تبدیلی حکومت کے سقراط


یا اللہ اہل وطن سے وہ کون سا گناہ سرزد ہو گیا جو کسی صورت معاف نہیں ہو رہا اور ہمارے ایسے رہنماؤں سے پالا پڑ گیا ہے جو راہ دکھانے سے تو قاصر ہیں مگر تباہ کرنے پر تُلے ہوئے ہیں اور ان کے اسلوب قیادت نے قوم کے لیے سامان ملامت فراہم کیا۔ یا اللہ وہ کون سا جرم ہو گیا جس کی سزا بھگتتے برسوں بیت گئے، ہم ایسی سیاسی مہاشوں کے ہتھے چڑھ گئے جن کے ہاتھ میں سیاسی پیشوائی آئی ہے مگر ہمارے حصے میں رسوائی آئی ہے۔

ہمارا معاشرہ اس وقت ”درد زہ“ کی کیفیت میں ہے ہر دوسرا شخص پریشان ہے۔ جس سے پوچھیں پہلے وہ ہاتھ پھیلا کر اللہ سے معافی مانگتا ہے پھر تبدیلی سرکار کو صلواتیں سناتا ہے۔ عمران خان نے اقتدار میں آنے سے قبل عوام کو جو سبز باغ دکھائے تھے ان میں پھول تو دور کی بات ”پتیاں“ بھی نہیں لگ سکی ”ان خوابوں کی تعبیر بڑی بھیانک نکلی۔

ارباب اقتدار نے تبدیلی کا نعرہ لگایا دل پر ہاتھ رکھ کر پشاور سے کراچی تک ارباب حکومت اور پوری سیاسی قیادت پر نظر ڈالیں پھر سچ بتائیے کوئی ایک بھی ایسا ہے جس کے منہ سے نظام بدلنے کی بات زیب دیتی ہو۔

عمران خان صاحب نظام بدلیں گے جو ہر بات پرایک سو اسی زاویے کا ٹرن لیتے ہیں اور پھر سینہ تان کر کہتے ہیں کہ جو یو ٹرن نہ لے وہ لیڈر نہیں بنتا۔ کیا شاہ محمود قریشی نظام بدلیں گے جو اپنے مریدوں سے ”نذرانہ“ وصول کرتے ہیں۔ کیا فیصل واڈا نظام بدلیں گے جن کی اربوں روپے کی پراپرٹی بیرون ملک ہو اور منی ٹریل کا اتہ پتہ نہ ہو؟ کیا مخدوم خسرو بختیار نظام بدلیں گے جو ہر حکومت کا حصہ رہے؟ کیا زبیدہ جلال تبدیلی نظام میں حصہ ڈالیں گی جن پر مشرف دور میں توانا پاکستان پروگرام میں اربوں روپے کی کرپشن کے الزامات لگے تھے؟

اسمبلیوں کی موجودگی میں نظام حکومت آرڈیننس کے سہارے چلے منتخب اداروں کے ہوتے ہوئے ٹیکس اور کرنسی ویلیو ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف کی سفارش بلکہ درست تر الفاظ میں ”حُکم“ پر طے ہو، غیر منتخب مشیر اور دوست پوری کابینہ کو بائی پاس کریں اور مُلک کا چیف ایگزیکٹو منہ بھر کر عوام کی بجائے فوج کو اپنا حامی اور بنیاد قرار دیتا پھرے وہاں معمول کا سیاسی نظام گوبھی کا پھول نہیں توڑ سکتا کجا کے خارجی جارحیت کا منہ موڑ سکے۔ یہ سارے اسباب اس بات کا پتہ دے رہے ہیں کہ وزیراعظم کلی طور پر بے اختیار ہے وزیراعظم صرف کٹھ پتلی کا کردار ادا کر رہے ہیں۔

احتساب کا عمل یک طرفہ چل رہا ہے تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے اراکین اسمبلی اپنی ہی حکومت پر تنقید کر رہے ہیں کہ اگر احتساب صرف شریفوں اور زرداری خاندان کا کرنا ہے تو اسے بند کر دینا چاہیے نیب وزیراعظم کی منجی تھلے ڈانگ پھیرنے سے قاصر ہے کابینہ کے اراکین جن میں فیصل واڈا، مخدوم خسرو بختیار اور پرویز خٹک شامل ہیں آخر نیب اُن کے خلاف ریفرنس کیوں دائر نہیں کرتا۔

معشیت ڈانوں ڈول ہے اس پر درس فوج کے ترجمان دے رہے ہوتے ہیں۔ آج بنگلہ دیش معاشی اعتبار سے ہم سے بہتر پوزیشن میں ہے اس کے فارن ریزرو ہم سے زیادہ ہیں اس کی کرنسی ہم سے مضبوط ہے جب کہ بنگلہ دیش تو ہندوستان کے نرغے میں رہا ہمیشہ آفات کی زد میں رہتا ہے اس کی شرح خواندگی ہم سے زیادہ ہے ہر لحاظ سے وہ ہم سے بہتر ہے۔ اس لیے کہ بنگلہ حکومتوں نے تھوک کے پکوڑے نہیں بنائے بلکہ عملی کام کر دکھایا۔

وزیراعظم کے چاہنے والے اُنھیں سقراط سے تشبیہ دے رہے ہیں مگر کوئی اُن سے پوچھے سقراط نے مشرف باقیات کو اپنی کابینہ میں اہم عہدے نہیں دیے تھے، سقراط نے منتخب حکومت کے خلاف سازش کر کے دھرنا نہیں دیا تھا، سقراط نے کسی جج کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کا نہیں کہا تھا، سقراط نے کسی آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع نہیں کی تھی، سقراط نے زندگی میں کبھی یوٹرن نہیں لیا تھا۔

فلک کو سالوں گردش میں رہنا پڑتا ہے تب جا کر خاک کے پردے سے کوئی سقراط نکلتا ہے، سقراط جیسے لوگ زمین کا نمک ہوتے ہیں یہ موتی ساحل کی ریت سے نہیں ملتے انھیں سمندر کی تہہ میں اتر کر تلاش کیا جاتا ہے۔ یہ لوگ پیکر تو خاکی رکھتے ہیں مگر اندیشہ ان کا افلاکی ہوتا ہے۔

بشارت راجہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بشارت راجہ

بشارت راجہ شہر اقتدار سے پچھلی ایک دہائی سے مختلف اداروں کے ساتھ بطور رپورٹر عدلیہ اور پارلیمنٹ کور کر رہے ہیں۔ یوں تو بشارت راجہ ایم فل سکالر ہیں مگر ان کا ماننا ہے کہ علم وسعت مطالعہ سے آتا ہے۔ صاحب مطالعہ کی تحریر تیغ آبدار کے جوہر دکھاتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ وسعت مطالعہ کے بغیر نہ لکھنے میں نکھار آتا ہے اور نہ بولنے میں سنوار اس لیے کتابیں پڑھنے کا جنون ہے۔

bisharat-siddiqui has 157 posts and counting.See all posts by bisharat-siddiqui