جب دہلی کی حفاظت ناگ کیا کرتے تھے


ہندی میں نر کوبرا کو ناگ اور مادہ کوبرا کو ناگن کہا جاتا ہے۔ ہندو مذہب میں پوجے جانے والے خداؤں کی تعداد کروڑوں میں ہے۔ بعض کتب میں ہندوؤں کے خداؤں کی تعداد ساڑھے تین کروڑ اور کچھ کتب میں ان کے خداؤں کی تعداد پانچ کروڑ رقم کی گئی ہے۔ ہندو جن لاتعداد خداؤں کو پوجتے ہیں ان میں بندر، پیپل، مور، گھڑیال، ہنس، طوطا، چوہا، انجیر، تلسی، ببول، گنگا ( دریائے گنگا ) ، گائے اور سانپ بھی شامل ہے۔

سانپ کو تو ہندومت میں دیوتا کہا جاتا ہے۔ سانپوں میں بھی کوبرا یعنی ناگ کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ پرانی ہندی تصانیف میں ناگ دیوتا اور ناگن دیوی کا ذکر ملتا ہے۔ کوبرا جن کی لمبائی اٹھارہ سے انیس فٹ تک ہوتی ہے اور یہ دنیا کے چند خطرناک اور زہریلے سانپوں میں شمار ہوتا ہے جنوب مشرقی ایشیاء خصوصاً ہندوستان کے جنگلوں میں بکثرت پایا جاتا ہے۔

تاریخی کتب میں درج روایات کے مطابق اگلے وقتوں میں دہلی کی حفاظت کوبرا سانپ کیا کرتے تھے۔ ترک منگولوں کے برلاس قبیلے کا جری، تیموری سلطنت کا بانی امیر تیمور نے، جسے تیمور لنگ کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے، جب ہندوستان پہ مہم جوئی کی اس کو عجب طرح کی مصیبت کا سامنا کرنا پڑا۔ جب امیر تیمور ہندوستان پہ حملہ آور ہوا اس وقت دہلی کے باہر جومبہ نامی قلعہ ہوا کرتا تھا۔ جومبہ شدھ سنسکرت میں سانپ کو کہتے ہیں۔

امیر تیمور جب جومبہ پہنچا تو قلعے کی فصیلوں پہ کھڑی نہتی عورتوں کو دیکھ کر اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی۔ امیر تیمور نے کچھ سپاہیوں کو قلعے کے گرد چکر لگانے اور اصل صورتحال معلوم کرنے بھیجا۔ سپاہیوں نے خبر دی قلعے کی اندر بھی عورتوں کی فوج ظفر موج ہی موجزن ہے اور قلعے کی دو دیواریں ہیں جن کے درمیان وسیع خندق ہے جو ان گنت کوبرا نسل کے زہریلے سانپوں سے اٹی پڑی ہیں۔

یہی کوبرا سانپ اصل میں دہلی کے محافظ تھے۔ اور قلعے کی فصیلوں پہ کھڑی عورتیں سپیرنیں تھی جنہوں نے یہ سانپ پالے تھے۔ جب بھی کوئی قلعہ پہ حملہ کرتا یہ سپیرنیں سانپوں کو اشارہ کرتیں، خاص طرح کی آوازیں نکالتیں، جس سے سانپ فوراً حملہ آور کا انتم سنسکار کردیتے۔ امیر تیمور کی فوج کو متعدد بار سانپوں کا سامنا رہا۔ دہلی میں اک رات تیموری فوج پہ سانپوں نے دھاوا بول دیا جس سے تیموری فوج کے ہزاروں سپاہی اور گھوڑے راہی ملک عدم ہو گئے۔

جنگ آزادی کے بعد جب فرنگی دہلی پہ قابض ہوئے تو یہ کوبرا سانپ ان کے لیے بھی سوہان روح بن گئے۔ ہندو چونکہ سانپ کو دیوتا اور اوتار مانتے تھے اس لئے وہ سانپوں کو مارنے کی بجائے ان کی سیوا کرتے تھے۔ اسی لیے دہلی کا اطراف سانپ نگر بن گیا تھا۔ آئے روز سانپوں کے ہاتھوں فرنگی فوجیوں کی اموات سے تنگ انگریز سرکار نے دہلی میں ”سانپ مارو انعام پاؤ“ سکیم کا آغاز کردیا۔ مہم چل نکلی دہلی کے لوگ سانپ پالنے اور مارنے میں طاق مشاق تھے۔

چند دنوں میں سانپ مارنا منافع بخش پیشہ بن گیا۔ نوبت بہ ایں جا رسید کئی لوگ دوسرے کام کاج چھوڑ کر سانپ ماری پہ اتر آئے۔ لوگ مرے ہوئے سانپ کی باقیات ڈنڈے پہ لٹکاتے اور اسسٹنٹ کمشنر کے دفتر کے سامنے کھڑے ہوجاتے۔ اسسٹنٹ کمشنر کا ہرکارہ سانپوں کی لاشیں گن کر نقد انعام اور داد سے نوازتا۔ روز بروز سانپوں کی تعداد کم سے کم ہوتی گئی۔ اک وقت وہ بھی آیا جب ہزاروں لوگ سانپوں کی تلاش میں لاٹھیاں لیے مارے مارے پھرتے۔

ضرورت ایجاد کی ماں ہے۔ پھر لوگوں نے گھروں میں سانپ پالنے شروع کردیے۔ جب سانپ کی لمبائی مقررہ حد تک پہنچتی لوگ پالتو سانپ کو مار کر مطلوبہ مقام پر پہنچ جاتے۔ گرتی ہوئی سانپ مار مہم پھر سے مہمیز ہونے لگی۔ بات آخر کب تک چھپتی لوگ گھر پہ سانپ پال کر مار رہے ہیں بات انگریز سرکار تک بھی پہنچ گئی۔ وائسرائے نے بیٹھک کی اور منادی کروا دی کل سے سانپ مارنے پہ انعام ختم۔ یہ منادی دہلی کے قرب و جوار تک پہنچ گئی۔

اس وقت سانپ مارنے اور پالنے والوں کے پاس ہزاروں کی تعداد میں سانپ تھے۔ بے بسی کے عالم میں لوگوں نے وہ سارے سانپ کھلے چھوڑ دیے جو دہلی کے قرب و جوار میں پھیل گئے۔ یہ سانپوں کی افزائش کے دن تھے ( جولائی سے اگست سانپ کی نسل کشی کے دن ہوتے ہیں )۔ سانپوں نے انڈے بچے دینے شروع کردیے۔ کچھ عرصہ میں دہلی میں انسان کم اور سانپ زیادہ ہوگئے۔ انگریز سرکار کے اندازوں قیافوں کے مطابق سانپوں کی موجودہ تعداد سانپ مار مہم سے پہلے کے سانپوں سے کئی گنا زیادہ تھی۔ اس سے اک نئی اصطلاح معرض وجود میں آئی جسے ”کوبرا ایفیکٹ“ کہا جانے لگا۔

جب اک مصیبت کو ختم کرتے ہوئے دوسری برائی، دوسری مصیبت ظہور پذیر ہوجائے، جنم لے لے۔ بیٹھتا ہوں تو درد اٹھتا ہے، درد اٹھتا ہے، بیٹھ جاتا ہوں۔ یہی پاکستان کی پون صدی کا قصہ ہے۔ سیاستدانوں کی کرپشن ختم کرنے کے لیے ڈنڈا آجاتا ہے۔ ڈنڈے کو پرے کرتے ہیں تو کرپٹ سیاستدان آجاتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).