گریگوری راسپوتن: برگزیدہ ہستی یا جنسی درندہ اور ڈھونگی؟


راسپوتن پر کچھ کم فلمیں نہیں بنیں، اس کے بارے میں کئی کتابیں تحریر کی جا چکی ہیں لیکن اس کی شخصیت آج بھی لوگوں کی توجہ مبذول کرا لیتی ہے۔ راسپوتن کی زندگی کے تاریک پرتو کا راز کیا ہے؟

کچھ اسے تمام قبیح ترین گناہوں میں لتھڑا ہوا بتاتے ہیں، دوسرے تقریباً برگزیدہ خیال کرتے ہیں۔ ایک معمولی دیہاتی، جو روس کے آخری زار کے کنبے کا دوست بن گیا تھا، کچھ کم رازوں کا امین نہیں تھا۔ اس بارے میں تو معلوم نہیں ہے کہ راسپوتن کی پیدائش کب ہوئی تھی، ان کے سینٹ پیٹرزبرگ میں نمودار ہونے سے پہلے تک کے، ان کی سوانح حیات کے کئی صفحات یکسر کورے ہیں اور ان کی ہیبتناک موت سے متعلق اب تک کہانیاں ہی کہانیاں ہیں۔

مستقبل میں زار کی پسندیدہ شخصیت بن جانے والا یہ شخص سائیبیریا کی بستی پوکرووسک میں اس دنیا میں آیا تھا۔ اس بستی میں رہنے والوں کی یادوں کے مطابق نوجوان گریگ ”آوارہ انسان“ تھا۔ بہت شراب پیا کرتا تھا، مارپیٹ کرتا تھا اور چوریاں کیا کرتا تھا۔ اسی طرح کی ایک چوری کرتے ہوئے لوگوں نے اسے بہت بری طرح پیٹا تھا، بس یوں سمجھیے کہ وہ مرتے مرتے بچا تھا۔ اس کے بعد راسپوتن بالکل ہی بدل گیا تھا۔ گریگوری مذہبی ہو گیا تھا۔

اپنی بستی سے ہزاروں میل کی مسافتوں پہ موجود راہب گاہوں کی زیارت کرنے پیادہ پا گیا تھا۔ گریگوری پر لگتا تھا پیش بینی کا در وا ہو گیا تھا۔ ایسا فی الواقعی تھا یا راسپوتن اچھی اداکاری کیا کرتا تھا، رب جانے لیکن حیران کن گریگوری اور اس کے معجزوں کی افواہیں پیٹرزبرگ تک ضرور پہنچ گئی تھیں۔ 1904 میں راسپوتن کو دارالحکومت کی اشرافیہ کے گھروں میں دیکھا جانے لگا تھا اور جلد ہی اسے زار کے کنبے تک پہنچا دیا گیا تھا۔

جس کو بھی راسپوتن سے بات کرنے کا موقع ملا تھا وہ لوگوں کو لبھا لینے والی اس کی صفت کے معترف تھے۔ ایسے لگتا تھا جیسے اس سائیبیریائی دیہاتی کو میسمرزم کا فن آتا تھا۔ پہلی ہی ملاقات میں راسپوتن کا جادو زار کے کنبے کے سر چڑھ کر بولنے لگا تھا۔ روس میں فرانس کے سفیر موریس پالیولوگ نے لکھا تھا: ”اس نے انہیں اندھا کر دیا ہے، جکڑ رکھا ہے۔ یہ کسی حد تک سحر لگتا ہے۔“ سحر کے علاوہ زار اور زارینا پر راسپوتن کے اثر کی ایک اور وجہ بھی تھی۔

اس نے ان کے بیٹے اور تخت کے وارث الیکسی کا علاج کیا تھا۔ کمسن شہزادہ ہیمو فیلیا کی مرض کا شکار تھا۔ ایک معمولی سی خراش بھی مہلک جریان خون کا باعث بن سکتی تھی۔ ڈاکٹر اس سلسلے میں بے بس تھے لیکن ”بزرگ“ نے کسی طرح اسے جریان خون سے چھٹکارہ دلوا دیا تھا۔ ”جب تک میں زندہ ہوں، تخت کا وارث جیتا رہے گا“ راسپوتن نے زار کے کنبے کے سامنے کہا تھا اور پھر اضافہ کرتے ہوئے گویا ہوا تھا: ”میری موت آپ لوگوں کی موت بن جائے گی۔“

شاہی محل پر نیم خواندہ دیہاتی کے اثر ورسوخ کی داستان گھرگھر گونج رہی تھی۔ راسپوتین کاروباری سودوں کی خاطر ”لابنگ“ کرنے کے لیے یا افسروں کو ان کی من چاہی ملازمتیں دلوائے جانے کی خاطر رشوت لیا کرتا تھا۔ زار کے سر چڑھے شخص کو انکار کرنے کی جرات بھی کوئی نہیں کرتا تھا۔ گریگوری ایک بھرپور زندگی بسر کیا کرتا تھا۔ اس کے حواریوں کی شراب کے ننشے میں دھت ہو کر سوسائٹی کے اعلٰی حلقوں کی خواتین کے ساتھ کی جانے والی بدمستیوں اور اجتماعی نفس رانیوں کے قصے پورے پیٹرزبرگ میں مشہور تھے۔ ایسی گندی افواہیں بھی پھیل چکی تھیں کہ اس ”بزرگ“ کے زارینا اور ان کی بیٹیوں کے ساتھ ناجائز تعلقات بن چکے تھے۔ حاکم خاندان کی گرفت بے حد کمزور پڑتی چلی جا رہی تھی۔

گریگوری معاملات حکمرانی میں بھرپور مداخلت کیا کرتا تھا۔ نکولائی دوم کو تصادمات میں شرکت سے روکا کرتا تھا۔ سوجھ بوجھ رکھنے والے اس دیہاتی کو محسوس ہو گیا تھا کہ ایسا کرنا بادشاہ کے حق میں اچھا نہیں ہوگا، جو درست ثابت ہوا تھا۔ روس نے جب بہر طور جنگ عظیم اول میں شرکت کر لی تھی تو راسپوتن نے زار کو قائل کر لیا تھا کہ وہ فوج کی کمان اپنے ہاتھ میں لے لیں لیکن کماندار کے طور پر نکولائی دوم انتہائی ناکام رہے تھے۔ جلد ہی راسپوتن کے خلاف نفرت کا طوفان اٹھ کھڑا ہوا تھا۔

زار کے خاندان کو اس شخص کے سحر سے آزاد کرنے کا فیصلہ کرکے کچھ انتہائی اعلٰی عہدیداروں نے راسپوتن کا کام تمام کرنے بارے طے کر لیا تھا۔ 17 دسمبر 1916 کی رات کو سازشیوں نے اسے شہزادہ فیلیکس یوسوپوو کے ہاں مدعو کیا تھا۔ گریگوری کو زہر آلود غذا اور شراب پیش کی گئی تھی لیکن نجانے کیوں زہر اپنا اثر ہی نہیں دکھا پا رہی تھی۔ تب یوسوپوو نے راسپوتن کی پیٹھ پہ گولی داغ دی تھی۔ ”بزرگ“ مردے کی طرح زمین پہ آ رہا تھا۔

ابھی سازشی لاش کو ٹھکانے لگانے کے بارے میں سوچ ہی رہے تھے کہ لاش میں یک لخت جان پڑ گئی تھی۔ ذخمی راسپوتن یوسوپوو کے پاؤں کو روندتا ہوا باہر نکل گیا تھا۔ سازشیوں نے اس پر پیچھے سے گولیاں چلا دی تھیں، گریگوری ایک بار پھر گر گیا تھا لیکن ابھی تک اس کی سانس چل رہی تھی۔ سازشیوں نے اس کی کھوپڑی توڑ ڈالی تھی اور پھر لاش کو دریا برد کر دیا تھا۔ ماہرین نے پوسٹ مارٹم رپورٹ میں لکھا تھا کہ زہر خورانی، گولیاں سہنے اور کھوپڑی توڑے جانے کے بعد بھی راسپوتن یخ پانی میں ڈبوئے جانے تک جیتا رہا تھا۔ کوئی ایسی قوت تھی جو اس کو ہماری دنیا میں قائم رکھنے کی کوشش کر رہی تھی۔

ساحر کی موت بادشاہ کو نہ بچا سکی تھی۔ دو ماہ بعد روس میں انقلاب آ گیا تھا۔ جلد ہی نکولائی دوم اور ان کے کنبے کو بالشویکوں نے گولیاں مار کر موت کی نیند سلا دیا تھا۔ یوں راسپوتن کی پیشین گوئی پوری ہو گئی تھی: ”میری موت آپ کی موت بن جائے گی۔“

مترجم : ڈاکٹر مجاہد مرزا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).