تیمور قیصر قسطنطنیہ کے دام میں نہ پھنستا تو پوری دنیا پر اسلام غالب ہوتا


تیمور خراسان و ایران میں اپنی حکومت کی بنیادیں مضبوط کرکے اور ترکمانوں کی گوشمالی سے فارغ ہو کر اور اپنے مقبوضات کو سلطان بایزید خان کے مقبوضات کی سرحد تک پہنچا کر ہندوستان پر حملہ آور ہوا تھا۔ قیصر قسطنطنیہ کو جو یورپ میں اپنی ریشہ دوانیوں اور عیسائیوں کی زور آزمائیوں کے نتائج جنگ کسووا اور جنگ نکوپولس میں دیکھ چکا تھا اب اپنی اس مجبوری اور ذلت کو دیکھ کر ایک مرتبہ پھر آمادہ کوشش ہوا۔ سلطان بایزید خان یلدرم جب یونان اور ایتھنز کو فتح کر چکا اور قیصر کا حال بہت ہی پتلا ہونے لگا تو اس نے فوراً ایک قاصد تیمور کی خدمت میں روانہ کیا اور اس کو ایک خط دیا جس میں لکھا تھا کہ:

” میری سلطنت بہت پرانی ہے۔ حضرت محمدﷺ اور خلفائے راشدین کے زمانے میں بھی قسطنطنیہ کے اندر ہماری سلطنت موجود تھی، اس کے بعد بنو امیہ اور بنو عباس کے زمانے میں بھی خلفاء سے بارہا ہماری صلح ہوئی اور کسی نے قسطنطنیہ کے لینے کا قصد نہیں فرمایا۔ لیکن اب عثمانی سلطنت نے ہمارے اکثر مقبوضات چھین لیے ہیں اور ہمارے دارالسلطنت قسطنطنیہ پر اس کا دانت ہے۔ ایسی حالت میں سخت مجبور ہو کر ہم آپ سے امداد کے خواہاں ہیں اور ظاہر ہے کہ آپ کے سوا ہم اور کسی سے خواہاں امداد بھی نہیں ہو سکتے۔ آپ کو اگر بایزید خان یلدرم کے مسلمان اور ہمارے عیسائی ہونے کا خیال ہو تو آپ پر واضح رہے کہ بایزید خان کو جس طرح یورپ میں مسلسل فتوحات حاصل ہو رہی ہیں اس کی طاقت بڑی تیز رفتاری سے ترقی پذیر ہے۔ وہ بہت جلد اس طرف سے مطمئن اور فارغ ہو کر آپ کے مقبوضہ ممالک پر حملہ آور ہوگا اور اس وقت آپ کو اس کے زیر کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔

”بایزیدخان جب سلطان احمد جلائر اور قرایوسف ترکمان کو، جو آپ کے باغی ہیں، آپ کے خلاف جنگ کرنے اور مشورہ دینے میں برابر مصروف ہے۔ یہ بات بھی آپ کے لیے کچھ کم بے عزتی کی نہیں ہے کہ آپ کے باغی سلطان بایزید خان کے پاس اس طرح عزت و اکرام کے ساتھ رہیں اور آپ ان کو واپس طلب نہ کرسکیں۔ پس مناسب یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ ایشیائے کوچک پر حملہ کریں کیونکہ اس ملک کو قدرتی طور پر آپ کے قبضے میں رہنا چاہیے اور بایزید خان یلدرم کے فتنے سے ہم کو بچائیں، ہم سے جو کچھ ممکن ہو گا آپ کی امداد کریں گے۔“

قیصر کا یہ خط اگرچہ اپنی نفسانی اغراض پر مشتمل تھا اور تیمور ایسا بے وقوف نہ تھا کہ اس کی خود غرضانہ باتوں میں آجاتا لیکن اس خط میں باغیوں کی پناہ دہی کا تذکرہ کچھ ایسے الفاظ میں کیا گیا تھا جن کا تیمور کے دل پر کچھ نہ کچھ اثر ضرور ہوا۔ قیصر قسطنطنیہ کا یہ خط تیمور کے پاس اس وقت پہنچا جب وہ دریائے گنگ کے کنارے پہنچ کر ہردوار میں مقیم اور ہندوستان کے مشرقی صوبوں کی طرف بڑھنے کا قصد کر رہا تھا۔ قیصر قسطنطنیہ کے اس خط کو پڑھ کر اس نے بظاہر کوئی تسلی بخش جواب قاصد کو نہیں دیا بلکہ فوراً ہی اس کو رخصت کر دیا۔

مگر اس خط کے مضمون نے اندر ہی اندر اس کے دل پر ایسا اثر کیا کہ اس کا دل ہندوستان سے اچاٹ ہو گیا اور وہ ہندوستان کے اس نو مفتوحہ ملک کو بلا کسی معقوم انتظام کیے ویسے ہی چھوڑ کر ہردوار سے جلد جلد منزلیں طے کرتا ہوا پنجاب اور پنجاب سے سمر قند کی جانب روانہ ہوا۔ ہندوستان کے ایک لاکھ قیدی جو اس کے ہمراہ تھے اور سفر میں گراں باری کا موجب تھے ا س نے راستے میں قتل کرادیئے۔ سمر قند پہنچ کر اس نے خوب تیاری کی او ر اس بات پر آمادہ ہو گیا کہ عثمانی سلطان سے اول دو دو ہاتھ کرکے اس بات کا فیصلہ کر لیا جائے کہ ہم دونوں میں سے کس کو دنیا کا فاتح بننا چاہیے۔

اس عرصہ میں تیمور کے پاس برابر یلدرم کی فتوحات کے حالات پہنچے رہتے اور وہ اپنے اس رقیب سے لڑنے پر مستعد ہوتا گیا۔ ادھر یایزید یلدرم قسطنطنیہ کے عیسائی قیصر کو اپنا باج گزار بنا کر اور ہنگری و آسٹریا کی فتوحات کی تکمیل تک پہنچ کر اپنے اس ارادے کی تکمیل پر آمادہ ہوا کہ شہر روما کو فتح کرکے سینٹ پیٹر کے مشہور گرجا میں اپنے گھوڑے کو دانہ کھلائے۔ لیکن اس کو یہ خبر پہنچ گئی کہ قیصر قسطنطنیہ نے اس کے خلاف تیمور کے پاس سفارت بھیجی ہے اور وہ سلطان بایزید خان کی خراج گزاری کو اپنے لیے موجب ذلت سمجھ کر ہاتھ پاؤں مانے میں مصروف ہے۔

سلطان بایزید خان یلدرم کو تیمور سے تو یہ توقع ہر گز نہ تھی کہ وہ قیصر کا حمایتی بن کر اس سے لڑنے آئے گا اور نہ اس کو تیمور سے کچھ خوف تھا لیکن اس نے ضروری سمجھا کہ قیصر کا قصہ اول پاک کر دیا جائے، اس کے بعد اٹلی پر حملہ کیا جائے۔ ادھر تیمور نے سمر قند سے روانہ ہو کر ایشیائے کوچک کی مغربی سرحد پر پہنچ کر آذربائیجان کو فتح کرکے آذربائیجان اور آرمینیا میں قتل عام کے ذریعہ خون کے دریا بہائے اور اس علاقے پر اپنی ہیبت کے سکے بٹھائے۔

آذربائی جان و آرمینیا کو فتح کرنے کے بعد تیمور کو سلطان بایزید یلدرم سے چھیڑ چھاڑ کرنے کا بخوبی موقع مل گیا تھا کیونکہ اب اس کے سامنے عثمانیہ سلطنت کی حدود تھیں اور درمیان میں کوئی علاقہ حائل نہ تھا۔ تیمور نے جب آذربائی جان کو فتح کر لیا تو بایزید بلدرم نے ایک مختصر سی فوج کے ساتھ اپنے بیٹے طغرل کو اپنے سرحدی شہر سیواس میں بھیج دیا کہ اگر تیمور اس طرف کو بڑھے تو اس کو روکے۔ تیمور نے جاسوسوں کی ایک بڑی تعداد فقیروں اور درویشوں، صوفیوں، واعظوں، تاجروں، سیاحوں کی شکل میں سلطنت عثمانیہ میں داخل کردی۔ اور ایک بڑی تعداد تجربہ کار جاسوسوں کی خاص سلطان بایزید خان کے لشکر میں بھیجی کہ وہ جا کر ان مغلوں کو جو ایشیائے کوچک میں بودوو باش رکھنے کے سبب بایزید کے لشکر میں شامل اور اس کے ایشیائی لشکر کا جزواعظم تھے بہکائیں اور سمجھائیں کہ مغلوں کا قومی فرمانروا اور حقیقی سردار تیمور ہے۔ تیمور کے مقابلے میں بایزید یلدرم ترکی سلطان کا ساتھ دینا قومی غداری اور بڑی بے عزتی کی بات ہے چنانچہ تیمور کی یہ خفیہ حملہ آواری بڑی گارگر ثابت ہوئی۔ بایزید خان یلدرم کی فوج کا ایک بڑا حصہ سلطان سے بددل اور بغاوت پر آمادہ رہنے لگا۔

اس انتظام سے فارغ ہو کر تیمور نے مناسب سمجھا کہ شام و مصر کا ملک اول فتح کر لوں اس کو معلوم تھا کہ مصر کا چرکسی بادشاہ فرج بن برقو بایزید خان کا دوست ہے۔ جب ملک شام پر حملہ کیا جائے گا تو وہ دمشق کو بچانے کے لیے ضرور ملک شام میں آئے گا اور چونکہ وہ تنہا کمزور ہے اس کو شکست دینا نہایت آسان کام ہے۔ کم از کم دمشق اور شام پر قبضہ ہو جانے سے بایزید خان یلدرم کو مصریوں اور شامیوں کی جانب سے کوئی امداد نہ پہنچ سکے گی۔

تیمور فوج کو لے کر 803 ھ میں حلب کے راستے ملک شام پر حملہ آور ہوا۔ تیمور نے شام کے شہروں میں قتل عام کراکر اور جا بجا کلہ مینار بنا کر لوگوں کو خوفزدہ کر دیا۔ بایزید خان یلدرم نے قسطنطنیہ کا محاصرہ کر لیا تھا اور قسطنطنیہ کی فتح سے بہت ہی جلد فارغ ہونے والا تھا۔ اس نے شام کی فتح اور فرج بن برقوق شاہ مصر کی شکست کا حال سن کر قرایوسف ترکمان کو ایک فوج دے کر روانہ کیا کہ بلا تامل شام میں پہنچ کر تیموری عاملوں کو قتل و اسیر کرکے ملک شام پر قبضہ کرے اور خود تیمور کے مقابلے میں روانہ ہوا۔

قسطنطنیہ کی فتح کو اس نے دوسرے وقت کے لیے ملتوی کر دیا۔ بہت زیادہ ممکن تھا کہ ملک شام کے چھین لینے پر اکتفا کرکے بایزیدم یلدرم خاموش ہو جاتا اور تیمور سے جنگ کرنا یعنی خود اس پر حملہ آور ہونا ضروری نہ جانتا کیونکہ وہ مسلمان بادشاہوں سے لڑنے کا شوق نہ رکھتا تھا۔ اس کو تو ابھی یورپ کے باقی بچ رہے ملکوں کو فتح کرنے کا خیال تھا اور وہ عیسائیوں ہی کو اپنی شمشیر خارا شگاف کے جوہر دکھانا چاہتا تھا، جن کو وہ جنگ نکوپولس میں سخت ہزیمت دے کر مرعوب کر چکا تھا اور ہنگری وآسٹریا کی فتح کے بعد قسطنطنیہ و روما کو فتح کرکے گرجا میں اپنا گھوڑا باندھنے کا مصمم ارادہ کر چکا تھا۔

مگر تیمور کئی سال سے نہایت سرگرمی کے ساتھ بایزید سے لڑنے اور اس کو شکست دینے کی کوششوں میں مصروف تھا۔ دوسرے الفاظ میں کہا جا سکتا ہے کہ بایزید یلدرم عیسائی طاقت کو نابود کرنے پر تلا ہوا تھا اور تیمور بایزید کو نابود کرنے اور عیسائیوں کو بچانے پر آمادہ تھا۔ تیمور نے اپنے تمام سامان کو مکمل کرلینے کے بعد بایزید کے سرحدی شہر سیواس پر حملہ کردیا جہاں بایزید کا بیٹا بطور قلعہ دار موجود تھا۔ بایزید کے بیٹے ارطغرل نے بڑی بہادی اور پا مردی کے ساتھ قلعہ بند ہو کر مدافعت کی۔

تیمور نے سب سے پہلے اسی قلعہ پر اپنی قلعہ گیری کے سامانوں کو آزمایا اس نے قلعہ کا محاصرہ کرکے باہر سے قلعہ کی بنیادیں کھدوانی شروع کیں۔ تھوڑے تھوڑے فاصلے پر عمیق گڑھے کھود کر اور بنیاد کے نیچے سے مٹی نکال کر لکڑی کے مضبوط شہتیر بنیاد کے نیچے کھڑے کر دیے پھر ان گڑھوں اور شہتیروں پر معلق کر دیا گیا۔ ان شہتیروں میں آگ لگا دی گئی۔ شہتیروں کے جلنے سے قلعہ کی تمام دیوار یک لخت زمین میں دھنس گئی۔ اس طرح یکایک اپنے آپ کو بے پناہ دیکھ کر محصورین نے ہتھیار ڈال دیے اور سب کے سب جن کی تعداد چار ہزار تھی گرفتار ہو گئے۔

جس طرح سیواس کے قلعہ کو زمیں میں غرق کرنے کا تیمور نے عجیب و غریب طریقہ اختیار کیا تھا اس طرح اس نے قیدیوں کے ساتھ سفاکی و بے دردی کا سلوک بھی بہت ہی عجیب و غریب کیا۔ چاہیے تو یہ تھا کہ ہتھیار ڈالنے والوں کو جان کی امان دیتا لیکن اس نے سب کی مشکیں کسوائیں اور ان کے سروں کو ان کے گھٹنوں کے درمیان لے جا کر رسیوں سے جکڑ کر گٹھڑی کی طرح بندھوا دیا پھر گہری گہری خندقیں کھدوا کر ان سب کو ڈال دیا۔ ان خندقوں یا یوں کہیے کہ قبروں پر تختے رکھ کر اوپر مٹی ڈال دی گئی زندہ درگور کرنے کے اس ظالمانہ فعل کا جب تصور کیا جاتا ہے تو بدن کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔

بایزید یلدرم نے جب اپنے بیٹے اور چار ہزار ہم قوم ترکوں کے اس طرح ہلاک ہونے کا حال سنا تو وہ اپنے ہوش میں نہ رہا۔ غالباً تیمور کی بھی یہی منشا تھی کہ بایزید آپے سے باہر ہوکر عقل و خرد سے بیگانہ ہو کر فوراً مقابلہ پر آجائے۔ اس واقعہ کے بعد بایزید یلدرم سے جو بداحتیاطی اور نا عاقبت اندیشی ظہور میں آئی اس کو غصہ و غضب کا نتیجہ سمجھ لیجیے یا اس الزام کا نتیجہ قرار دیجئے جو شراب خوری کے متعلق اس پر لگایا جاتا ہے۔ بہرحال اس کے بعد جنگی حزم و احتیاط کے معاملے میں تیمور ہر ایک اعتبار سے پورا اور بایزید نا قص ثابت ہوتا ہے حالانکہ اس سے پہلے تک بایزید یلدرم سے جنگی معاملات میں کوئی غلطی سرزد نہیں ہوئی تھی اور وہ اپنے آپ کو بڑا قابل اور لائق تعریف ثابت کر چکا تھا۔

تیمور بایزید کی طاقت سے واقف تھا اور جانتا تھا کہ اس 69 سال کے بوڑھے دشمن کی ساری عمر لڑائیوں میں صرف ہوئی ہے۔ اس کے پاس یہ خبر بھی پہنچ چکی تھی کہ تیمور کی ہمرکابی میں پانچ لاکھ سے اوپر فوج موجود ہے بایزید اس عجلت میں جس قدر فوج جمع کر سکتا تھا اس نے جمع کی اور سیواس کی طرف، جہاں اس کا بیٹا زندہ درگور کیا گیا تھا اور اس کا دشمن اپنی فوج لیے ہوئے پڑا تھا، روانہ ہوا۔ اس کی فوج میں اس کی عیسائی بیوی کا بھائی شاہ سرویا اورایک فرانسیسی سردار بھی موجود تھا جو چوبیس ہزار سواروں کا افسر تھا۔

بایزید کو سرعت رفتار کے ساتھ آتا ہوا سن کر تیمور نے ایک نہایت ہی موثر سپاہیانہ چال چلی جو اس نے پہلے ہی سے سوچ رکھی تھی اور اس کے متعلق ہر قسم کا انتظام پہلے سے کر لیا تھا۔ بایزید نے سیواس کی طرف اپنی فوج کے بعض حصے پہلے روانہ کر دیے تھے اور ہر قسم کا ضروری سامان بھی ساتھ لے لیا تھا۔ تیمور اس وقت تک کہ بایزید کا لشکر سیواس کے قریب پہنچا وہیں مقیم رہا۔ جب اس کو معلوم ہوا کہ بایزید جو پیچھے آرہا ہے اب اپنا راستہ نہ بدل سکے گا تو وہ سیواس کو چھوڑ کر اور وہاں سے کترا کر جنوب کی طرف چل دیا اور مغرب کی جانب مڑ کر سیدھا شہر انگورہ کی طرف گیا اور جا کر شہر انگورہ کا محاصرہ کر لیا۔

بایزید یلدرم جب سیواس پہنچا تو اپنے بیٹے کے متقل کو دیکھ کر غم و غصہ سے بے تاب ہو گیا لیکن اس نے تیمور اور اس کی فوج کو وہاں نہ پایا بلکہ اس کو معلوم ہوا کہ تیمور اپنی فوج کو لے کر سیواس سے دو سو پچیس میل مغرب کی جانب اندرون ملک یعنی شہر انگورہ میں جا پہنچا ہے۔ شہر انگورہ کی تباہی کا تصور بایزید یلدرم کے لیے سیواس کی تباہی سے بھی زیادہ تکلیف دہ تھا اور تیمور کے اس طرح ایشیائے کوچ کے قلب میں پہنچ جانے کو وہ برداشت نہیں کر سکتا تھا۔

اب اس کے لیے مناسب یہی تھا کہ وہ خشم اندیشہ سوز کا مغلوب نہ ہوتا اور قرایوسف ترکمان اور شامی و مصری سرداروں کو تیز رفتار قاصدوں کے ذریعے اطلاع دے کر تیمور کی طرف بڑھنے کی دعوت دیتا اور خود تیمور کو اپنے ملک میں ہر طرف سے گھیر کر بند کرنے اور اس کے ذرائع رسد رسانی کو منقطع و محدود کرنے کی ترکیب عمل میں لاتا۔ تیمور اگر مغرب کی جانب بڑھتا اور شہروں کو برباد کرتا تو یہ کام اس کو کرنے دیتا کیونکہ اس کے چاروں طرف وہ علاقے تھے جہاں عثمانی جاگیردار اور سلطنت عثمانیہ کے فدائی ترک بکثرت آباد تھے اور چاروں طرف سے بڑی زبردست فوجیں مجتمع ہو کر تیمور کے لشکر کو اپنے حملوں کا نشانہ بنا سکتی تھیں۔

اس طرح تیمور کو جال میں پھنسا کر گرفتار کر لینا بایزید کے لیے کچھ بھی مشکل نہ تھا۔ مگر تیمور بایزید کے مزاج سے یقیناً خوب واقف تھا اور وہ جانتا تھا کہ میرا حریف اس قدر مآل اندیشی کو ہرگز کام میں نہ لا سکے گا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور بایزید جو بڑی آسانی سے چار لاکھ فوج سیواس کے میدان میں جمع کرنے کا اہتمام کرچکا تھا اور تیمور سے کسی طرح مغلوب ہونے والا نہ تھا، جوش غضب میں بلاتامل دو منزلہ اور سہ منزلہ یلغار کرتا ہوا سیواس سے انگورہ کی طرف چلا۔

اس تیز رفتاری اور مسلسل سفر میں صرف ایک لاکھ بیس ہزار فوج اس کے ہمراہ تھی۔ یہی شتاب زدگی بایزید یلدرم کی سب سے پہلی اور سب سے بڑی غلطی تھی۔ بایزید یلدرم جب اپنی اس تھکی ماندی ایک لاکھ بیس ہزار فوج کو لے کر انگورہ کے متصل پہنچا ہے تو تیمور اپنی پانچ لاکھ فوج سے زیادہ فوج، جو خوب تازہ دم اور ہر طرح مقابلے کے لیے تیار تھی، لیے ہوئے بہترین مقام پر خمیہ زن تھا۔ تیمور نے اپنی فوج کے لیے شہر انگورہ کے شمال ومغرب میں بہتر سے بہتر موقع کا انتخاب کر لیا تھا اور جہاں جہاں خندق یا دمدمے کی ضرورت تھی وہ بھی تیار کرا چکا تھا۔

یایزید یلدرم نے تیموری لشکر گاہ کے شمال کی جانب، اور یہ ظاہر کرنے کے لیے کہ میں تیمور کی اس عظیم الشان فوج کو مطلق خاطر میں نہیں لاتا، قریب کے ایک مرتفع پہاڑی علاقے میں لے جا کر اول شکار میں مصروف ہوا اور جنکا کا سپاہیوں سے محاصرہ کراکر چنگیزی طریقہ سے دائرہ کو چھوٹا کرنا اور جنگلی جانوروں کو ایک مرکز کی طرف لانا شروع کرایا۔ جہاں سلطان اور اس کے سردار جانوروں کے شکار کرنے میں مصروف تھے اس شکارمیں تھکی ماندہ فوج کو پانی نہ ملنے کی سخت تکلیف برداشت کرنی پڑی اور جو وقت سپاہیوں کو آرام کرنے اور سستانے کے لیے ملنا چاہیے تھا وہ اس محنت اور تشنگی کے عالم میں بسر ہوا۔

جس سے پانچ ہزار سپاہی پیاس کے مارے مر گئے اور فوج کے دل سے سلطان کی محبت کم ہو گئی۔ اب جو شکار سے اپنے کیمپ کی طرف واپس ہوا تو معلوم ہوا کہ کیمپ پر دشمن نے قبضہ کر لیا ہے۔ اس کے بعد جس پانی کے چشمہ پر عثمانی لشکر کا گزر ممکن تھا اس چشمہ کو اوپر سے بند لگا کر اور دوسری طرف کو اس کا رخ پھیر کر تیمور کی دوراندیشی اور تجربہ کاری نے پہلے ہی خشک کرادیا تھا۔ بایزید یلدرم اگرچہ خود بھی لڑائی میں دیر اور تامل کرنے والا نہ تھا مگر غالبا وہ اپنے کیمپ میں پہنچ کر اور کم از کم فوج کو پانی پینے کی مہلت کے بعد ہی سفوف جنگ تیار کرتا مگر اب وہ تیمور کی ہوشیاری اور چالاکی کے سبب مجبور ہو گیا کہ اپنی فوج کو اس خراب خستہ حالت میں لیے ہوئے بلا تامل دشمن پر حملہ آور ہوا۔

20 جولائی 1402ء کو بایزید و تیمور کی زور آزمائی شروع ہوئی اور مغرب کے وقت جب رات شروع ہو گئی تھی لڑائی کا فیصلہ ہو گیا۔ بایزید یلدرم کے ساتھ جو فوج تھی اس کی تعداد ایک لاکھ بیس ہزار تھی لیکن تیمور کی فوج پانچ لاکھ تھی۔ تیمور کی فوج تازہ دم تھی اور بایزید کی فوج تھکی ماندی، بھوکی پیاسی تھی۔ اس لڑائی کے کے نتائج عالم اسلام کے لیے بے حد نقصان دہ ثابت ہوئے اور یورپ جو اسلامی برِاعظم بننے والا تھا عیسائی برِاعظم رہ گیا۔

انگورہ کے میدان میں طبل جنگ بجا اور شیران غرندہ ایک دوسرے کی طرف بڑھے۔ غریو لشکر نے اردگرد کے ٹیلوں اور پہاڑوں کو لرزا دیا۔ ششمیروسناں و ذرہ نے ایک دوسرے سے ٹکرا کر چنگاریاں برسائیں، خون کے فواروں سے چھڑکاؤ شروع ہوا۔ انگورہ کے میدان میں اس روزشام تک یہ دلچسپ تماشا ہوتارہا۔ آسمان و آفتاب دونوں کو حسرت رہی کہ غبار کے بادل نے حائل ہو کر ان بہادروں کی قابلیت جنگی اور جوانمردوں کی نہنگانہ فرہنگی کا اچھی طرح معائنہ نہ کرنے دیا۔

تیمور کی فوج میں سے شہزادہ ابوبکر نے سلیمان چلپی پر ایک سخت حملہ کیا جس ترکوں کی صفیں درہم برہم ہو گیں۔ ترکوں نے متحد ہو کران حملوں کو روکا اور تیموری فوج کو تھوڑی دیر بعد اپنی جگہ پر واپس آنا پڑا۔ سلطان بایزید میسرہ پر جب یہ مصیبت آرہی تھی وہ اپنی فوج کے حصہ قلب کے ساتھ مغلوں کے اس عظیم و شدید حملہ کو روک رہا تھا جو مغلوں کے قلب نے جنگی ہاتھیوں کے ساتھ بایزید پر کیا تھا۔ بایزید اس معرکہ میں اپنے انتہائی طیش کے سبب یہ بھول گیا تھا کہ میں تمام فوج کا سپہ سالارِاعظم ہوں اور مجھ کو صفوف قتال سے جدا رہ کر میدان جنگ کے ہر حصہ پر نظر رکھنی چاہیے بلکہ اس نے ایک بہادر سپاہی کی طرح بذات خود دشمن پر رستمانہ صفوف شکن حملے شروع کر دیے اس کی بہادر فوج نے بھی اپنے سردار کی تقلید میں صف شکنی و حریف افگنی کا خوب حق ادا کیا۔

تیمور شروع سے آخر تک بذات خود جنگ میں شریک نہیں ہوا لیکن میدان جنگ کے ہر گوشہ پر اس کی نظر تھی۔ اس نے اس بچھی ہوئی شطرنج میں اپنے جس مہرہ کو کمزور دیکھا اسے زور پہنچایا اور جہاں سے جس مہرہ کو پیچھے ہٹانا مناسب سمجھا فوراً ہٹا دیا۔ بایزید کو اس طرح فاتحانہ آگے بڑھتے دیکھ کر تیمور نے اپنے تازہ دم دستوں کی مدد سے بایزید کے میمنہ اور میسرہ پر یک لخت حملہ کرا کر بایزید کو اس کی فوج کے بڑے حصے سے جدا کر دیا عین اسی وقت بہت سے مغلیہ دستے جو بایزید کی فوج میں شامل تھے تیموری لشکر میں شامل ہو گے۔

اس سے بایزید کے لشکر کو سخت نقصان پہنچا۔ بایزید اور اس کے جان نثاروں نے اس حالت میں شمشیر زنی کے جو جوہر دکھائے وہ انہیں کا حصہ تھا۔ بایزید کی یہ کیفیت تھی کہ وہ جس طرف حملہ آور ہوتا مغلوں کے ٹڈی دل کو دور دور تک پیچھے دھکیل دیتا تھا۔ کئی مرتبہ ایسی نوبت پہنچی کہ بایزید حملہ آور ہو کر مغلوں کی صفوں کو چیرتا ہوا اس مقام تک پہنچ گیا جہاں تیمور کھڑا ہوا اپنی فوج کو حملہ کی ترغیب دے رہا تھا۔ رات کی تاریکی شروع ہوجانے پر بایزید کے قریبا تمام جان نثار مارے جا چکے تھے یہ عثمانی شیر بھی کمندیں ڈال کر گرفتار کر لیا گیا اور میدان انگورہ میں اسلامی دنیا کی وہ تمام امیدیں جو بایزید کی ذات سے وابستہ تھیں دفن ہو گیئں۔

اگر فطرت مسخ نہ ہوگی ہو تو انسان کا خاصا ہے کہ وہ بہادری کی قدر کرتا اور بہادر انسان کو محبوب رکھتا ہے یہی وجہ ہے کہ دنیا کے ہر ایک ملک میں شیر کو جو انسان کا ہلاک کرنے والا جانور ہے عزت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے اور لوگ اس بات کے خواہاں رہتے ہیں کہ ان کو شیر سے تشبیہ دی جائے۔ میدان انگورہ میں اگر تیمور کی شکست ہوتی تو یقیناً تیمور اور اس کے خاندان کو تو نقصان پہنچتا لیکن عالم اسلام کو تیمور کی شکست سے کسی نقصان کا اندیشہ نہ تھا کیونکہ مشرقی ممالک جو تیمور کے قبضے میں تھے وہ تیمور کے بعد بھی مسلمانوں ہی کے قبضے میں رہتے ان کی نسبت یہ اندیشہ ہرگز نہ تھا کہ اسلامی ممالک کسی غیر مذہب کی حکومت میں شامل ہو جائیں گے لیکن بایزید کی شکست سے عالم اسلام کو سخت نقصان پہنچا کیونکہ یورپ کی طرف اسلامی پیش قدمی رک گئی اور نیم مردہ یورپ پھر اطمینان و سکون کے سانس لینے لگا۔

کفار سے لڑائیوں میں ہمیشہ بڑی فوج کفار کی اور چھوٹی فوج مسلمانوں کی ہوا کرتی تھی لیکن جنگ انگورہ میں چونکہ دونوں طرف مسلمان تھے اس لیے اس میں کثرت کو قلت پر غالب آنا چاہیے تھا چنانچہ وہ غالب ہوئی۔ تیمور بھی چنگیزی قوم سے تعلق رکھتا تھا چونکہ مسلمان تھا لہٰذا اس کا وجود اور اس کی ملک گیری باوجود اس کے کہ وہ مسلمانوں ہی سے زیادہ لڑا۔ مسلمانوں کی چھوٹی چھوٹی ریاستیں ایک عظیم الشان شہنشاہی میں تبدیل ہو رہی تھیں۔

مسلمانوں کی اس سے بڑھ کر اور کیا خوش قسمتی ہو سکتی تھی کہ ان کی ایک عظیم الشان شہنشاہی مغرب میں اور ایک مشرق میں قائم ہو گئی تھی۔ مسلمانوں کا ایک شہنشاہ مغرب میں فتوحات حاصل کرتا ہوا ساحل فرانس اور دوبارہ انگلستان تک پہنچنا چاہتا تھا اسی طرح دوسرا، تیمور مشرق کی طرف متوجہ ہو کر ساحل چین اور بحیرہ جاپان تک فتوحات حاصل کرتا ہوا چلا جاتا تو تمام دنیا کے فتح ہو جانے اور اسلام کے زیر سایہ آجانے میں کوئی کلام نہ تھا۔ مشرق میں کوئی تیمور کا مدمقابل نہ تھا اسی طرح مغرب میں کوئی طاقت بایزید یلدرم کی ٹکر سنبھالنے والی نہ تھی مگر افسوس ہے کہ انگورہ کے میدان نے ان دونوں شہنشاہوں کو اپنی طرف کھینچا اور یہ دونوں آپس میں ٹکرائے۔

سلطان بایزید کو تیمور نے ایک قفس آہنی میں قید کیا اور اس کو حالت قید میں اپنے ساتھ ساتھ سفر میں لیے پھرا۔ سلطان بایزید جو ایک عالی جاہ شہنشاہ تھا اس طرح ذلت کے ساتھ قید کرنا اور اس کی تشہیر ورسوائی سے لطف حاصل کرنا تیمور کے شریفانہ اخلاق پر ایک سیاہ اور مکروہ دھبہ ہے۔ سلطان بایزید تیمور کی قید میں آٹھ ماہ سے زیادہ نہ رہا اور فوت ہو گیا۔ بایزید کی وفات کے بعد تیمور کو اپنی اس حرکت پر سخت افسوس ہوا کہ اس نے عثمانی سلطان کو کیوں تباہ وبرباد کیا۔ اس جرم عظیم کی تلافی کے لیے اس نے ملک چین کی فتح کا ارادہ کیا جو پورا نہیں ہو سکا اور راستے ہی میں فوت ہو گیا۔ جتنا زیادہ نقصان اسلام کو اسلام کے ماننے والوں نے پہنچایا ہے اتنا نقصان کو اسلام کے دشمن بھی نہیں پہنچا سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).