احتساب کے لمبے ہاتھ، بے بس جمہوریت اور بدستور قیدی نواز شریف


احتساب بیورو نے پیپلز پارٹی کے رہنما اور سابق اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کو آمدنی سے زیادہ وسائل رکھنے کے الزام میں گرفتار کرلیا ہے۔ بے شمار وسائل اور مہارت کے ساتھ کرپشن کے خاتمہ کے لئے کام کرنے والا ادارہ نیب جب کسی خاص معاملہ میں ثبوت سامنے لانے اور کرپشن کا براہ راست الزام عائد کرنے کی بجائے، آمدنی سے زیادہ وسائل کا حربہ استعمال کرتا ہے۔ اس کا سادہ سا مطلب یہی ہو تا ہے کہ نیب کے پاس مطلوبہ شخص کو حراست میں لینے کا کوئی جواز اور ثبوت تو نہیں ہے لیکن اسے بہر حال گرفتار کرنا ضروری تھا۔ پیپلز پارٹی کے چئیر مین بلاول بھٹو زرداری، خورشید شاہ کی گرفتاری کو اگر سیاسی انجینئرنگ کا شاخسانہ سمجھتے ہیں تو ان کی بات کو محض سیاسی بیان سمجھ کر مسترد نہیں کیا جاسکتا۔ اس صورت حال پر ملک کے چیف جسٹس بھی نئے عدالتی سال کے آغاز پر تشویش کا اظہار کرچکے ہیں۔

آج ہی اسلام آباد ہائی کورٹ کے دو رکنی بنچ نے بالآخر نواز شریف کو العزیزیہ ریفرنس میں ملنے والی سزا کے خلاف اپیل کی سماعت شروع کی۔ اور آئیندہ سماعت مزید تین ہفتے تک ملتوی کردی گئی۔ بنچ نے اس بات کو تو یقینی بنایا ہے کہ اس مقدمہ میں سزا دینے والے جج ارشد ملک کا ویڈیو اسکینڈل سامنے آنے کے بعد جاری ہونے والی پریس ریلیز اور بعد ازاں اسلام آباد ہائی کورٹ میں جمع کروائے گئے بیان حلفی کو مقدمہ کی دستاویزات میں شامل کرلیا جائے لیکن فاضل ججوں کو یہ غور کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی کہ سپریم کورٹ میں بے وقعت ہونے والے ایک جج کے فیصلہ کے میرٹ پر غور کرنے یا اس کے خلاف اپیل پر دلائل سننے اور شواہد کا جائزہ لینے سے پہلے، اس بات پر غور کرتے ہوئے فیصلہ صادر کیا جائے کہ کیا ایک ناقابل اعتبار، مشکوک کردار کے مالک، اور اپنے ہی بیان میں جھوٹا ثابت ہونے والے جج کا کوئی فیصلہ اس قابل سمجھا جاسکتا ہے کہ اس کی پاداش میں تین بار ملک کا وزیر اعظم رہنے والے شخص کو بدستور قید رکھا جائے۔

نیب کے علاوہ جب عدالتیں بھی کسی معاملہ کو اصولی بنیاد پر پرکھنے اور بنیادی قانونی تقاضوں کے مطابق فیصلہ کرنے کا حوصلہ نہیں کرتیں تب ہی ملک میں ’ڈیل‘ اور مقید لیڈروں کے ساتھ معاملات طے کرنے کی کوششوں کے بارے میں خبریں بھی عام ہوتی ہیں اور ان پر طویل تبصرے کرتے ہوئے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ حکومتی معاملات سے مایوسی اس قدر بڑھ چکی ہے کہ اب موجودہ انتظام کو تبدیل کرنا ضروری ہوچکا ہے۔ اسی لئے کبھی شہباز شریف کے سر پر ہما بیٹھا دکھائی دیتا ہے اور کبھی نواز شریف یا آصف زرداری سے کسی ڈیل کی باتیں ہر جانب سنائی دیتی ہیں۔

اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے سیاسی لیڈروں کی مسلسل گرفتاریاں اور عدالتوں سے انہیں ریلیف ملنے کی غیر اطمینان بخش صورت حال، ملک میں سیاسی انجینئرنگ کے تاثر کو قوی کرنے کا سبب بن رہی ہیں۔ آج لاہور کی ایک اصتساب عدالت میں گزشتہ 43 روز سے نیب کی حراست میں موجود مریم نواز کے ریمانڈ میں مزید توسیع کردی گئی۔ حالانکہ مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر نے آج عدالت میں ہی یہ کہا تھا کہ اس دوران نیب کے تفتیش کاروں نے ان سے کرپشن کے بارے میں ایک سوال بھی نہیں کیا۔ تاہم ایک مجبو رمحض کے طور پر ریمانڈ میں توسیع کرنے والے جج کو یہ سوال کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی کہ اگر کرپشن کے بارے میں پوچھ گچھ نہیں کرنی تو مریم نواز یا دیگر لوگوں کو کس مقصد سے زیر حراست رکھا گیا ہے؟

پشاور ہائی کورٹ نے آج تقریباً چار ماہ سے زیر حراست پشتون تحفظ موومنٹ کے دو ارکان قومی اسمبلی محسن داوڑ اور علی وزیر کی ضمانت منظور کی ہے۔ انہیں 26 مئی کو خڑ قمر چیک پوسٹ پر حملہ کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ اس دوران قومی اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر تواتر سے قومی اسمبلی کے ان دو اراکین کا پروڈکشن آرڈر جاری کرنے سے انکار کرتے رہے ہیں۔ اگر پشاور ہائی کورٹ نے ان دونوں اراکین اسمبلی کی ضمانت کسی قانونی جواز کے بغیر منظور کی ہے تو اس قومی سلامتی کا کیا بنے گا جس کی آڑ لے کر ان دو پشتون لیڈروں کے ساتھ خطرناک دہشت گردوں کا سلوک روا رکھا گیا تھا۔ اور اگر پشاور ہائی کورٹ کے سامنے استغاثہ کوئی مناسب ثبوت اور شواہد پیش کرنے میں کامیاب نہیں ہؤا تو اس سوال کا جواب کون دے گا کہ دو معزز ارکان اسمبلی کو چار ماہ تک کیوں بلاجواز قید رکھا گیا۔

ملک کا نظام اگر قومی اسمبلی کے منتخب ارکان کے ساتھ یہ سلوک روا رکھ سکتا ہے تو عام شہریوں کا کیا ہوگا۔ یہ شہری کبھی ایک ہندو طالبہ کے قتل پر انصاف مانگتے ہیں، تو کبھی توہین مذہب کی زد پر آئے ہوئے ایک ریٹائرڈ ہندو پروفیسر کی زندگی بھر کی عزت کو خاک میں ملانے پر حیران ہوتے ہیں یا قصور میں معصوم بچوں کی ہلاکتوں پر احتجاج کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ پاکستان میں انصاف ایک مسلمہ طریقہ کیوں نہیں بن پاتا ؟ اس کے لئے یا تو سیاسی مداخلت درکار ہوتی ہے یا سڑکوں پر توڑ پھوڑ کرنا پڑتی ہے۔

جمہوری نظام کی صحت کے بارے میں بھی یہی سوال سامنے آتا ہے۔ کون لوگ ہیں جو جیلوں میں بند لیڈروں کی مدد حاصل کرنا چاہتے ہیں اور کیا وجہ ہے کہ عدالتوں کو جزو معطل بنانے اور منتخب حکومت کو بے اختیار ثابت کرنے والی خبریں روز مرہ گفتگو کا حصہ بن چکی ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ نواز شریف کسی ڈیل پر راضی نہیں ہوتے بلکہ ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ وہ ملک سے باہر جانے کی بجائے ملک میں عام انتخابات کا مطالبہ کررہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ نواز شریف کی مدد کے بدلے میں کی جانے والی پیش کش، کس اختیار کے تحت کی جارہی ہے؟ بظاہر تو نواز شریف ہوں یا زرداری، مریم ہوں یا خورشید شاہ، ان کے معاملات نیب اور عدالتوں کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں۔

کیا یہ خبریں اس حقیقت کا اعلان نہیں کہ ملک میں حکومت، پارلیمنٹ اور عدالتوں کے علاوہ بھی کوئی ایسی ’سپر پاور ‘ موجود ہے جو کسی جادؤی چھڑی کی مدد سے چھو منتر کہہ کر معاملات کی ترتیب بدلنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ پھر نہ جمہوریت کو نقصان پہنچتا ہے اور نہ انصاف یا عدالتی وقار پر حرف آتا ہے۔ بلکہ وسیع تر قومی مفاد میں ایک درمیانی راستہ تلاش کرنے پر ان عناصر کو عوام دوستی کا خطاب بھی دیا جاسکتا ہے۔ ایسی ہی عوام دوستی ملک کو دھکیلتی ہوئی ایک ایسے مقام تک لے آئی ہے جہاں نہ عوام کو حکومت پر اعتبار ہے اور نہ حکومت کو پارلیمنٹ پر، نہ عدالتوں کے جج آزاد ہیں اور نہ میڈیا کی خبریں سچائی کا مظہر۔ بلکہ ایک اندھیرا ہے جس نے پورے ماحول کو اپنی لپیٹ میں لیا ہؤا ہے۔ کوئی نہیں جان سکتا کہ کون کس کا ہاتھ پکڑ کر کیا کام کروانا چاہتا ہے اور اس کا کیا فائدہ حاصل ہوگا۔

عمران خان اور صدر مملکت کے الفاظ میں ملک کا آزاد ترین میڈیا چونکہ اس قسم کی ’افواہ سازی‘ اور اسے پھیلانے کا موجب بنتا ہے، شاید اسی لئے اب حکومت نے ایسے ٹریبونل اور عدالتیں قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو منہ زور صحافیوں سے شہریوں (اسے حکومت سے تعلق رکھنے والے پاک دامن شہری پڑھا جائے) کی عزت بچانے کے لئے فوری طور سے حرکت میں آکر ’انصاف‘ فراہم کریں گی تاکہ ملک میں ’فیک نیوز‘ کا خاتمہ ہوسکے۔ اگر ہیومن رائٹس کمیشن اور جہاں دیدہ صحافی اس رائے سے متفق نہیں ہیں تو انصاف کا پرچم لہراتی اور نئے پاکستان کی بنیاد مضبوط کرنے والی قیادت کو اس کی پرواہ بھی نہیں ہے۔ یہ سارے ادارے بھی تو پرانے پاکستان کے کرم خوردہ نظام کی باقیات ہیں۔

کہتے ہیں کہ عمران خان کسی ڈیل پر تیار نہیں ہیں۔ وہ اپنے سیاسی حریفوں کو کسی قیمت پر ایک نیا موقع نہیں دینا چاہتے۔ عوام کی رائے ذرا مختلف ہے۔ سندھ میں پیپلز پارٹی اور پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی مقبولیت اس کا طاقتور اشارہ ہے۔ تاہم مقبولیت کا وہی اظہاریہ قابل قبول ہو سکتا ہے جو انتخابات کے ذریعے سامنے آئے۔ شاید اسی لئے مولانا فضل الرحمان حکومت گرانے کے ارادے سے اسلام آباد کی طرف بڑھنا چاہتے ہیں۔ ایک اندیشہ یہ بھی ہے کہ اس ہنگامہ آرائی میں بیچاری جمہوریت بی ہی پردے میں نہ بٹھا دی جائیں۔ مولانا سمیت حکومت کے سب مخالفین کو یہ باور کرنا چاہئے کہ اسلام آباد میں چہرے بدلنے سے حالات تبدیل نہیں ہوں گے۔ اس کے لئے لیڈروں کو اپنے طریقے اور رویے بدلنا ہوں گے۔

مسلم لیگ (ن) ہو یاپیپلز پارٹی یا کوئی دوسری پارٹی، انہیں قومی مقاصد میں حکومت کے ہاتھ مضبوط کرنے چاہئیں اور عوام دشمن پالیسیوں پر حرف زنی کرنی چاہئے۔ البتہ یہ تب ہی ہو سکتا ہے جب حکومت بھی ملک کے منتخب ایوان کو قبول اور ناقابل قبول کے خانوں میں بانٹنے کی بجائے، اسے عوام کے نمائیندوں کا مقتدر پلیٹ فارم تسلیم کرنے پر آمادہ ہو۔ جب تک یہ مزاج عام نہیں ہوگا، نئے پاکستان کا خواب نعرہ ہی رہے گا جسے آج تحریک انصاف بلند کررہی ہے، اور کل کو یہ کسی دوسرے کے لبوں سے ادا ہونے لگے گا۔

نظام کو چلانا ہے تو پارلیمنٹ اپنا کام کرے اور عدالتوں کو ان کا کام کرنے دیا جائے۔ کرپشن کا حساب لینے کے لئے ایسا نظام ہو جس کی پکڑ میں صرف سیاسی مخالفین کی گردنیں نہ آتی ہوں۔ درپردہ معاملات طے کرنے کی روایت کو دفن کئے بغیر آگے بڑھنے کا راستہ مسدود ہی رہے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2742 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali