خیبرپختونخواہ، طالبات اور عبایہ


خیبرپختونحواہ چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق 2011 سے 2017 کے درمیان بچوں پر ہونے والے جنسی تشدد کے واقعات میں 70 فیصد لڑکو ں کو نشانہ بنایا گیا جبکہ 30 فیصد لڑکیوں کو۔ کیا لڑکوں کی حفاظت کے لئے بھی انھیں عبایہ یا برقع پہنے کا حکم صادر ہو گا؟ 2018 کی ساحل کی رپورٹ کے مطابق بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے سکولوں میں 44 واقعات ہوئے جبکہ مدرسوں میں 46 واقعات ہوئے۔ مددسوں میں رپورٹ کیے گئے جنسی ہراسانی کے واقعات کی تعداد سکولوں کی تعداد سے بھی زیادہ ہے حالانکہ مدرسوں میں پڑھنے والے بچوں کا لباس تو ”مناسب“ ہوتا ہے۔

اپنے لئے پردے کا انتخاب کرنا کسی کی ذاتی پسند ہوگی۔ لیکن حکومت کی طرف سے کسی کو پردہ کرنے کے لئے مجبور کرنا ایک بالکل الگ معاملہ ہے ہمارے پدرسری معاشرہ میں بہت سے لوگ ایسا سوچتے ہیں کہ خواتین کو مردوں کی ہراسانی سے بچنے کے لئے سخت پردے کی روایت پر چلنا چاہیے۔ یہ ایک خطرناک رجحان ہے یہ ا س رویے کو پروان چڑھانا ہے جس میں مرد ایک شکاری ہے اور عورت بے بس شکار۔ یہ انتہائی بدقسمتی ہے کہ بچوں کی تربیت پر دھیان دینے کی بجائے لڑکیوں پر ایسی پابندیوں کا نفاذ کیا جائے۔ لڑکوں کوگھروں اورسکولوں میں یہ تعلیم دینے کی ضرورت ہے کہ وہ دوسری صنف کا احترام کریں اس نے جولباس بھی زیب تن کیا ہو یہ ایک غیر متعلقہ معاملہ ہے۔ اس طرح بڑے ہو کروہ ذمہ دارشہری بنیں گے۔

بچوں کو سکولوں میں لائف سکل بیسڈ ایجوکشن دی جائے۔ طباعت کے وقت تمام ٹیکسٹ ُبک بورڈ زکی مختلف کتابوں میں خاکوں کی مدد سے بچوں کے تحفظ کے بارے میں پیغا مات درج ہوں۔ بچوں کی عمر کے مختلف مراحل کے لخاظ سے مواد کی تیاری کی جائے۔ بچوں کو جنسی زیادتی سے متعلق آگہی دینا یقینا انہیں اس بڑے خطرے سے بچانے میں مدد گار ثابت ہو سکتا ہے۔ اس آگہی کے نتیجے میں بچے ایسے کسی ممکنہ خطرے کے بارے میں اپنے والدین اور بڑوں کو آگا ہ کر سکتے ہیں۔

تین سال کی عمرسے بچے کو آگہی دینے کا یہ سلسلہ شروع کیا جا سکتا ہے۔ بچے کو اچھا اور بُرا چھونے کے بارے میں بتایا جاسکتا ہے۔ پھر عمر کے مختلف مراحل کے ساتھ آگہی کا یہ سلسلہ آگے بڑھایا جاسکتا ہے۔ یہ ایک مسلسل عمل ہے۔ غیر سرکاری تنظیمیں کئی سالوں سے بچوں کے جنسی استحصال کے بارے میں تحقیق، رپورٹنگ اور آگہی کا کام کر رہی ہیں۔ بچوں کے تحفظ کے لئے کام کرنے والی تنظیموں اور ماہرین سے اساتذہ کی اس مسئلے کے حل کے لئے ا ستعدادِ کار بڑھانے کی تربیت کرائی جائے۔

سکولوں کی چائلڈ پروٹیکشن پالیسی میں جسمانی سزا اور ذہنی زیادتی پر بھی واضح بات ہونی چاہے۔ اگر بچوں پر جسمانی تشدد کیا جاتا ہے تو وہ جنسی ہراسانی یا جنسی زیادتی کے بارے میں بول نہیں پائیں گے۔ سکولوں کی چائلڈ پروٹیکشن کمیٹی میں حساس اساتذہ، والدین اور بچوں کی جذباتی صحت کے ماہر کی ضرورت ہوتی ہے۔ سکولوں کی طرح مدارس میں بھی چائلڈ پروٹیکشن پالیسی بنائی جائے جہاں تقریباً 50,000 بچے زیر تعلیم ہیں۔

بچوں کے تحفظ کے مسئلہ کی تہہ اوراس کے حل تک پہنچنے کے لئے سنجیدہ اقدامات کی ضروت ہے۔ ریاستی اداروں کو عورتوں اور بچیوں کے جسم کو موضوع بنانے کی بجائے ہراساں کرنے والوں کو قانون کے مطابق سزا دینی چاہے۔ صوبوں میں چائلڈ پرو ٹیکشن یونٹس مضبوط ہو نا چاہیے۔ واضح چائلڈ پروٹیکشن پالیساں بننی چاہیے۔ بچوں کے تحفظ کے حوالے سے اس معاملے کو ترجیحی بنیادوں پر دیکھنے کی ضرورت ہے کہ صوبوں میں فعال چائلڈپروٹیکشن پالیسی بنانے اوران پرعمل درآمد میں کیا مسائل درپیش ہیں۔

آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 25 ( 3 ) اور اقوام متحدہ کے معاہدہ برائے حقوق ِاطفال کے آرٹیکل 19 کے مطابق یہ ریاست ِپاکستان کی ذمہ داری ہے کہ ملک میں موجود تمام بچوں کو ہر قسم کا تحفظ حاصل ہو۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں اس مقصد کے حصول کے لئے مضبوط حکمت عملی اپنائیں اور ترجیحی بنیادوں پر وسائل مہیا کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2