کیا آپ جانتے کہ آپ کے سارے رشتے عارضی ہیں؟


دنیا میں نجانے کتنے مرد اور عورتیں ایسے ہیں جن کے جب محبت بھرے رشتے ٹوٹ گئے اور پیار بھرے خواب چکناچور ہو گئے تو وہ ایک نفسیاتی بحران کا شکار ہو گئے۔ ان کی نگاہوں میں جن رشتوں کو پائیدار ہونا چاہیے تھا وہ عارضی نکلے۔ میرا ایک شعر ہے

کبھی ہر عارضی کو دائمی میں سمجھا کرتا تھا
اور اب ہر دائمی کو عارضی محسوس کرتا ہوں

مجھے زندگی کی یہ تلخ حقیقت جاننے، سمجھنے اور قبول کرنے میں بیس سال لگے کہ سارے انسانی رشتے عارضی ہیں۔ میں نے جب اس موضوع پر سنجیدگی سے غور کیا تو میں اس نتیجے پر پہنچا کہ ہم اپنے عزیز دوستوں، رشتہ داروں، رفقا کار اور خاص طور پر رفقا حیات کو تین طریقوں سے کھو دیتے ہیں۔ میں نے ان تین طریقوں کو 3 D کا نام دیا ہے

1۔ DEATH
اگر میاں بیوی ایک دوسرے سے زندگی بھر وفا کرنے کا وعدہ بھی کر لیں تو پھر بھی ان میں سے ایک کے ساتھ زندگی پہلے بے وفائی کرتی ہے اور دوسرا تنہا رہ جاتا ہے

آج کل میرے کلینک میں ایک ٹرینیداد کی 83 سالہ سیاہ فام بزرگ خاتون انجیلا اپنا نفسیاتی علاج کروانے آتی ہیں۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ ساٹھ برس کی محبت بھری شادی کے بعد ایک رات ان کے محبوب شوہر راہیِ ملکِ عدم ہو گئے اور انہیں اس بھری دنیا میں اکیلا چھوڑ گئے۔ انجیلا کے چار جوان بچے ہیں جو شادی شدہ ہیں اور اپنے بچوں کے ساتھ رہتے ہیں۔ انجیلا نے مجھے بتایا کہ اگرچہ وہ اب بھی گاڑی چلاتی ہیں اور شاپنگ کے لیے جاتی ہیں لیکن رات کو اکیلے رہنا اور خاص طور پر اکیلے سونا ان کے لیے سوہانِ روح ہے۔ انہیں احساسِ تنہائی کاٹنے کو دوڑتا ہے۔

میں نے انجیلا کے چاروں بچوں کو اپنے کلینک بلایا اور انہیں مشورہ دیا کہ ان میں سے ایک یا خود اپنی والدہ کے پاس جائے یا انہیں اپنے گھر بلائے۔ بچوں نے باری باری یہ ذمہ داری قبول کی اور اب انجیلا پہلے سے کافی بہتر محسوس کرتی ہیں۔

2۔ DIVORCE
دنیا میں نجانے کتنے لوگ ایسے ہیں جو طلاق کی وجہ سے اکیلے رہ جاتے ہیں اور جن رشتوں پر انہیں ناز تھا وہ ٹوٹ جاتے ہیں۔ میری ایک غزل کے چند اشعار ہیں

زندگی ہے عارضی اس کا یقیں آتا نہیں
عارضی ہے پیار بھی اس کا یقیں آتا نہیں

جن نگاہوں میں ہوا کرتی تھی ہر سو روشنی
ان میں اب اک تیرگی اس کا یقیں آتا نہیں

جس تعلق پر ہمیں حد سے زیادہ ناز تھا
اس پہ اب شرمندگی اس کا یقیں آتا نہیں

عشق میں قربان سب کچھ کر دیا پھر بھی سہیل
رہ گئی تھی کچھ کمی اس کا یقیں آتا ہنہیں

جب ہم مختلف مذاہب کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ بعض روایتوں اور ثقافتوں میں طلاق جائز ہے اور بعض میں ناجائز۔ کیتھولک چرچ میں طلاق کی اجازت نہیں۔

میں نے ایک ٹی وی پروگرام میں ایک ایسے کیتھولک پادری کا انٹرویو سنا جو طلاق کے حق میں تھا۔ میزبان نے پوچھا کہ ”اگر کیتھولک چرچ طلاق کی اجازت نہیں دیتی تو آپ کیسے طلاق کے حق میں ہیں؟“ پادری نے کہا کہ ”میاں بیوی وعدہ کرتے ہیں کہ وہ موت تک ایک دوسرے کے ساتھ رہیں گے تو اس کا مطلب جسمانی موت ہی نہیں محبت کی موت بھی ہو سکتا ہے۔ جب کسی رشتے اور کسی شادی میں محبت ہی نہ رہے تو بہتر یہی ہے کہ میاں بیوی جدا ہو جائیں اور کسی ایسے شریکِ حیات کے ساتھ رہیں جن سے وہ محبت کرتے ہوں۔ بغیر محبت کے کسی کے ساتھ رہنا اور خاص طور پر سونا جہنم سے کم نہیں۔“

چنانچہ جسمانی موت کے ساتھ ساتھ محبت کی موت بھی کسی انسانی رشتے کو عارضی بنا سکتی ہے۔

3۔ DEMENTIA

میں نے ایسے جوڑے بھی دیکھے ہیں جن میں ڈیمنشیا نے میاں بیوی کو جدا کر دیا۔ میرا ایک مریض ڈیمنشیا کا مریض تھا۔ اس کی محبت کرنے والی بیوی ہر شام اس سے ملنے آتی تھی لیکن وہ جب بھی اس سے گلے ملنے کے لیے آگے بڑھتی تھی وہ اسے دھکا دے کر دور کر دیتا تھا۔ جب وہ روتے ہوئے اس سے وجہ پوچھتی تو وہ کہتا کہ ”میں ایک شادی شدہ انسان ہوں اور میری بیوی گھر میں میرا انتطار کر رہی ہے۔“ ڈیمنشیا کی وجہ سے وہ اپنی بیوی کو بھی نہ پہچانتا تھا۔

میرے لیے وہ منظر ایک تکلیف دہ منظر ہوتا تھا لیکن اس منظر سے بھی زیادہ تکلیف دہ منظر وہ تھا جب ٹورانٹو کی ایک ادبی محفل میں میرے جوانی کے ایک عزیز شاعر دوست، جو ڈیپریشن اور ڈیمنشیا سے متاثر ہیں، مجھ سے چند فٹ کے فاصلے پر ایک مشترکہ دوست سے پوچھ رہے تھے ”مجھے ڈاکٹر سہیل بہت پسند تھے۔ وہ آج کل کہاں ہوتے ہیں؟“ میں اس سوال پر اپنے آنسو نہ روک سکا اور بہت دکھی ہو گیا۔ مجھے اس دن اندازہ ہوا کہ میں نے جیتے جی ایک مہربان دوست کھو دیا ہے۔

چاہے وہ ڈیتھ ہو ڈیوورس ہو یا ڈیمنشیا یہ سب انسانی رشتوں کو عارضی بناتے ہیں۔

سچی بات یہ ہے کہ ہم سب اکیلے پیدا ہوتے ہیں اور اکیلے ہی اس دنیا سے رخصت ہوتے ہیں۔ زندگی کے ہر موڑ پر ہمیں چند ہمسفر ملتے ہیں جو کسی اور موڑ پر جدا ہو جاتے ہیں۔ جب ہم زندگی کی اس تلخ حقیقت کو قبول کر لیتے ہیں کہ سب انسانی رشتے عارضی ہیں تو ہمارے لیے اپنے دوستوں اور محبوبوں کے ساتھ وقت گزارنا ایک نئی اہمیت کا حامل بن جاتا ہے۔ پھر ہم اپنے رشتوں کا بہتر خیال رکھتے ہیں کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ وہ عارضی ہیں۔ اسی لیے میں نے ایک شعر لکھا تھا

آج کل رشتوں کا یہ عالم ہے
جو بھی نبھ جائے بھلا لگتا ہے

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 681 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail

1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments