امجد اسلام امجد کی پچھترویں سالگرہ


ویسے تو پچھتر برس کا ہونا کسی بھی عمر میں کوئی مناسب بات نہیں۔ اس لئے کہ ستر، بہتر کی عمرسے ان نامعقول محاوروں کا آغاز ہو جاتا ہے جن کا ذکر کم از کم اس تحریر میں مناسب نہیں۔ پھر بقول طارق عزیز ”دکھتے کانوں اور بہتی آنکھوں“ سے زندگی کا کیا خاک لطف۔ لیکن اگر بالفرض محال آپ کو پچھتر برس کا ہونا ہی پڑ جائے تو پھر آپ کو امجد اسلام امجد کی طرح پچھتر برس کا نوخیز نوجوان ہونا چاہیے۔ تین چیزیں ولولہ، امنگ اور حوصلہ جوانہیں اس عمر میں میسر ہیں ان کی یہ شدت تو ہم کبھی عین عالم جوانی میں، خواب بھی نہ دیکھ سکے تھے۔ گرچہ یہ بات درست ہے کہ ہم بچپن سے انہیں ”انکل امجد“ کہتے ہیں اور ہمارے دیکھا دیکھی ان کی کئی ہم عمر، چنچل خواتین نے بھی یہ وتیرہ اختیار کر لیا لیکن اس سے ان تین چیزوں میں قطعاً کوئی فرق نہیں آیا جس کا ذکر مندرجہ بالا تحریر میں آ چکا ہے۔

بہت ٹیلنٹد لوگوں کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ ان کے فن کی کئی جہات ہوتی ہیں۔ ہر پرت میں سے ایک نیا نویلا اور انوکھا فنکار برآمد ہوتا ہے۔ ایسے لوگ ودیعت کردہ فنون کی الگ، الگ شناخت میں عمرگزاردیتے ہیں۔ امجد اسلام امجد کے ساتھ یہ مسئلہ نہیں ہے۔ اس لئے کہ وہ نہ صرف ہرفن کو بام کمال تک پہنچاتے ہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ہمہ وقت اظہار کے نت نئے رستے بھی تراشتے رہتے ہیں۔ تعلیم ہو یا تدریس، ڈرامہ ہو یا غزل، نظم ہو یا کالم، سفر نامہ ہو یا سیاست پر بحث، ملازمت ہو یا مشاعرہ، تراجم ہوں یا تنقید، ادبی مباحث ہوں یا احباب کی محفل۔ یہ ہر جگہ اوج کمال پر نظر آتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کبھی کسی صنف سخن میں فن پر سمجھوتہ نہیں کیا۔ کبھی بات ادھوری نہیں کی۔ کبھی خیال خام کوسپرد قلم نہیں کیا۔

لاہور کے جس ہوٹل میں ”انکل امجد“ کی پچھترویں سالگرہ کا اہتمام کیا گیا تھا۔ اس کا پتہ ”انکل امجد“ خود پوچھتے پائے گئے۔ اس لیے کہ وہ خود اس تقریب سے بالکل بے خبر تھے۔ اس انصرام سے ان کی بے خبری کا یہ عالم تھا کہ وہ ”انکل امجد، انکل امجد“ کہنے والی شوخ، چنچل اور منتظر فینز کے درمیان ”بیگم امجد“ کو بھی ہمراہ لے آئے تھے۔ شہر کے اس نامی گرامی ہوٹل کے ہال میں لاہور شہر میں دستیاب، علم و فن کے سب درخشاں ستارے اس ”سرپرائز“ کو دامن میں چھپائے ”انکل امجد“ کا انتظار کر رہے تھے۔

احباب کے اس انبوہ میں شاعر بھی تھے، محقق بھی، مزاح نگار بھی تھے اور مزاحیہ فنکا ربھی، فلم ساز بھی تھے اور فلمی اداکار بھی۔ شعلہ بیان صحافی بھی تھے اور درویشن منش بزرگ بھی۔ دعا کرنے والے بھی تھے اور دعا دینے والے بھی۔ نوجوانوں کی ایک کثیر تعداد جو صاحب سالگرہ کی محبت کی نظمیں پڑھ کر جوان اور امتحانات میں فیل ہوئی، وہ بھی ایک بڑی تعداد میں خراج پیش کرنے کو موجود تھے۔ خواتین میں صرف وہ شاعرات مدعو تھیں جو خود شعرکہتی ہیں۔

تقریب میں ایک سکرین پر دنیا بھر کے ان مشاہیر کی وڈیو بھی دکھائی گئی جنہوں نے اس سالگرہ کے موقعے پر اپنے پیغامات تہنیت ریکارڈ کروائے تھے۔ بھارت کی دو قد آور ادبی شخصیات ان میں نمایاں تھیں۔ معروف شاعر گلزار اور جاوید اختر نے جس محبت سے امجد اسلام امجد کا ذکر کیا وہ ہم سب کے لئے قابل فخر ہے۔ اس کے بعد مائیک حاضرین کے سپرد کر دیا گیا۔

ہر نامور شخص نے حتی المقدور فن امجد پر روشنی ڈالی۔ چند جملے جو یاد رہ گئے وہ تحریر کر دیتا ہوں۔ ایک صاحب دانش نے کہا کہ ”یہ کہنا درست نہیں کہ امجد اسلام امجد کے ڈرامے جب ٹی وی پر چلتے تھے تو سڑکیں ویران ہو جاتی تھیں بلکہ یہ کہنا زیادہ مباح ہو گا کہ امجد اسلام امجد کے ڈرامے جب ٹی وی پر چلتے تھے اس وقت گھر آباد ہو جاتے تھے“۔ ایک صاحب امجد اسلام امجد کی ہمہ جہت شخصیت کو مدں ظر رکھ کر کچھ اس طرح گویا ہوئے کہ ”امجد اسلام امجد دراصل دو امجدوں میں پھنسا ہوا اسلام ہے“ کچھ دوستوں نے امجد کی غزل کی تازگی پر بات کی اور کچھ ان کی نظم کی رعنائی پر گفتگو کرتے رہے۔ لیکن ان کی شخصیت کے دو اہم پہلو یعنی ”خوش خوارکی اور خوش مزاجی“ پر بات کم ہوئی۔

” انکل امجد“ شوگر کے مرض میں مبتلا ہیں مگر ان کی خوش خوارکی کو دیکھ کر لگتا ہے شوگر ان کی محبت میں مبتلا ہے۔ جو رونق ان کے چہرے پر ”سافٹ ڈرنک“ دیکھ کر آ جاتی ہے وہ بشاشت توممنوعہ ڈرنکس دیکھ کر ”عادی مجرموں“ کے چہرے پر نہیں آتی۔ کھانے کی میز پر جب تک میٹھا موجود ہے اس وقت تک ”انکل امجد“ موجود ہیں ”۔ میٹھا کھانا ان کے لئے ایک عام معاملہ نہیں بلکہ ایک عام معرکہ ہے۔ جسے وہ معرکہ شرو باطل بنا کر ہی دم لیتے ہیں۔ میز پر آخری گلاب جامن کو ٹھکانے لگا کر وہ ہمیشہ فتح یاب نگاہوں سے حاضرین کو فتح مبین کا پیغام دیتے کہتے ہیں کہ یہ گلاب جامن شر کی علامت تھے اور شر کا انجام وہی ہوا ہے جس کی بشارت دی گئی ہے کہ اسے بالآخر فنا ہو جانا ہے۔

” انکل امجد“ کی زندگی کا سب سے حسین پہلو ان کی اہلیہ فردوس امجد ہیں۔ جو التفات ان دونوں میں قریبا چالیس برس کی شادی کے بعد بھی موجود ہے اس پر رشک کیا جا سکتا ہے۔ حسد کی جا سکتی ہے۔ فخر کیا جا سکتا ہے۔ مذکورہ تقریب سالگرہ کے اختتام میں جب حاضرین اپنے زرین کلمات سے حاضرین کو نواز چکے تو کسی چلبلے نو جوان نے مائیک بیگم فردوس امجد کے حوالے کر دیا۔ سامعین نے بہت تالیاں بجائیں مگر ”انکل امجد“ بوجوہ سکتے میں آ گئے۔ بیگم فردوس امجد نے جس محبت سے اپنی زندگی کی مسرتوں کا ذکر کیا وہ سننے کے لائق تھیں۔ انہوں نے بتایا کہ اس ان پڑھ سماج میں شاعر کی بیوی ہونا کٹھن کام ہے اور معروف شاعر کی بیوی ہونا اس سے بھی کٹھن کام ہے۔ زندگی بہت سے امتحان لیتی ہے۔ لیکن انہوں نے بتایا کہ زندگی کے ہر امتحان میں امجد اسلام امجد ان کے ساتھ تھے۔ تمام وقت ایک چھاوں میں بسر ہوا۔ راہ میں کڑی دھوپ بھی تھی مگر ایک تناور درخت اگر آپ پر سایہ کیے ہو تو وقت کاٹنا نہیں پڑتا وقت کسی حسین خواب مانند بسر ہوتا ہے۔

امجد اسلام امجد کا ذکر ہو اور ”وارث“ کا ذکر نہ ہو یہ توممکن نہیں۔ لیکن اب وارث ڈرامے کی بات پرانی ہوگئی اب امجد اسلام امجد کے وارثین کی بات زیادہ سجتی ہے۔ ان وارثین میں روشین عاقب، تحسین ناصر اور علی ذیشان ہیں۔ آنے والے دور کے ادبی منظر نامے پر یہ ستارے دیر تک جگمگانے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ یہی ورثہ ہے امجد اسلام کا اور یہی تحفہ ہے امجد اسلام امجد کا۔

کسی کی سالگرہ پر وہ شعر پڑھنا اب ماضی کی روایت ہو گئی کہ جس کے مصرع اولی میں پہلے تو ہزار برس جینے کی دعا دی گئی ہے اور مصرع ثانی میں ہر سال کی مدت معیاد پچاس ہزار سال تک بڑھا دی گئی ہے۔ ہم اس موقع پر یہ دعا مانگنے کی توفیق تو نہیں رکھتے مگر اتنا ضرور چاہ سکتے ہیں کہ امجد اسلام امجد نے جس طرح محبت کے پیغام سے دلوں کو موم کیا ہے، محبت کی یہ آبشار اسی طرح سنگلاخ چٹانوں کو موم کرتی رہے۔ کیونکہ محبت کا یہ مسلسل پیام ہی ان کا اثاثہ ہے، یہی پیغام ان کی پچھتر سالہ عمر کا خلاصہ ہے۔
”ہم سب“ کے لئے خصوصی طور پر ارسال کردہ تحریر۔

عمار مسعود

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عمار مسعود

عمار مسعود ۔ میڈیا کنسلٹنٹ ۔الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا کے ہر شعبے سےتعلق ۔ پہلے افسانہ لکھا اور پھر کالم کی طرف ا گئے۔ مزاح ایسا سرشت میں ہے کہ اپنی تحریر کو خود ہی سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ مختلف ٹی وی چینلز پر میزبانی بھی کر چکے ہیں۔ کبھی کبھار ملنے پر دلچسپ آدمی ہیں۔

ammar has 265 posts and counting.See all posts by ammar