لڑکیوں کو بھی شرماتے ہوئے مرد اچھے لگتے ہیں


آپ ہرمن ہیسے اور گیبریلا مسترال کی زندگی میں الجھے ہوئے ہوں۔ ان کی زندگی سے ان کے تحریروں کی کھوج لگانے میں مگن ہوں۔ اور آمنہ مفتی، محمد حنیف کا کالم ”َمرد کا پردہ“ بی بی سی اردو سے شئیر کر دے۔ آپ کالم کا لنک اوپن کرنے کی کوشش کریں اور وہ آپ کی زنانہ بے حجابی سے شرما کر کھلے ہی نہیں اور جب کئی گھنٹوں کے بعد کھلے تو آپ اسے پڑھ کے ابھی داد کے الفاظ بھی تلاش نا کر سکیں ہو ں کہ عفت نوید کی تحریر ”دل بے حجاب عورتوں پرہی آتاہے“ آپ کی نگا ہو ں سے ٹکڑاجائے۔ اور آپ کو لگے آپ کا پردہ آپ کو لے ڈوبا۔

ملکی حالات اور سرحدی حالات آپ کو اندر سے دکھی کیے ہوئے ہوں۔ نومبر میں کنٹینر لائف کا آغاز ہو نے والا ہو۔ دوسری طرف اکتوبر کے آخر میں برف باری کاآغاز ہو نے والا ہو۔ آپ کے ذہین میں یہ چل رہا ہو کہ گبیریلا کا محبوب خود کشی کر لیتا ہے۔ اور اس کی یاد میں وہ ایسا ٹوٹ کر لکھتی ہے کہ نوبل اس کے سر کا تاج بن بھی جائے تو اس کی محرومی وتنہائی اپنی جگہ تاج محل ہے۔ اور ہرمن ہیسے کا مدرسے سے بھاگ جانا اپنی جگہ اک ان دیکھی آگ کی کتھا ہے۔ گیبریلا نے لکھا ہے کہ ”فن کارکا عوام سے ویسا ہی رشتہ ہوتا ہے جیسا کسی جسم کا روح سے“ ہائے تو اک روح تڑپی ہے۔

بات چل نکلی تھی مردانہ پردہ و اور زنانہ بے حجابی سے تو واللہ یہ جو محمد حنیف نے لکھا ناں کہ ”ان جیل لگے بالوں والو ں اوران سجے سنورے لڑکو ں کو دیکھ کر کیا عورت کی نیت میں خوش گواری نہیں آتی ہو گی؟“

تو جناب من و جان من زمانہ

سچی بات ہے کہ یہ سجے سنوارے، جیل لگے بالو ں والے تو میک اپ اور دولت سے گروم ہو چکے۔ ہمارے ہا ں تو چائے والے بھی ایسے ہیں کہ ان پہ بھی دل آسکتا ہے۔ اس لئے مرد پہ بھی پردہ لاز م ہونا چاہیے۔ تاکہ گندے مندے مردبھی اس میں چھپ جایئں اور پیارے پیارے مرد بھی اسی میں رہیں۔

تو یقین کریں بہت مزا آئے گا۔

لڑکی نے ابھی یہ لکھنا یا بتانا نہیں سیکھا کہ اس کو بھی مرد کے نشیب و فراز اسی طرح بھاتے ہیں جس طرح مرد کو ایک یا درجنوں عورتوں کے بھا تے ہیں۔ لڑکی کا دل بھی یو نہی مچل اٹھتا ہے جس طرح ایک مرد میں ہلچل ہو جاتی ہے۔ لڑکی کا دل بھی یو نہی اسے چھو لینے کو کرتا ہے جس طرح ایک مرد کا کرتا ہے۔ لڑکی کا دل بھی یو نہی اسے چاہنے کو کرتا ہے جیسے مرد کا کرتا ہے۔ لڑکی کے خوابوں میں بھی یو نہی فلمی ہیرو آتے جیسے ایک مرد کے خواب میں ٹین ایج میں فلمی ہیروئینز آتیں ہیں۔

اور تو اور اگر مرد کو ایک شرماتی لڑکی اچھی لگتی ہے ناں تو بخدا شرماتا ہوا مرد اس سے بھی زیادہ حسین لگتا ہے۔ اگر آپ نے کبھی یہ فطری نظارہ کیا ہو تو شاید سجھ سکیں کہ اس وقت اس لڑکی کا وہی حال ہوتا ہے جو ایک مرد کا شرماتی لڑکی کو یکھ کر ہو تا ہے۔

دونوں ایک نفس کی پیدا وار ہیں۔ دونوں مٹی سے بنے ہیں۔ دونوں کے تقاضے بھی ایک ہیں اوردوا بھی ایک ہے۔ دونوں کا دل ایک طرح دھڑکتا ہے اور ایک ہی طرح بند ہو جاتا ہے۔ اور دونوں جس خمیر سے بنائے جاتے ہیں اسی میں دفنائے جاتے ہیں۔

سرکار تو بات صرف اتنی سی ہے کہ پردہ ہماری نیت اور عمل کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ پردے میں چھپی لڑکی پہیلی جیسی لگتی ہے۔ جس کو بْوجھنے کی خواہش زیادہ ہو جاتی ہے۔ جس کو دیکھنے کی تمنا زیادہ ہو جاتی ہے۔ بھلے نتائج کھودا پہاڑنکلا چوہا کے مترادف ہو ں۔

مرد کی طرف عورت کی وہ کشش کیو ں نہیں ہے جو مرد عورت کو دے رہا ہے۔ اس لئے کہ وہ بے حجاب ہے۔ اپنی گفتار میں، اپنے کردار میں، اپنے لباس میں، معاشرے میں وہ ہرجگہ ہر رنگ میں مل جائے گا۔ اس لئے وہ اپنی فطری کشش کھو چکا ہے۔ اور نئے اطوار سے وہ یہ کشش مزید کھو رہا ہے۔

لہذا جس قسم کے یہ اقدامات کیے جا رہے ہیں ان کا حاصل عورت کی کشش کو مزید پْر کشش کرنا ہے۔ گویا پھر سے آپ چاہتے ہیں کہ گل ورخسار کی، الجھی زلفوں کی، شرمیلی جھیل کی، آنکھو ں کی، بیمار ذہنیت شاعری ہو نے لگے۔ اور مرد گلہ کرتے رہ جائیں کہ ہم نے عورت کے حسن پہ دیوان کے دیوان لکھ ڈالے اور اس ظالم نے ہماری مونچھ کے ایک بال کی بھی تعریف نہیں کی۔

تو لَوٹے، لنگوڑو، اْلووں پردہ کرو ظالمو، شرماؤ، لجھاؤ تاکہ تم ہمارے لئے کشش کا باعث بنو۔ اور ہم بھی تم پہ اپنے دیوان ضائع کریں۔ بھلے سرحدوں پہ جنگ ہو تی رہے اورہم کسی حاکم کے ”کن“ کا انتظار کرتے رہیں۔ بھلے دنیا چاند مریخ سے آگے کائنات تلاشتی رہے، بھلے ملکی معشیت سولی چڑھ جائے، بھلے صنعت و تجارت کا جنازہ اٹھ جائے، بھلے ملک تمہارے لئے گئے قرضوں کی شرائط کی بھینٹ چڑھ جائے۔چلو آؤ سب مل کر پردہ کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).