کیا لیجنڈ بھارتی اداکار راج کمار کا تعلق احمد پورشرقیہ سے تھا؟


سوشل میڈیا پر ان دنوں برصغیر کے لیجنڈ اداکار، شہنشاہ مکالمات راج کمار کو ان کی وفات کے 23 سال بعد ”زبردستی“ احمد پوری بنانے کی تحریک زور و شور سے جاری ہے، بلکہ تحصیل احمد پور شرقیہ میں کرنیل والی مسجد کے ساتھ ان کی رہائش گاہ کے علاوہ ”ماجد خان“ نامی ایک بھائی کو بھی ”دریافت“ کر لیا گیا ہے، جو اب بھی زندہ حیات ہیں بلکہ برصغیر کے کروڑوں دلوں پر راج کرنے والے راج کمار سے تعلق کے بعد تو اب انہیں ”زندہ جاوید“ کہنا چاہیے۔

واللہ العلم۔ لیکن حیرت ہے کہ اپنی زندگی کے 70 برسوں میں تو انہوں نے کبھی اپنا تعلق احمد پور شرقیہ اور ”خان فیملی“ سے نہیں بتایا، پتہ نہیں اس بے پر کی اڑانے کے پیچھے کون سے مقاصد کار فرما ہیں تاہم وکی پیڈیا سمیت دیگر تمام اہم ویب سائٹس سے استفادہ کرنے سے یہ حقیقت ہی سامنے آتی ہے کہ 8 اکتوبر 1926 ء کو پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے ضلع لورا لائی میں پیدا ہونے والے راج کمار صاحب کا اصل نام کلبھوشن پنڈت تھا۔

گریجویشن مکمل کرنے کے بعد راج کمار نے اپنی عملی زندگی کا آغاز ممبئی کے ماہم پولیس اسٹیشن میں بطور سب انسپکٹر کے طور پر کیا۔ ایک رات گشت کے دوران ایک سپاہی نے راج کمار سے کہا، حضور! آپ رنگ، ڈھنگ اور قد کے لحاظ سے کسی ہیرو سے کم نہیں ہیں۔ فلموں میں اگر آپ ہیرو بن جائیں تو لاکھوں دلوں پر راج کر سکتے ہیں۔ سپاہی کی یہ بات راج کمار کے دل میں اتر گئی۔ راج کمار ممبئی کے جس تھانے میں ملازم تھے۔ وہاں اکثر فلم انڈسٹری سے وابستہ لوگوں کا آنا جانا تھا۔

ایک مرتبہ پولیس اسٹیشن میں فلم ساز بلدیو دوبے ایک ضروری کام کے لئے آئے تو وہ راج کمار کے بات کرنے کے انداز سے بے حد متاثر ہوئے اور انہوں نے راج کمار سے اپنی فلم ”شاہی بازار“ میں اداکار کے طور پر کام کرنے کی پیشکش کی۔ راج کمار سپاہی کی بات سن کر پہلے ہی اداکار بننے کا فیصلہ کر چکے تھے۔ اس لئے انہوں نے فورا ہی اپنی سب انسپکٹر کی نوکری سے استعفیٰ دیا اور ان کی پیشکش قبول کر لی۔

”شاہی بازار“ بننے میں کافی وقت لگ لگا اور راج کمار کو زندگی کی گزر بسر کرنا مشکل سا ہو گیا۔ اس لئے انہوں نے 1952 ء میں آئی فلم ”رنگیلی“ میں ایک چھوٹا سا کردار قبول کر لیا۔ یہ فلم سنیما گھروں میں کب آئی اور کب گئی۔ یہ پتہ ہی نہیں چلا۔ اس درمیان ان کی فلم ”شاہی بازار“ بھی ریلیز ہو گئی جو باکس آفس پر فلاپ ثابت ہوئی۔ اس فلم کی ناکامی کے بعد راج کمار کے تمام رشتہ دار کہنے لگے کہ تمہارا چہرہ فلموں کے لئے مناسب نہیں ہے۔

وہیں کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ راج کمار ویلن کے رول کے لئے موزوں رہیں گے۔ 1952 ء سے 1957 ء تک راج کمار فلم انڈسٹری میں جگہ بنانے کے لیے مسلسل جدوجہد کرتے رہے۔ ”رنگیلی“ کے بعد انہیں جو بھی کردار ملا۔ وہ اسے قبول کرتے گئے۔ اس دوران انہیں ”انمول سہار“، ”اوسر“، ”گھمنڈ“، ”نیل منی“ اور ”کرشن سداما“ جیسی کئی فلموں میں اداکاری کرنے کا موقع ملا۔ لیکن ان میں سے کوئی بھی فلم باکس آفس پر کامیاب نہیں ہو پائی۔

محبوب خان کی 1957 ء میں آئی فلم ”مدر انڈیا“ میں راج کمار گاؤں کے ایک کسان کے چھوٹے سے کردار میں نظر آئے۔ حالانکہ یہ فلم مکمل طور اداکارہ نرگس پر مرکوز تھی، پھر بھی وہ اپنی اداکاری کے تاثر چھوڑنے میں کامیاب رہے۔ اس فلم میں پُراثر اداکاری کے لیے انہیں بین الاقوامی شہرت حاصل ہو گئی اور فلم کی کامیابی کے بعد وہ اداکار کے طور پر فلم انڈسٹری میں شناخت بنانے میں کامیاب ہو گئے۔ 1959 ء میں ریلیز ہونے والی فلم ”پیغام“ میں ان کے مدمقابل شہنشاہ جذبات دلیپ کمار تھے اس کے باوجود راج کمار یہاں بھی اپنی مضبوط اداکاری کے ذریعے ناظرین کی دادو تحسین حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ اس کے بعد ”دل اپنا اور پریت پرائی“، ”گھرانہ“، ”گودان“، ”دل ایک مندر“ اور ”دوج کا چاند“ جیسی فلموں میں ملنے والی کامیابی کے ذریعے وہ شائقین سینما کے درمیان اپنی اداکاری کا سکہ جمانے کے لئے ایک ایسے مقام پر پہنچ گئے جہاں وہ اپنا کردار خود منتخب کر سکتے تھے۔

1965 ء میں ریلیز ہونے والی فلم ”کاجل“ کی زبردست کامیابی کے بعد راج کمار نے اداکار کے طور پر اپنی الگ شناخت بنا لی۔ بی آر چوپڑا کی 1965 میں آئی فلم ”وقت“ میں اپنی لاجواب اداکاری سے وہ ایک بار پھر ناظرین کی توجہ اپنی طرف مرکوز کرنے میں کامیاب رہے۔ فلم میں راج کمار کے ادا کردہ ڈائیلاگ جیسے ”چنائے سیٹھ، جن کے گھر شیشے کے ہوتے ہیں وہ دوسروں پہ پتھر نہیں پھینکا کرتے۔ “ یا ”چنائے سیٹھ! یہ چاقو ہے بچوں کے کھیلنے کی چیز نہیں، ہاتھ کٹ جائے تو خون نکل آتا ہے۔

” ناظرین میں کافی مقبول ہوئے۔ فلم“ وقت ”کی کامیابی سے راج کمار شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گئے۔ اس کے بعد انہوں نے“ ہرناز ”، “ نیل کمل ”، “ میرے حضور ”، “ ہیر رانجھا ”اور“ پاکیزہ ”، میں رومانوی کردار بھی کیے جو ان کے فلمی کردار سے مطابقت نہیں رکھتے تھے لیکن اس کے باوجود اپنی جاندار اداکاری سے راج کمار ناظرین کا دل جیتنے میں کامیاب رہے۔

کمال امروہی کی فلم ”پاکیزہ“ مکمل طور پر مینا کماری ناز پر مرکوز فلم تھی۔ اس کے باوجود راج کمار اپنی با اختیار اداکاری سے ناظرین کی توجہ اپنی جانب مرکوز کرنے میں کامیاب رہے۔ ”پاکیزہ“ میں ان کی طرف سے ادا کیا گیا ایک مکالمہ ”آپ کے پاؤں دیکھے، بہت حسین ہیں، انہیں زمین پر مت رکھئے گا، میلے ہو جائیں گے۔ “ اس قدر مقبول ہوا کہ لوگ ان کی آواز کی نقل کرنے لگے۔ 1978 ء میں ریلیز ہونے والی فلم ”کرم یوگی“ میں بھی راج کمار کی اداکاری قابل دید تھی۔ اس فلم میں انہوں نے دو الگ الگ کرداروں میں اداکاری کے جوہر دکھائے۔ 1991 ء میں فلم ”سودا گر“ میں راج کمار کی اداکاری کے نئے طول و عرض دیکھنے کو ملے۔

سبھاش گھئی کی فلم میں راج کمار 1959 ء میں آئی فلم ”پیغام“ کے بعد دوسری بار دلیپ کمار کے مدمقابل تھے اور فلم بین ان دونوں عظیم اداکاروں کو ایک ساتھ دیکھنے کے لئے بے قرار تھے۔ 90 کی دہائی میں راج کمار نے فلموں میں کام کرنا کافی کم کر دیا۔ اس دوران ان کی ”ترنگا“، ”پولیس اور مجرم“، ”انسانیت کے دیوتا“، ”بے تاج بادشاہ“ اور ”جواب“ جیسی فلمیں آئی۔ تنہا رہنے والے راج کمار نے شاید محسوس کر لیا تھا کہ موت ان کے کافی قریب ہے۔

اسی لیے انہوں نے ایک دن اپنے بیٹے پرو راج کمار کو کہا تھا کہ ”دیکھو! موت اور زندگی انسان کا ذاتی معاملہ ہوتا ہے۔ میری موت کے بارے میں میرے دوست چیتن آنند کے علاوہ اور کسی کو نہیں بتانا۔ میری آخری رسومات ادا کرنے کے بعد ہی فلم انڈسٹری کو مطلع کرنا۔ “ تقریبا چار دہائی تک اپنی سنجیدہ اداکاری سے ناظرین کے دلوں پر حکومت کرنے والے برصغیر کے یہ عظیم اداکار گلے کے کینسر کے باعث 3 جولائی 1996 کو اس جہان فانی سے کُوچ کر گئے۔ لیجنڈری راج کمار کی فنی خدمات کے اعتراف میں انہیں 4 بار نیشنل ایوارڈز، پدم بھوشن اور دادا صاحب پھالکے ایوارڈ سے نوازا گیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).