر مسلم لیگ نون کی رائے تقسیم ہے۔ اکثریت کا خیال ہے کہ ہم گورنٹمنٹ ان ویٹنگ ہیں ہمیں لاک ڈاؤن دھرنوں سے دور رہنا چاہئے ۔ اک مختصر گروپ ٹوکن سی شرکت کر لینے میں ہرج نہیں سمجھتا۔ جیل گروپ یعنی مقدمے جھیلنے والے چاہتے ہیں کہ انہیں اب حکومت کی دیوار سے ٹکرا دیا جائے۔

مسلم لیگ نون میں حکم صرف نوازشریف کا چلتا ہے ۔ وہ مولانا کی حمایت ہی کریں گے . باقی صرف حکمت عملیاں بناتے اور بلائیں ٹالنے کی کوشش یا دعائیں ہی کرنے جوگے ہیں۔

مولانا اگر اٹک پار کر کے اسلام آباد کی طرف آ گئے ۔ تب مسلم لیگ نون کی تنظیم بھی سرگرم ہو جائے گی ۔ تب بھی یہ پوری طرح شرکت کرنے سے پرہیز کر سکتے ہیں ۔ البتہ دھرنا تین دن چل گیا رش لے گیا تو پھر میلہ لوٹنے میں نون لیگ بھی سٹیج پر آگے بیٹھے دکھائی دے گی۔

سیدھی راہ پر ہم چلنا پسند نہیں کرتے دائرے میں سفر کرتے ہیں ۔ اس لیے ہمارے وطن میں موسم ہی نہیں وقت لوٹ لوٹ آتا ہے۔

بلوچستان میں ہم باپ ڈھونڈ لائے اس کو حکومت دلوا دی ۔ پر اسی بلوچستان سے اک جج پھر انصاف کے لیے عدالت کے در پر کھڑا ہے ۔ انصاف کی دیوی شرماتی گھبراتی آنکھیں چراتی دکھائی دیتی ہے۔

میڈیا ریاست کا پتہ نہیں کون سا ستون ہوتا ہے ۔ کپتان کی منجی اٹھا کر جب اسلام آباد لائی گئی تو اس کا ایک پایہ میڈیا نے کندھے پر اٹھا رکھا تھا دوسرا بابے ڈیم نے۔ منجی کے چار پائے ہوتے ہیں ، باقی دو پائے جنہوں نے اٹھا رکھے تھے ، ان کا میں نام کیوں لوں آپ خود ہی سمجھیں ۔

مولانا فضل الرحمن الیکشن کے نتائج دیکھ کر مشتعل ہو گئے تھے۔ انہوں نے اس حکومت کو گرانے کے لیے کمر باندھ رکھی ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کی توہین کی گئی ہے ۔ مسلسل انہیں جلسوں میں نفرت کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ جب انہیں ٹارگٹ کیا جا رہا تھا تو کوئی کسی کو روکنے والا نہیں تھا۔ اب انہیں اپنا حساب برابر کرنا ہے یہ ان کی سیاسی بقا کا مسئلہ ہے۔

مولانا جب بھی حکومت گرانے کے لیے آواز لگاتے تھے ۔ نوازشریف اور آصف زرداری اکتوبر اکتوبر کی تان اٹھاتے تھے۔ کپتان اور اس کے حواریوں کو یہ دونوں لیڈر صرف کرپٹ لگتے ہیں ۔ پر یہ دونوں سرکار چلانے گرانے بنانے کا دہائیوں پر محیط تجربہ بھی رکھتے ہیں۔ عالمی امور کو سمجھتے ہیں۔ طاقت کی راہداریوں میں کئی دہائیوں سے گھوم پھر رہے آ جا رہے۔

اک خیال سا آتا ہے جس کی کہیں سے تصدیق نہیں ہو پاتی کہ ہمارے یہ دونوں لیڈر ریجن میں ہونے والی متوقع تبدیلیوں سے باخبر تھے۔ تبھی اپنی سیاسی گیم لگانے کے لیے اکتوبر اکتوبر کہتے تھے۔ تجزیہ کرنے والے تب اس کا تعلق شائد غلط طور پر ایکسٹینشن سے جوڑتے تھے۔

ایران افغانستان پر کیا ہو رہا اسے رہنے دیتے ہیں ۔ گوادر پر ہم اپنے دو دوست ملکوں کو الجھا بیٹھے ہیں ۔ کہتے ہیں کہ ان میں سے ایک دوست ملک کے وزیر خارجہ نے براہراست نوازشریف کے حوالے سے کچھ سوالات کے جواب بھی مانگ لیے ہیں۔ پر اسے بھی رہنے دیتے ہیں۔

کشمیر اس وقت پاکستان کی اندرونی سیاسی صورتحال کو بنانے بگاڑنے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ جنرل کیانی ہوتے آصف زرداری ہوتے ، مودی نے یہی کچھ کیا ہوتا تب بھی ہمارے آپشن محدود ہوتے۔ جنرل راحیل شریف ہوتے نوازشریف ہوتے ، مودی یہ سب کرتا ہمارے آپشن محدود ہی رہتے۔

بھارتی وزیراعظم مودی اس وقت بہت جارحانہ انداز میں سامنے آ چکا ہے۔ اس کا اندازہ ایسے لگائیں کہ پلوامہ کا ایک واقعہ ہوتا ہے۔ اس واقعے کا کردار وادی کا مقامی نکلتا ہے۔ جو وہیں اپنے لوگوں میں رہتا تھا۔ اس واقعے میں استعمال ہونے والا بارود بھارتی ساخت کا ثابت ہو جاتا ہے۔

پاکستان اس واقعے سے لاتعلقی اختیار نہیں کر پاتا ۔ بالاکوٹ ہو جاتا ہے۔ پاکستان اس وقت بطور ملک کمزور معیشت کے ساتھ بہت سے ریجنل معاملات پر عالمی دباؤ کا شکار ہے۔ گن گن کر بتانے کی ضرورت نہیں ایف اے ٹی ایف کو یاد کر لیں۔

کوئی بھی حکومت ہوتی ، اتنے دباؤ میں اس کا سروائیو کرنا مشکل تھا۔ یہ حکومت جیسے آئی تھی یا جیسے لائی گئی تھی۔ جیسے کرپشن کو ہتھیار بنا کر اک منتخب حکومت کو مسلسل نشانہ بنایا گیا تھا۔ ایسی کرپشن جو اب تک کہیں کسی عدالت میں ثابت نہیں ہو پائی۔ مذہب کو بطور ہتھیار استعمال کیا گیا تھا۔ الیکشن میں دھکا لگایا گیا تھا۔ ساری ہی سیاسی جماعتیں وہ بھی جن کی ہار اصلی تھی دکھی اور رنجیدہ ہیں۔

اب اس اپوزیشن کے ہاتھ بھی اک ایسا ایشو آیا ہے کہ جب وہ اس کا رولا ڈالے گی ۔ کشمیر کشمیر کرے گی تو کسی سے کوئی جواب بن نہیں پائے گا۔ جو بھی ٹارگٹ ہو گا ۔ اسے چپ چاپ سہنا سننا ہو گا ۔ ہر گزرتا دن کشمیر کے حوالے سے معاملات کو نازک کرتا جائے گا ۔ حکومت کے پاس جواب دینے کو کہنے کو کچھ نہیں ہو گا۔

مولانا فضل الرحمن کے آزادی مارچ کی آمد آمد ہے۔ ملاقاتوں پر پابندی کے باوجود خصوصی اجازت ملنے پر نواز شریف کی شہباز شریف سے ملاقات ہوتی ہے۔ پیغام لے کر گئے ہونگے۔ یہی کے کر بھلا ہو بھلا ۔ اندر والوں کو اندر آرام میسر آ سکتا ۔ باہر والے باہر رہ سکتے، پوزیشن بحال ہو سکتی ، نئے الیکشن پر بھی بات ہو سکتی ہے۔

ان سب پر بات ہو سکتی پتہ ہے کیوں ۔ اس لیے کہ کہیں اپوزیشن کہیں کشمیر بیچ دیا کو احتجاج کا پوائنٹ نہ بنا دے ۔ نوازشریف کرپشن کرپشن ، چور چور کے نعروں کا آج تک جواب نہیں دے سکے ۔ ڈھنگ کا موقف تک نہیں اپنا سکے۔

کشمیر بیچ دیا اس پر ڈیل ہو گئی ۔ اس کا جواب بھی کسی کے پاس نہیں جو نظر آ رہا اس کا دفاع ممکن نہیں۔ یہ ایشو بن گیا تو یہاں دستار اچھالی جائیں گی۔

گھبرائیں مت بات بہت ہی سنجیدہ ہو گئی ۔ ہمیں پانچ چھ سال یہ بتایا گیا کہ مولانا دو وزارتوں اک اسمبلی کی نشست کشمیر کمیٹی یا خارجہ کمیٹی پر ڈھیر ہو جاتے ہیں۔ آصف زرداری اور نوازشریف تو ہیں ہی کرپٹ ، انہیں نوٹ دکھائیں ان کا موڈ بھی بن جائے گا ۔

اک سالم ریڑھا کرائیں اس پر یہ سارے مفکر لادیں جو مولانا کو جا کر یہ دو وزارتیں ایک چئرمینی اسمبلی کی نشستوں کی آفر کرکے خرید سکتے ہیں ، ٹینشن کیا ہے؟ مولانا تو ماننے کو تیار ہی بیٹھے ہونگے۔

وہ کپتان تھا ، وہ اس کو لانے والے تھے جو مان گئے تھے کہ اوپر ٹھیک ہو تو سب ٹھیک ہوتا ۔ بھائی اوپر تو اللہ میاں ہیں اوپر کا کیا مسئلہ ؟ رولا تو ان نیچے والوں کا ہے جن کا کوئی کام سیدھا نہیں۔ جو آپ ہیں اور ہم ہیں ۔ آپ بھی کیسی کیسی باتوں میں آ کر کیسے کیسے کام کر بیٹھتے ہیں۔

اب دل چھوٹا نہ کریں اٹھیں فوراً الٹا کام ہی کریں جا کر اس بکاؤ اپوزیشن کو خرید لیں بکنے کو تیار بیٹھی ہوگی انتظار میں۔

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 406 posts and counting.See all posts by wisi