جنگ مسائل کا حل نہیں


\"afshan-musab\"ہمارے خطے کی آب و ہوا کے علاوہ جو عوامل یہاں بسنے والوں کے مزاج اور طبیعت پر اثر انداز ہوتے ہیں ان میں معمولاتِ زندگی ، اجناس ، کوئی بھی معاملہ نبٹانے کی عملی صلاحیت اور پرنٹ میڈیا کے ساتھ اب الیکٹرانک اور سوشل میڈیا نے بھی شراکت داری اختیار کرلی ہے ۔برہان وانی کی شہادت کے بعد کئی ہفتوں سے چلتی مقبوضہ کشمیر کی صورتحال ہو ، اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے پہلے اُڑی اٹیک ہو یا پھر مبینہ ٹیلی فونک سرجیکل اسٹرائیک ور اب سرینگر بارہ مولا اٹیک ۔۔ منہ کے ہوائی فائر ہیں کہ سرحد کے دونوں جانب تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہے۔نفرتوں میں گُندھنے کے بعد اب تو خمیر بھی باس مارنے لگا ہے۔

ذرائع بلاغ کے ہر فورم پر دفاعی و خارجہ امور کے ماہرین قابض ہوچکے ہیں۔ٹی۔وی چلاؤ تو فلاں میزائل ، ڈھمکاں صلاحیت اور یہ وہ اہداف پر چیخ و پکار مچی ہوئی ہے۔فریقین ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے عسکری قوت اور آہنی ہاتھوں کو بڑھا چڑھا کر بیان کرتے اپنے عوام کا دِل رجھا رہے ہیں۔یا کہیے تو حُب الوطنی کو دوسری ریاست سے نفرت کے ساتھ جوڑ کر جنگی جنون کے ہیجان سے لتھڑے سلگتے معاشروں کو ہوا دینے پر کاربند ہیں۔نازاں ہیں تو جوہری قوت پر۔۔۔ بجلی کی آنکھ مچولی کے دوران جنیٹرز اور یو۔پی۔ایس پر چلتے کی۔بورڈز ایک دوسرے کو اپنی ایٹمی صلاحیتوں سے بہرہ مند فرماتے ہیں۔لطف تو یہ ہے کہ جن نابغوں نے اپنے ووٹ کی طاقت ایک دفعہ استعمال کی یا پہلے موقع کے منتظر ہیں ، اکیڈمیز سے نوٹس خرید کر رٹے مارتے مصنوعی ذہانت پرشاداں ہیں اور مطالعہ کے نام پر کنٹرولڈ ریاستی نصاب سے مستفید ہوا کرتے ہیں۔ وہی آپ کو جنگی فتوحات ، بیلیسٹک میزائلز اور ایٹمی بم کی افادیت پر لیکچرز دیتے ملیں گے۔ان کی معلومات کے خزانے اور دنیا میں جنگی وحشتوں کے اثرات و نتائج پر دسترس کا ذریعہ چند ٹی۔وی ٹاک شوز ، فوٹوشاپڈ تصاویر اور سپیچ ببلز جبکہ تاریخ کے حوالوں کے طور پر کچھ فیس بک پیجز ہیں۔دونوں جانب کے ان بچوں سے پوچھا جائے کہ اُن کی ریاستوں کے کُل بجٹ کا کتنے فیصد دفاع اور کتنے فیصد تعلیم و صحت پر لگتا ہے تو جواب ندارد ۔انہیں چاہیے تو صرف جنگ۔۔۔ کِس لیے ؟ شاید اسٹیٹس لگانا ہو \”فیلنگ جنگو جنگ ود سلمان خان اینڈ سکسٹی ایٹ ادرز\” یا پھر \”ھیونگ ایٹمی بمب وِد فواد خان اینڈ ففٹی سیون ادرز\”

ایک بات جو بات قابلِ غور ہے وہ پاکستان اور بھارتی نیوز چینلز کا رویہ ہے۔ریاست یا اس کے کون سے ادارے اپنی پالیسیز کو اس میڈیئم کے تحت فروغ دے رہے ہیں یہ سمجھنا کچھ اتنا مشکل بھی نہیں رہا۔مجھےلیکن کچھ اعداد و شمار دیکھ کر حیرت ہورہی ہے کہ عاشقانِ جنگ و جدل کیا واقعی اپنے گھر کی حالت سے انجان ہیں یا پھر پنجابی کی مثال کے مصداق \”شریکے دی کند ڈھانا\” مقصود ہے۔

2015ء کے ایک جائزے کے مطابق بھارت کی تقریباً 60 فیصد آبادی بیت الخلاء جیسی بنیادی ضرورت سے محروم ہے۔اس طعنے کو مسلسل استعمال کرنے والے پاکستانی مجاھدین یہ بھول جاتے ہیں کہ 41 ملین پاکستانی بھی یہ سہولت نہیں رکھتے۔حتیٰ کہ لاہور جیسے شہر میں گزشتہ برس تک 21 عوامی بیت الخلاء تھے۔2015ء تک کراچی میں 38 مقامات پر پبلک ٹوائلٹس جبکہ 2014ء کی رپورٹ کے حساب سے اسلام آباد کے 93 میں سے 32 پبلک ٹوائلٹس غیرفعال یا ناکارہ ہیں۔یہ حالات صرف آپ کے بڑے شہروں کے ہیں۔لہذا اس بات کا طعنہ پڑوسیوں کو دینے کی بجائے مناسب ہوگا کہ رفع حاجت کے لیے اپنے ہم وطنوں کی مشکل پہلے آسان کی جائے۔

آبی جارحیت کے تھرتھراتے آپسی دعووں سے قبل اپنے ہاں زیرِ زمین پانی کی مسلسل کم ہوتی سطح اور اس نعمت کے سفاکانہ زیاں بارے بھی سوچ لیجیے۔

پاکستان میں اوسطاً ہر 44 میں سے ایک بچہ غذائی قلت کا شکار ہے یعنی تقریباً 9.6 ملین بچے۔۔بھارت کے 44 فیصد بچے نمو کی معیاری حد سے نیچے جیتے ہیں۔جوہری ہتھیاروں اور ایٹمی قوت پر تکبر کرنے والی دونوں ریاستوں کا مستقبل جِس نسل سے بندھا ہے ان کی ذہنی و جسمانی نشونما کی ایسی غیر کامل حالت ایک خطرناک منظر پیش کرتی ہے۔

سالانہ ایک لاکھ چالیس ہزار بھارتی بچے 5 سال کی عمر سے قبل ہیضہ کا شکار ہوکر زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں تو پاکستان میں حاملہ ماؤں کی نصف تعداد کے پاس بچے کی ولادت کے وقت کوئی ہنر مند ھیلتھ ورکر کی سہولت تک موجود نہیں ہے۔ہر برس 2 لاکھ بچے اپنی پیدائش کے پہلے مہینے میں مر جاتےہیں۔وجہ وہی بہتر رہنمائی ، صحت و صفائی کی سہولیات کا فقدان اور غذائی قلت کا شکار مائیں۔اور یوں پاکستان اس وقت نومولود کی شرحِ اموات میں نائجیریا،افغانستان اور سومالیہ کو بھی مات دے رہا ہے۔

حکومتی جماعت کی مانی جائے تو اس وقت 60 ملین پاکستانی خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔2014ء میں جاری کردہ ایک سروے کے نتائج 37 کروڑ بھارتیوں کو غربت کی عمومی سطح سے نیچے دکھا رہے ہیں۔۔۔ سرحد کے دونوں جانب، بھوک اور ننگ کا راج ، جوہری جنگیں کریں گے مہاراج۔

خاندانی منصوبہ بندی کے سلسلے میں ریاستیں کتنی کامیاب ہیں وہ تو دونوں جانب کی بڑھتی آبادی کو دیکھ کر بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔خرگوش کے ساتھ شرطیں باندھنے والی \”اقوام\” بن چکے ہیں۔

گوبل انوویشن انڈیکس کی درجہ بندی خطرے کی گھنٹی بجا رہی ہے۔اس کے کلیدی نتائج پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔مجموعی طور پر بھارت 66ویں اور پاکستان 119 ویں درجے پر ہیں۔بھارت میں شرح خواندگی 72 فیصد جبکہ پاکستان میں 56 فیصد ہے۔ دوسری جانب مرد و خواتین کی شرح خواندگی کا فرق پاکستان میں 26.9 فیصد جبکہ بھارت میں یہ فرق 18 فیصد ہے۔

قصہ مختصر، پاک-بھارت عوام کو خود بھی سمجھنا چاہیے کہ ان کے معاشی و معاشرتی حالات کو حالیہ محاذ آرائی کی عملی صورت کون سی گہرائیوں میں دھکیل سکتی ہے۔ بھارت کی معیشت نئی بلندی کی جانب گامزن ہے تو پاکستان کی جی ڈی پی گروتھ اپنی بقاء کی جنگ میں مصروف ہے۔ حکومتوں کو جنگ کی ہلہ شیری دینا بھی شدت پسندی اور جنگی جنون کی ایک صورت ہے۔

دونوں جانب اقلیتوں کے ساتھ روا متشدد سلوک کو دیکھتے سب سے پہلے تو ریاستوں کو معاشرتی ہم آہنگی اور باہمی برداشت کے فروغ پر کام کرلینا چاہیے۔سوشل اور الیکٹرانک میڈیا پر دشمن کو زیر کرنے کے مواقع بتیہرے مل جائیں گے۔

بقول ساحر لدھیانوی

جنگ کے اور بھی تو میداں ہیں

صرف میدانِ کشت وخوں ہی نہیں

حاصلِ زندگی خِرد بھی ہے

حاصلِ زندگی جنوں ہی نہیں

(یہ مضمون سب سے پہلے ڈان میں شائع ہوا۔)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments