فضل الرحمن کے دھرنا کا نتیجہ نواز شریف کی ڈیل سے جڑا ہے


مولانا فضل الرحمن صاحب حکومت سے نجات کی خاطر لاک ڈاؤن کے اعلان پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ بلاشبہ مولانا صاحب بے پناہ اسٹریٹ پاور کے حامل ہیں اور وہ حکومت کو ٹف ٹائم دینے کی پوزیشن میں ہیں لیکن پھر بھی انہیں اپوزیشن کی دیگر بڑی جماعتوں کی حمایت میسر نہ ہوئی تو ان کے لیے اپنی توقع کے مطابق نتائج حاصل کرنا دشوار ہو سکتا ہے۔ تادم تحریر ن لیگی رہنماؤں کی اکثریت اس مہم جوئی میں پڑنے پر دل سے راضی نہیں۔ لیکن سنا ہے کہ نواز شریف نے مولانا کے احتجاج میں شرکت کے لیے اپنی جماعت کو ہدایت کر دی ہے۔

جبکہ اپوزیشن کی دوسری بڑی جماعت پیپلز پارٹی ایک بار پھر اپنے ”دیرینہ اور اصولی موقف“ کو بنیاد بنا کر فاصلے پر کھڑی ہے۔ معذرت کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کئی بار زخم کھانے کے باوجود پیپلز پارٹی کا عمل کہانی میں بیان کردہ اس کردار جیسا ہے جس میں ایک کتا ہمہ وقت اونٹ کے ساتھ ساتھ چلتا ہے۔ کسی نے اس غیر فطری تعلق کو دیکھ کر کتے سے اس کا سبب پوچھا تو اس نے وجہ بتائی۔ تم دیکھ نہیں رہے کہ اونٹ کا نچلا ہونٹ بری طرح ہل رہا ہے۔ کسی بھی لمحے یہ گر جائے گا اور پھر لازماً مجھے ہی کھانے کو ملے گا۔

اسی آس پر سینیٹ انتخابات سے قبل پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت بلوچستان میں مسلم لیگ کی صوبائی حکومت گرانے کے لئے شرمناک غیر اخلاقی اور غیر جمہوری ہتھکنڈے استعمال کرنے میں پوری طرح شریک رہی۔ اس وقت سب اصول اور نظریے فراموش کر دیے گئے۔ مقصد کیونکہ صرف یہ تھا سینیٹ میں مسلم لیگ ن کی اکثریت کو کسی بھی طرح روکا جا سکے۔ یہ مقصد کماحقہ پورا ہوگیا، چلیں پیپلز پارٹی سے اس کی شکایت نہیں کہ سیاست کے کھیل کا طریقہ یہی رائج ہے۔

اس کے بعد بھی مگر اسے پیشکش ہوئی کہ چیئرمین سینیٹ کے لئے وہ رضا ربانی جیسے کسی غیر متازع اور جمہوریت پسند شخص کو نامزد کر دے۔ لیکن اپنی ہی جماعت کے کسی با وقار شخص کو اس اہم عہدے پر نامزد کرنے کے بجائے پیپلز پارٹی نے ایک غیر معروف شخص کو ایوان بالا کی سربراہی جیسے منصب پر بٹھا کر رہتی دنیا تک شرمندگی کا داغ اپنے دامن پر لگانا قبول کرلیا۔

پھر مرحلہ آیا عام انتخابات اور اس کے بعد حکومت سازی کا۔ ان انتخابات سے متعلق موجودہ تمام اپوزیشن جماعتوں کو شکایات تھیں اور اس میں پیپلز پارٹی بھی ایک فریق تھی۔ مقابلے کا فارمولا طے ہوا۔ اسپیکر شپ پی پی کو ملنا تھی۔ وزارت عظمی کا امیدوار ن لیگ سے جبکہ ڈپٹی اسپیکر ایم ایم اے سے ہونا قرار پایا۔ عین وقت پر جب وقت قیام آیا پی پی یہ بہانہ بنا کر لیٹ گئی کہ شہباز شریف جو ن لیگ کے امیدوار ہیں ماضی میں ہماری قیادت کے متعلق غیر مناسب زبان استعمال کر چکے ہیں لہذا انہیں ووٹ نہیں دیا جا سکتا۔

اس مثال سے پی پی قیادت کی اپوزیشن کے لئے سنجیدگی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اگر وہ عین وقت پر مینگنیاں نہ ڈالتی تو خورشید شاہ صاحب یقیناً اسپیکر منتخب ہو جاتے اور موجودہ اسپیکر کی نسبت ان کی شخصیت اس منصب کے لئے نہ صرف زیادہ موزوں تھی بلکہ آج اپوزیشن کو ایوان میں بے چارگی و بے بسی کا سامنا بھی نہ کرنا پڑتا۔ پیشگی اپوزیشن اتحاد کا بھانڈہ بیچ چوراہے پھوٹنے کا علم سب کو نہ ہوتا تو شاید وزیراعظم کے انتخاب کے نتائج بھی مختلف ہوتے۔

پھر صدارتی انتخاب کے موقع پر بھی جان بوجھ کر پیپلز پارٹی نے ایسا شخص یعنی اعتزاز احسن نامزد کیا جس کے متعلق ایک سو دس فیصد یقین تھا اس پر اپوزیشن ہرگز متفق نہیں ہو گی۔ پیپلز پارٹی کو اپنی قیادت کے خلاف نازیبا زبان استعمال کرنے کی وجہ سے خود کو سب سے بڑی برائی کہنے والے عمران خان کو وزیراعظم بننے کی سہولت فراہم کرنے کے بعد دیگر جماعتوں سے اپنی قیادت کی توہین کرنے والے شخص کی حمایت کی توقع رکھنی چاہیے تھی؟ سینیٹ چیئرمین کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے موقع پر جو واردات اپوزیشن اتحاد کے ساتھ گزری واقفان حال کے مطابق اس کے کھرے بھی پیپلز پارٹی قیادت سے ہی ملتے ہیں۔ لہٰذا اس ٹریک ریکارڈ اور گمنام مجبوریوں کو دیکھتے ہوئے مولانا صاحب کو پیپلز پارٹی سے کسی قسم کی توقع نہیں رکھنی چاہیے۔

مولانا صاحب کی مہم جوئی کے ممکنہ نتائج پر بحث کے ساتھ ایک بار پھر میاں صاحب کی ڈیل کی افواہیں بھی زیر گردش ہیں۔ اگرچہ ماضی کی روایات اور ملک میں رائج سیاسی طریقہ کار کو مد نظر رکھتے ہوئے اس متعلق حتمی طور پر کچھ کہنا نہایت مشکل ہے لیکن میرا ذاتی خیال ہے کہ جس قسم کی ڈیل کی خبریں ہیں میاں صاحب شاید اس پر راضی نہ ہوں۔ کیونکہ جس قسم کی ڈیل کی خبریں چل رہی ہیں، نواز شریف اور ان کی جماعت کو اس سے کچھ حاصل نہ ہو گا۔

ڈیل اگر ان کے لیے فائدہ مند ہو سکتی تھی تو اس کا بہترین وقت انتخابات سے پہلے تھا۔ یا پھر اس وقت جب انہیں سزا سنائی گئی اور وہ لندن میں اپنی شریک حیات کو بستر مرگ پر چھوڑ کر بیٹی کے ہمراہ وطن واپس آ رہے تھے۔ یہ بات اب راز نہیں رہی کہ لندن اور دبئی میں انہیں ملک واپس نہ آنے کے پیغام بھی پہنچائے گئے تھے۔ وہ تین بار اس ملک کے وزیراعظم رہ چکے ہیں، اب آخر کیا لالچ ہے جس کی خاطر انہیں ڈیل کرنی چاہیے؟ اس کا جواب اگر تو مریم نواز یا مسلم لیگ ن کا سیاسی مستقبل ہے تو یاد رہے ڈیل کے بعد ان کی سیاست اور عزت کا بالکل جنازہ نکل جائے گا۔ اب عوام میں شعور و آگہی سنہ 2000 کی نسبت بہت زیادہ ہے، سمجھوتے کی کوئی بھی کوشش گزرے برسوں میں ہونے والے میڈیا ٹرائل پر مہر تصدیق ثبت کر دے گی۔

چند باخبر لوگوں سے ہونے والی بات کی روشنی میں البتہ یہ ضرور کہہ سکتا ہوں کہ ڈیل کی پیشکش کی خبروں میں صداقت ہے۔ چند تجزیہ نگاروں کے نزدیک اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ ن لیگ کے رہنماؤں کے کیسز میں کوئی پیشرفت نہیں ہو رہی۔ چیئرمین نیب، جج ارشد ملک کی ویڈیو کے بعد احتسابی عمل کو پہنچنے والا نقصان بھی اس کی وجہ ہو سکتا ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ میاں صاحب سے استقامت کی توقع نہیں تھی۔ ثابت قدمی کے مظاہرے سے ان کی مقبولیت کا گراف دن بہ دن بلند ہو رہا ہے۔

سیاستدان کی مقبولیت ایسی چیز ہے جو ہمارے ہاں بعض حلقوں کو کسی صورت قبول نہیں۔ قرین قیاس بات مگر یہ ہے کہ عوام مہنگائی اور بیروزگاری کی دلدل میں گردن تک دھنسے ہیں اور حکومت مخالف جذبات عروج پر ہیں۔ معیشیت کی خراب حالت براہ راست ملکی سلامتی کے لیے خطرہ بنتی جا رہی ہے اور اس خرابی کی وجہ نا اہلی کے ساتھ بلا وجہ کی محاذ آرائی بھی ہے۔ ان حالات میں نواز شریف اگر مولانا کے شانہ بشانہ کھڑے ہوئے تو یہ صورتحال سیاسی بندوبست کے لیے خطرہ بھی بن سکتی ہے۔

نظام بچانا بہرحال لازم ہے اور حالات جس نہج پر پہنچ چکے ہیں اسے بچانا صرف ڈیل سے ہی ممکن ہو سکتا ہے۔ ایک تقریب سے خطاب میں چیف جسٹس صاحب کی باتوں سے بھی سوچ میں تبدیلی کا اشارہ ملتا ہے۔ مکرر عرض ہے مولانا اپنی افرادی قوت کے باوجود بغیر سیاسی و پارلیمانی حمایت کے موجودہ بندوبست کا بال بھی بیکا نہیں کر پائیں گے۔ ڈیل کی خواہش نواز شریف کو اس حمایت سے روکنے کی کوشش ہو سکتی ہے۔ مولانا اپنی جدوجہد سے کیا حاصل کر پائیں گے اس کا انصار ڈیل کی بیل منڈھے چڑھنے یا نا چڑھنے پر ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).