با پردہ پاکستان میں اجنبی


جہاز نے محمود غزنوی ائیر پورٹ پر لینڈ کیا تو میری آنکھیں بھیگ گئیں۔ بالآخر میں دس سال بعد پاک سر زمین پر تھا۔ میرے ایک انتہائی قریبی دوست شیخ نے وٹس ایپ میسیج کیا تھا کہ وہ مجھے لینے آئے گا۔ وطن کی مٹی سے نگاہ اٹھا کر سامنے دیکھا تو وہ کہیں نظر نہ آیا۔ البتہ سینکڑوں ہمشکل افرد نظر آئے۔ مجھے شدید حیرت ہوئی کہ کسی زمانے میں چینی باشندے ہمیں ایک ہی شکل کے لگتے تھے یہ میرے دیس کے لوگ کیسے ایک ہی طرح کے ہو گئے۔ عینک کے شیشے صاف کر کے دوبارہ دیکھا۔ سب نے سفید شلوار قمیص پہنے ہوئے تھے چہروں پر ایک ہی طرح کی داڑھیاں تھیں۔ پھر ایک داڑھی ہلی اور میری طرف بڑھی۔

قریب آتے ہی اس نے ایک نعرہ مستانہ لگایا تو پتا چلا کہ وہ تو شیخ ہی تھا۔ معانقے کے بعد میں نے کہا کہ ”شیخ صاحب آپ کے حلیے میں اتنی بڑی تبدیلی آ گئی تھی تو کم از کم وٹس ایپ پر اپنی تازہ تصویر ہی شئیر کر دیتے تاکہ حیرت کا جھٹکا ذرا دھیرے سے لگتا۔“

”تم بھول رہے ہو یار! میں نے گزشتہ نو برس سے اپنی تصویر لگانا چھوڑ دی ہے“۔ تب مجھے خیال آیا کہ میں امریکہ منتقل ہونے کے بعد پیسہ کمانے میں اس قدر مشغول رہا کہ پاکستان کی خبروں سے بھی لا تعلق رہا مجھے نہیں معلوم تھا کہ کیا تبدیلی آ چکی ہے۔ کہاں 2019 اور اب 2029 تھا۔

”ٹھیک ہے یار! تمہاری گاڑی کہاں ہے، بس اب اپنے گھر لے چلو بہت تھک گیا ہوں۔“

”میں نے تو گاڑی بیچ دی تھی، در اصل میں ڈھائی ہزار روپے لیٹر پیٹرول افورڈ نہیں کر سکتا تھا۔“

”اوہ تو پیٹرول ان دنوں اتنا مہنگا ہے۔“

”ان دنوں تو پانچ ہزار روپے فی لیٹر ہے میں اس وقت کی بات کر رہا ہوں جب میں نے گاڑی بیچی تھی۔“

”آئی سی۔ تو پھر اوبر منگا لو۔“

”یہ سروس تو کب کی بند ہو چکی۔“

”کیا مطلب یار میٹرو تو ہے ناں۔“

”ہے تو سہی مگر اس میں ایک دو مسافر ہی ہوتے ہیں اور انہیں ہی ساری بس کا بھاری بھرکم کرایہ دینا پڑتا ہے۔ شروع میں اس کا کرایہ بڑھایا گیا تو مسافر کم ہو گئے تھے پیسہ پورا کرنے کے لیے کرایہ اور بڑھا دیا گیا، مسافر اور کم ہو گئے اس طرح ہوتے ہوتے یہ حال ہو گیا۔ میں کوئی جاگیردار نہیں ہوں نہ ہی شوگر مل کا مالک ہوں اس لیے میٹرو میں سفر نہیں کرتا۔ “

”تو کیا ہم پیدل جائیں گے؟ “

”نہیں یار! ائیر پورٹ سے باہر تو نکلو، گدھا سروس، گھوڑا سروس اور اونٹ سروس کی سہولت موجود ہے۔“ تھوڑی دیر بعد ہم ایک اونٹ پر بیٹھے اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھے۔ کافی سفر طے کرنے کے باوجود مجھے لاہور کے آثار نظر نہیں آ رہے تھے۔ میرے اندازے کے مطابق ہمیں مال روڈ پر ہونا چاہیے تھا۔ مگر وہ سڑک نامانوس سی لگ رہی تھی۔ نہ سڑک پر کوئی گاڑی نظر آ رہی تھی نہ چلتے پھرتے مردو زن۔ سڑک پر تانگے، بیل گاڑیاں، گھوڑے، خچر اور اونٹ تھے جن کی سواری کرنے والے تمام داڑھی والے مرد تھے۔

میں نے دائیں بائیں کا باریک بینی سے جائزہ لینا شروع کیا۔ گورنر ہاؤس، ریگل چوک، پنجاب اسمبلی، ہائی کورٹ، جنرل پوسٹ آفس تو اپنی جگہ موجود تھے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ شہر تو لاہور ہی ہے مگر فرق کیا ہے؟ تب اچانک سمجھ میں آیا۔ کہ سڑک پر موجود تمام افراد ایک جیسے لباس اور شرعی داڑھیوں والے تھے۔ تاہم کچھ برقع پوش وجود بھی تھے۔

”یار شیخ یہ عورتیں بڑی باپردہ ہو گئیں ہیں۔ “ میں نے تعریفی انداز میں کہا۔

”بھائی صاحب یہ عورتیں نہیں لڑکے ہیں۔ جن لڑکوں کی داڑھیاں ابھی نمودار نہیں ہوئیں وہ برقع پہنے بغیر گھر سے نہیں نکل سکتے۔ یہ حکومت کا آرڈر ہے۔ “

”اچھا! تو یہ بات ہے۔ خیر اب تمہرا گھر قریب ہے ہم اس وقت انار کلی سے گزر رہے ہیں ناں؟“ میں نے کہا۔

”نہیں یار یہ نام تو دس سال پہلے ہوا کرتا تھا۔ اب یہ عورتوں والا نام ختم کر کے اس علاقے کا مردانہ نام رکھا گیا ہے۔ یہ محمد بن قاسم بازار ہے۔ جن شہروں کے ناموں میں نسوانیت کا کوئی پہلو نظر آتا تھا انہیں بھی تبدیل کر دیا گیا ہے جیسے پنڈی کو اب پنڈا اور پتوکی کو پتو کا کہتے ہیں۔“ شیخ نے بتایا۔

مزید پڑھنے کےک لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2