کوئی یاں ہے کہ نہیں


زمین تو جیسے خبروں کے شور سے بھر گئی ہے۔ ٹی وی، کار میں چلتا ریڈیو، کمپیوٹر یا سمارٹ فون کی اسکرین، خبریں ہیں کہ اُن میں سے ایک رفتار سے اُمڈے چلی آرہی ہیں۔ پہلے کبھی دیر تک بیٹھے رہنے کا احساس ہوتا تو سُن ہوتی ہوئی ٹانگوں سے خبر مل جاتی، پہلو بدل کر ذرا پاؤں ہلا کر یا اُٹھ کر پانی پی لینے سے ایک وقفہ سا مل جاتا۔ اب تو ایسے ششدر رہ جاتے ہیں کہ جُنبش بھی نہیں کرتے اور گریہ و ماتم کا وقفہ لینے سے بھی جیسے قاصر ہوں۔

بدن بیٹھے بیٹھے شل ہو جاتا ہے اور آپ خوف اور حیرت میں جکڑے موت کی خبریں سُنتے اور دیکھتے ہیں اُن کی یلغار ہلنے نہیں دیتی۔ دماغ ُسن ہو جاتا ہے دل کا دھڑکا تیز اور ایک نامعلوم غم اندر باہر اندھیرا کر دیتا ہے۔ مرتے ہوئے لوگوں کی خبریں ان کے پیچھے رہ جانے والوں کا ِگریہ روح و بدن میں چاقو اُتار دیتا ہے۔ پاگل کر دینے والی یہ خبریں مختلف جگہوں، علاقوں اور خطوں کی ہیں جن میں بچے، بڑے، کمسن لڑکے اور لڑکیاں الگ الگ طرح مرتے ہیں اور یہ دیکھتے ہوئے دل میں ہر مرتبہ ایک بھالا پیوست ہوتا ہے اور خبر دیکھنے والا بھی ایک دفعہ ساتھ ہی مر جاتا ہے۔

مقبوضہ کشمیر میں آٹھ سال کی معصوم مسلمان بچی کو مذہبی منافرت پر آٹھ لوگ اغوا کرتے ہیں۔ اسے ایک ہفتے تک بھوکا رکھتے ہیں، ریپ کرتے ہیں اور پھر ہڈیاں توڑ کر گلا گھونٹ دیتے ہیں، لاش پھینکنے سے پہلے سر پتھر سے کُچلنا نہیں بھولتے۔ انڈین حکومت کے دو وزیر قاتلوں کے حق میں مظاہرہ کرتے ہیں کوئی کچھ نہیں کر سکتا۔

بہیمیت کس انتہا پر ہے۔ مار ڈالنے کے بعد لاش کو کئی کئی گھنٹوں تک ڈنڈے، لاٹھیاں تلواریں مارتے رہنا، مشعال خان یاد آگیا، سیالکوٹ کے دو بھائی یاد آگئے مردہ بدن عبرت کا نشان بنا کرلٹکا دیے گئے ہیں۔ اس کے بعد مارو اور مارو اور مارو کے لذت بھرے نعرے ہیں۔ دیکھنے والوں میں ضمیر نام کی، دل نام کی کوئی شے ہی نہیں۔ تماشا دیکھنے کو کم ہے۔ مجمع کی خاموشی مجرم کی ساتھی تھی۔

قصور میں زینب کے قتل کا شور تھمتے ہی حکومتی دلاسوں کے بعد وہی بے قصور دس برس سے چھوٹے پھول جیسے بچوں کی برباد گلی سڑی لاشیں شہر سے باہر مٹی کے ٹیلوں سے ملتی ہیں۔ کوئی کچھ نہیں کر سکتا۔ یہ درندے ان بچوں سے کیا کرتے ہوں گے۔ آپ کے اندر سنّاٹا اُتر آتا ہے۔

1999 کی ایک فلم ”8 ایم ایم“ میں (نیکولس کیج) اپنی اہلیہ (کیتھرین کیینر) اور کمسن بیٹی کے ساتھ معمول کی زندگی بسر کررہا ہے، یہاں تک کہ اسے چونکا دینے والا نیا مقدمہ مل جاتا ہے۔ مسز کرسچن (مائرہ کارٹر) نامی ایک بیوہ عورت کو اپنے مرحوم شوہر کے سامان میں ایک سنف فلم دکھائی دی ہے، اور وہ چاہتی ہیں کہ ویلز اس بات کا تعین کرے کہ فلم حقیقی ہے یا جعلی۔ ویلز کیلیفورنیا کا رخ کرتے ہیں، جہاں ایک ویڈیو اسٹور کا ملازم (جوکون فینکس) غیر قانونی فحش فلموں کی خطرناک اور ظالم دنیا میں گھسنے میں مدد کرتا ہے۔ جہاں شہر قصور کی طرح بچوں کے جنسی استحصال کے بعد ان کو قتل کرنے کی فلمیں بنتی ہیں اور اُسے بیمار ذہن اونچے داموں خریدتے ہیں۔

صلاح الدین پوچھتا مر گیا کہ تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو۔ تم نے مارنا کہاں سے سیکھا، نشان تک نہیں پڑتا۔

چانڈکا میڈیکل کالج کی پینتالیس سالہ تاریخ میں اس سے پہلے بھی کئی واقعات ہیں۔ نمرتا چندانی نے کیا خبر لڑکی ہونے کی قیمت چکائی یا مسلمان نہ ہونے کی۔ لاڑکانہ ہی میں نشے میں ایک وڈیرے نے ایک تقریب میں ایک چھ ماہ کی حاملہ گلوکارہ ثمینہ سموُّں کو کھڑے ہو کر گانے کا حکم دیا اور اس کے کھڑے ہوکر گانے پر بھی گولی مار دی۔ پرندوں کے شکار کرنے والے نے دیکھنا ہوگا کہ فاختہ شوہر کے سامنے کیسے گرتی ہے۔ کوئی کچھ نہیں کرسکا۔ لاڑکانے چلو ورنہ تھانے چلو۔

بارہ سالہ میر حسن گرمی میں اپنے شہر شکارپور سے ستّر کلو میٹر دور لاڑکانہ میں ہسپتال کے باہر دو پارک کی ہوئی کاروں کے درمیان اپنی ماں کی گود میں موت کی ہچکیاں لیتا ہے۔ ماں کے منہ پر پڑا دوپٹہ اس کی آ ہوں کو بے پردہ کر رہا ہے۔ ویکسین نہیں ہے اگر ہے تو میر حسن ایمرجنسی میز پر نہیں ہے۔ کوئی کچھ نہیں کر سکتا۔ سانس ایسے اٹک اٹک کر نکلی کہ ماں کے بین کلیجہ پھاڑنے لگے۔ آسمان نہیں گرا۔ سگ گزیدگی بالائی اور اندرون سندھ عام ہے۔ گندگی اور غلاظت کے انبار لگے ہیں۔ آوارہ کتے کھانے کی تلاش میں دن اور رات بھر پھرتے رہتے ہیں اور آنے جانے والوں کو کاٹ کھاتے ہیں لیکن یہ کوئی خبر نہیں۔

صوبائی اور قومی اسمبلیوں میں ڈیسک بجاتے، گلا پھاڑ کر چلاتے ہوئے وہ کہتے ہیں پچاس کروڑ، دو ارب، تین ارب لاؤ۔۔۔ نکالو پیسے میں شہر صاف کر کے بتاتا ہوں۔ اتنا شور ہے کہ کانوں کے پردے پھٹ جائیں سپیکر کو مائک بند کرنا پڑتا ہے۔ خبروں کے شور کے برابر سے نکلتا ہوا شور ہے۔ اسمبلی کے دروازے بند ہیں اندر دُھواں دھار بحث جاری ہے۔ باہر میر حسن مر گیا، ”ہم نہ نکہت ہیں نہ گل ہیں جو مہکتے جاویں/ خاک کی طرح جدھر جاویں بکھرتے جاویں“ ماں اُسکے تابوت کے آگے آنسو چھڑکتی جاتی ہے۔ خبر تو جب بنے جب کچھ آوارہ کتے کبھی اسمبلی میں گُھس جائیں تو معلوم ہو کہ کُتّے کے کاٹے کی ویکسین کہاں ملتی ہے۔ کاش!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).