میاں مٹھو کو بھی تو گرفتار کرو


کسی غیر مسلم سے کوئی دشمنی نکالنی ہو یا انتقام لے کر پرانا حساب چکتا کرنا ہو تو، جھٹ سے اس پہ توہین رسالت کا الزام لگاؤ اور کسی مذہبی انتہاپسند مولوی تک یہ بات پہنچادو، اور پھر چپ چاپ تماشا دیکھتے جاؤ۔ کچھ کہے بغیر آپ کا انتقام کوئی اور اس شخص سے لے لے گا، اور وہ بھی رسول ﷺ کے نام پر۔ یہ میری ذاتی رائے نہیں بلکہ، آج کل جو کچھ ہو رہا ہے، وہی کہہ رہی ہوں۔

سندھ کے ضلع گھوٹکی میں بسے میاں مٹھو سے کون واقف نہیں، جو سیاسی اور اپنی مذہبی تبلیغ کی وجہ سے خاصی شہرت پا چکے ہیں۔ جس میں وہ ہندو نابالغ لڑکیوں کا مذہب تبدیل کرواکے ان کا نام بدل کر ان کو مسلمان ہونے کی سند دیتے ہیں۔ اور توہین رسالت کے نام پر اپنے معتقدین کو بھڑکاتے پھرتے ہیں۔ سوچنے کی بات ہے کہ، جو نابالغ بچیاں خود اپنے مذہب کو نہیں جان پاتی، بقول میاں مٹھو ان کو اچانک سے راتوں میں خواب آنے لگتے ہیں، کہ مسلمان بن جائیں۔ اور وہ اس مولوی کے پاس آکر حاضر ہوتی ہیں، کہ ہمیں مسلمان بناؤ۔

میاں مٹھو نے ایسے دھول دنیا کی آنکھوں میں جھونک کر بہت سی نابالغ ہندو بچیوں کو جبری طور پر مسلمان کیا ہے۔ اور ان کو اس قدر ڈرایا دھمکایا جاتا ہے، کہ جب وہ عدالت میں پیش ہوتی ہیں، تو روتی ہوئی آنکھیں، اور دبی ہوئی مسکراہٹ کے ساتھ یہ ماننے پر مجبور ہو جاتی ہیں کہ، انہوں نے یہ فیصلہ خود اپنی رضا سے کیا ہے۔ اس کے علاوہ میاں مٹھو نے ایک اور بیڑا اٹھایا ہوئا ہے کہ، وہ کوئی بہانہ ڈھونڈ کر ہندو لوگوں پر توہین رسالت کے الزامات لگاتا ہے، تاکہ وہ یا تو اپنی دھرتی کو خیرآباد کہہ کر چلے جائیں، یا جیل کے سلاخوں کے پیچھے سڑتے رہیں۔

میاں مٹھو نامی شخص اور اس کے ہم عصروں کو اقلیت کا لفظ ہی ہضم نہیں ہوتا۔ وہ چاہتا ہے کہ آگے پیچھے دائے بائے صرف مسلمان ہی مسلمان ہوں۔ کوئی رام رام کرے تو سمجھو وہ جینے کا حق ہی نہیں رکھتا۔ ابھی تازہ ہی واقعہ ہوئا ہے کہ ایک سینیئر معلم نوتن مل جو کہ پچھلے تیس سال سے اپنی ذمے داری نبھا رہا تھا، اس پہ ایک طالب علم احتشام کے ذریعے کسی معمولی سی بات پر وڈیو رکارڈ کروا کر، اسے پہ توہین رسالت کا الزام لگا دیا گیا ہے۔

اور جوں ہی الزام لگانا تھا کہ بات جنگل میں آگ کی طرح پھیلا دی گئی۔ اور تاحال ثابت نہ ہونے کے باوجود بھی، وہاں کے ہی لوگ خاطری سے یہ بات کہتے ہیں کہ، عبدالحق عرف میاں مٹھو کے سکھائے ہوئے انتہاپسند لڑکوں نے شہر بھر میں ایک خوفناک ماحول پیدا کر دیا۔ مندروں کی توڑ پھوڑ کی، ٹائر جلائے، اور ایک خوف کا سماں پیدا کردیا۔ نہ کوئی تحقیق کی نہ کوئی جاچ پڑتال ہوئی، اور اس سینئر معلم کو انہون نے ایک مجرم ٹھرادیا اور گرفتار کردیا۔

میاں مٹھو تو سنہ 2008 کو رکن قومی اسمبلی بھی رہہ چکے ہیں۔ پر جوں ہی ان کے بارے میں یہ شوشہ عام ہوا کہ وہ جبری مذہبی تبدیلیاں کرواتے ہیں تو، پیپلزپارٹی نے ان کی رکنیت معطل کر دی۔ یہ پی ٹی آئی میں بھی جانا چاہتے تھے، پر ان کی کھلی مخالفت کی وجہ سے ان کو ٹکٹ نہیں ملی۔ میاں مٹھو کے والد عبدالرحمان کی وفات کے بعد جب اس کے سوتیلے بھائی کو ﺩﺭﮔﺎﮦ ﻋﺎﻟﯿﮧ ﺑﮭﺮﭼُﻮﻧﮉﯼ کا گدی نشیں بنایا گیا توانہیں قتل کر دیا گیا تھا۔

اس کے بعد میاں مٹھو سگے بھائیوں سمیت نقل مکانی کر کہ ڈھرکی میں آباد ہوا۔ ان کو درگاہ میں جانے تک کی اجازت نہ تھی۔ پھر ﺣﺮﻭﮞ ﮐﮯ ﺭﻭﺣﺎﻧﯽ ﭘﯿﺸﻮﺍ ﺷﺎﮦ ﻣﺮﺩﺍﻥ ﺷﺎﮦ ﻋﺮﻑ ﭘﯿﺮ پگاﮌﻭ ﻧﮯ ﺳﻮﺗﯿﻠﮯ ﺑﮭﺎﺋﯿﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺻﻠﺢ ﮐﺮﺍﺋﯽ، ﺗﺐ جا کہ ﻣﯿﺎﮞ ﻣﭩﮭﻮ ﮐﻮ ﺩﺭﮔﺎﮦ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﯽ ﺍﺟﺎﺯﺕ ﻣﻠﯽ۔ یہ خود کو پیر مانتے ہیں اور دعوی کرتے ہیں کہ سال میں دو سو سے زائد ہندو ان کہ پاس آکر اسلام قبول کرتے ہیں۔ جب رنکل کماری کی جبری مذہبی تبدیلی کا معاملہ ہوا، اور اغوا ہوجانے کے بعد وہ میاں مٹھو سے بر آمد ہوئے تو ہر سو یہ بات پھیل گئی کہ، میاں مٹھو پیر نہیں، دراصل ایک جبری مذہبی تبدیل کروانے والے انتہاپسند ہیں۔

دو سگی بہنیں رینا روینا کی ڈرامائی انداز میں دو مسلمان بھائیوں سے شادی کر کہ مسلمان ہونے کے الزامات بھی میاں مٹھو پر لگے۔ حالیہ جو گھوٹکی میں کشیدگی ہوئی اور جب مشتعل افراد نے شہر پر دھاوا بول دیا، اور مندروں میں توڑ پھوڑ کی، تب بھی یہ مطالبہ زور پکڑ گیا ہے، کہ میاں مٹھو کو گرفتار کرو۔ توہین رسالت کے الزامات کا مرتکب تو مسیحی خاتون آسیہ بی بی کو بھی ٹھہرایا گیا تھا، پر کئی سالوں کی قید کے بعد اب جا کہ یہ ثابت ہو پایا کہ، وہ دراصل بے گناہ تھی۔ خدارا مذہب کے نام پر دہشت پھیلانے والوں کو بھی تو ایک دفعہ گرفتار کرنے کی ہمت کرو، جس طرح کسی معلم یا کسی مسیحی خاتون کو کرتے ہو۔ فیض آباد میں دھرنا دے کر ریاست کو یرغمال بنانے والے اگر تحریک لبیک کے سربراہ خادم رضوی گرفتار ہو سکتے ہیں، تو پھر میاں مٹھو کیوں نہیں ؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).