بیٹی اور بہنوں کو حق دو


انسان کو دنیاوی، معاشرتی علم کی رو سے، ”معاشرتی جانور“ کہا جاتا ہے Man is a Social Animal۔ مگر پھر بھی انسان سے توقعات انسانی اقدار کے حساب سے ہی وابستہ ہوتی ہیں۔ انسان کی جبلت ہے کہ یہ اپنے ارد گرد بسنے والے دیگر لوگوں سے تعلقات کی استواری کے بغیر زندگی گزارنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا اور واقعتاً معاشرہ نام ہی لوگوں کی باہم ربط اور ہم آہنگی سے یکجا رہنے کا ہے۔ لیکن زندگی کا اصل حسن تو انسانی رشتوں کے ساتھ ہے، ماں، باپ، بہن، بھائی، چچا، خالہ، بیوی، بچے، ماموں، ممانی، پھپھو، تایا، دادی، دادا، یہ محض رشتوں کے نام نہیں ہیں۔

یہ تو جذبات، احساسات، دردمندی اور سب بڑھ کر محبتوں کے نصاب ہیں۔ انہی رشتوں کی چاشنی کی وجہ سے تو زندگی میں حُسن اور تابندگی ہوتی ہے۔ لیکن کچھ رشتے تو ایسے ہوتے ہیں کہ ان کی موجودگی آپ کے لیے جسم میں خون کی گردش، سانسوں کی روانی اور اور احساس زندگی ہوتا ہے، اور یہ والدین کے بعد بہن بھائی کا رشتہ ہوتا ہے۔ کیا ہی خوبصورت رشتہ ہے جس میں ہمدردی و محبت کے ساتھ ساتھ خاص قسم کی رازداری بھی موجود رہتی ہے۔

پوری دنیا کے سامنے آپ برے ہوسکتے ہیں لیکن بہن کے لیے آپ ہمیشہ معصوم ہی رہتے ہیں۔ بہن کے بعد یہ گدی بیٹی سنبھال لیتی ہے۔ بہن بھائیوں کے رشتے کا جب احاطہ کریں تو یقین جانیں کہ انصاف کے ترازو میں بہن کی اپنے بھائی کے لیے محبت کا پلڑا ہمیشہ بھاری ہی رہتا ہے۔ بہنیں سراپا قربانی ہی نظر آتی ہیں۔ میں اپنے والدین کا اکلوتا بیٹا ہوں اور میری چار بہنیں ہیں، میرے والدین اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے اسی لیے ان لوگوں نے ہم پانچوں بہن بھائیوں کو بالکل برابری کے حقوق دیے اور محبت کے معاملے میں تو میری بہنوں کو کئی درجے فضیلت ہی حاصل رہی جو کہ میرے لیے زندگی بھر کا اعزاز ہے۔ بہنیں اور بیٹیاں ہم سے پیار اور عزت کے علاوہ مانگتی ہی کیا ہیں لیکن جب بات جائیداد میں بہنوں کو ان کا شرعی حصہ دینے کی آجائے تو افسوس اور صد افسوس ہماری اندر کی حیوانیت باہر آجاتی ہے۔ انسان کیوں بھول جاتا ہے کہ موت تو اٹل ہے، کتنا کھا لے گا اور حصہ بھی بہن جیسے محب اور بے ضرر رشتے کا حصّہ جو کہ پہلے ہی تیرے حصے کا نصف ہے۔

دو دن قبل ایک نیوز چینل پر سگے بھائیوں کی طرف سے درندگی کی بدترین زندہ مثال حافظ آباد کی نائلہ کو سگے بھائیوں نے 20 سال تک کمرے میں اس لیے بند رکھا تاکہ وہ جائیداد کا حصہ نہ مانگ سکے۔ حافظ آباد کا ایسا محلہ جہاں تنگ گلیاں، آس پاس گھروں کا ہجوم، کتنے لوگوں نے اس کی چیخوں سسکیوں کو سنا ہوگا؟ کتنے سرکاری افسران آئے اور گئے ہوں گے؟ 20 سال تک جانوروں سے بدترین قید کاٹنے والی نائلہ کی حالت پر جانور بھی پناہ مانگتے ہوں گے۔ بتایا جاتا ہے نائلہ کو کھانا شاپر میں باندھ کر پھینکا جاتا۔ وہ کھاتی ہے نہیں کھاتی وہ کیسے اٹھتی ہے کیسے سوتی ہے یہ اس کمرے میں پڑی گندگی کے انبار اور بدبو سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

پورے محلے میں 20 سال تک کوئی ایسا انسان نہیں تھا جو اس ظلم کا پردہ فاش کرتا۔ نائلہ کو بازیاب کراتے وقت اس کے بڑھے ہوئے ناخن اور جسم میں پڑے ہوئے کیڑوں نے ہماری انسانیت پر کتنے سوال چھوڑے یہ آپ خود ویڈیو دیکھ کر ہی اندازہ لگائیں۔ اس ملک میں قانون اندھا اور ظالم کو آزادی حاصل ہے۔

پتہ نہیں کتنی نائلہ آج بھی جاگیرداروں، سرداروں، وڈیروں، ظالم افسران یا ہماری اپنی لالچ کی بھنیٹ چڑھ کر تہہ خانوں میں جانوروں سے بدتر زندگی گزار رہی ہوں گی۔ میرا مطالبہ ہے دنیا کے ہر اس ظالم بھائی اور باپ سے جس نے دولت کی لالچ میں بہن، بیٹی کو محروم کر رکھا ہے کہ ”بیٹی اور بہن کو اس کا حصہ دو۔“ اگر یہ حصہ دیے بغیر چلے گئے تو نہ یہ جہاں تمہارا ہے نہ وہ جہاں تمہارا ہے۔ اکثر قانون سازی کرنے والوں میں سے بڑی تعداد ایسے لوگوں کی رہی ہے کہ جنہوں نے خود اپنی بہنوں بیٹیوں کا حصہ مارا ہوا ہے۔

خواتین کے حقوق کی پاسبانی کے ادارے کام تو کر رہے ہیں۔ مگر غاصبوں کے ہاتھ بہنوں کی نسبت بہت مضبوط ہیں۔ لیکن اچھی امید رکھنے سے حالات کی بہتری بھی ہو جاتی ہے، آج میری اپنی، ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں سے گزارش ہے کہ آپ اپنی گود جو کہ ہر بچے کی پہلی درسگاہ ہے اس سے ہی اپنے بیٹوں کو یہ درس دیں کہ بہنوں کا حق دینا واجب ہے اور اس حق کی ادائیگی سے روگردانی کرنے والا نہ انسان ہے اور نہ ہی وہ مسلمان ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).