فلسفی، سائنس دان اور خرد افروزی کے پیامبر ماریو بنگے کی صد سالہ سالگرہ


آج ارجنٹائن میں پیدا ہونے والے سائنس دان فلسفی ماریو بنگے کی صد سالہ سالگرہ ہے۔ (اس کے نام کا تلفظ بوں گھے کیا جاتا ہے)۔

کارل پوپر کی کتب کے مطالعے کے دوران میں جن اور صاحبان علم و دانش کے نام سے تعارف ہوا ان میں ایک نام ماریو بنگے کا تھا۔ پوپر کی طرح بنگے بھی فلسفے کی اسٹیبلشمنٹ کے تغافل کا شکار ہوا ہے۔ اگرچہ براعظم جنوبی امریکہ سے تعلق رکھنے والا وہ پہلا فلسفی ہے جسے بین الاقوامی شہرت نصیب ہوئی ہے لیکن جتنا وسیع اور عمیق اس کا کام ہے اس قدر اس کی تحسین نہیں کی گئی۔ اس کی تصنیفات کو ابھی تک فلسفیانہ نصابات میں جگہ نہیں مل سکی۔ اگرچہ اسے بہت سے اعزازات و انعامات سے نوازا گیا ہے لیکن حق یہ ہے کہ اس کے افکارکو اپنی وسعت اور عمق (گہرائی) کے پیش نظر جس طرح تنقیدی مباحث کا موضوع بننا چاہیے تھا ویسا نہیں ہوا۔

بنگے مصلحت اور موقع شناسی سے بھی خاصی حد تک عاری رہا ہے۔ فلسفیانہ کانفرنسوں میں بے دھڑک اور بلاجھجھک اپنے موقف کا اظہار کرنے کی عادت کی بنا پر فلسفیانہ حلقوں میں اسے پسند نہیں کیا جاتا تھا۔ مشہور امریکی فلسفی قوائن نے اپنی سوانح عمری میں پچاس کی دہائی میں پیرو میں ہونے والی کانفرنس کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس کانفرنس کی خاص بات ارجنٹائن کا فلسفی ماریو بنگے تھا جو کانفرنس پر چھایا ہوا تھا اور وہ ہر پڑھے جانے والے مضمون پر اپنی اختلافی رائے بیان کر رہا تھا۔

ماریو بنگے 21 ستمبر 1919 کو بیونس آئرس، ارجنٹائن میں ایک پڑھے لکھے خوش حال گھرانے میں پیدا ہوا۔ اس کے والدین کی خواہش تھی کہ وہ دنیائے علم کا عالمہ شہری بنے اس لیے اس کو ابتدا سے ہی چھ زبانوں، ہسپانوی، انگریزی، فرانسیسی، اطالوی، جرمن اور لاطینی میں لکھنا پڑھنا سکھایا گیا۔ اس کا یہ فائدہ ہوا کہ وہ دنیا کے بہترین کلاسیکی ادب اور جدید مصنفین کو ان کے اصل الفاظ میں پڑھنے کے قابل ہو گیا۔ بہت برسوں بعد اس نے ایک کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے افسوس کا اظہار کیا تھا کہ مصنف نے صرف انگریزی زبان میں میسر تراجم پر انحصار کیا ہے حالانکہ اسے اچھی طرح معلوم ہے کہ یہ تراجم از حد ناقص ہیں۔ علمی رسوخ اور گہرائی کے لیے اس کے نزدیک لازم ہے کہ بنیادی ماخذات کو ان کی اصل زبان میں پڑھا جائے۔

اپنی خود نوشت میں اس نے ارجنٹائن کی تعلیم کی جو صورت حال بیان کی ہے اس سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ فلسفہ اور سائنس میں اتنا بڑا براعظم ایک بے آب و گیاہ ویرانہ کیوں ہے۔ نوبل انعام یافتہ سائنس دان رچرڈ فین مین نے بھی برازیل کی تعلیمی صورت حال کا جو نقشہ کھینچا تھا وہ خاصا یاس انگیز تھا۔

بنگے اپنے استادوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ بہت کم لوگ ایسے تھے جو تعلیم کو طالب علم کے لیے ایک مسرت آگیں تجربہ بنانے میں دلچسپی رکھتے ہوں۔ زیادہ تر ہماری تخلیق اور جستجو کی صلاحیت کو انگیخت کرنے کے بجائے ہمیں سدھانے پر مصر تھے۔ تعلیم میں رٹے پر زور تھا۔ ایک ادنیٰ درجے کی نظم کو یا بے مزہ اور بے لطف نصابی کتاب کے صفحہ کو یاد کر لینا بہت کمال سمجھا جاتا تھا۔ استاد سے مسئلے کا حل دریافت کرنے یا کسی معاملے کی وضاحت طلب کرنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ ہم اپنے استادوں کا اتنا احترام نہیں کرتے تھے جتنا ان سے خوف زدہ ہوتے تھے۔ زیادہ تر کو تعلیم و تدریس سے کوئی دلچسپی نہیں تھی اور بعض تو اہلیت ہی سے محروم تھے۔

 کالج اور یونیورسٹی میں بنگے نے طبیعیات ، ریاضی اور تحلیل نفسی کے مضامین کی تعلیم حاصل کی۔ اس کی خوش قسمتی تھی کہ یونیورسٹی میں اسے گیڈو بیک جیسا استاد مل گیا جو آسٹریا سے فرار ہو کر ارجنٹائن آ گیا تھا۔ وہ ہائزن برگ کا شاگرد تھا۔ اس سے بنگے نے نیوکلیر اور اٹامک فزکس پڑھی۔ 1952 میں اس نے فزکس میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ وہ ارجنٹائن کی یونیورسٹی میں وہ طبیعیات کا پروفیسر تھا، اس کے بعد متعدد امریکی یونیورسٹیوں میں تدریسی فرائض انجام دینے کے بعد 1966 میں کینیڈا کی مونٹریال یونیورسٹی میں فلسفے کا پروفیسر مقرر ہوا اورابھی تک اسی سے وابستہ ہے۔

ماریو بنگے کے تصنیفی سرمائے کا پھیلاو حیرت انگیز ہے۔ فی زمانہ شاید ہی کوئی فلسفی اس کا مقابلہ کر سکے۔ علم کا کوئی شعبہ اس کی دسترس سے باہر نہیں اور وہ کسی گھر بند نہیں۔ بنگے نے جن موضوعات پر خامہ فرسائی کی ہے ان کی فہرست بہت طویل ہے۔ کوانٹم فزکس سے شروع کرتے ہوئے اس نے مابعد الطبیعیات، فلسفہ طبیعیات، فلسفہ سائنس، منہاجیات، فلسفہ ریاضی، فلسفہ نفسیات، سماجی علوم کے فلسفے، ٹیکنالوجی کے فلسفے، بیالوجی کے فلسفے، سیاسی اور سماجی فلسفے سمیت نہ جانے کن کن موضوعات پر ماہرانہ اظہار رائے کیا ہے۔ اس نے ( Treatise on Basic Philosophy ) کی آٹھ جلدوں میں ایک جامع فلسفیانہ نظام پیش کیا ہے۔ اس تمام تر پھیلاو اور وسعت کے باوجود اس کی تحریریں کسی حاطب اللیل کی ٹامک ٹوئیاں نہیں بلکہ ٹھوس علم پر مبنی اور ذہن کو جلا بخشنے والی ہیں۔

یہ افسوسناک حقیقت ہے کہ بیسویں صدی کے درس گاہی فلسفے میں غالب رجحانات خرد دشمنی پر مبنی رہے ہیں۔ بنگے کا شمار ان معدودے چند فلسفیوں میں ہوتا ہے جو تمام عمر خرد دشمن فلسفوں سے نبرد آزما رہا ہے۔ وہ ان نام نہاد فلسفیانہ تحریکوں کے خلاف ہے جو اس کی نظر میں جو سائنس اور عقل کی تنقیص کرتی ہیں۔ ان فلسفیانہ تحریکوں میں رومانیت کے اثرات نمایاں ہیں۔ عقل پر بالخصوص سائنس اور منطق پر بد اعتمادی، موضوعیت، یعنی دنیا وہی ہے جو ہم سوچتے ہیں، اضافیت، یعنی آفاقی قوانین اور صداقتوں کے وجود سے انکار، علامت، اسطور، استعارہ کے ساتھ جنون کی حد تک وابستگی، ترقی کے امکان سے انکار، اور بالخصوص علم کی ترقی سے انکار۔

اس کے برعکس ماریو بنگے خرد افروزی کی تحریک کاعلم بردار ہے۔ اس کے نزدیک خرد دشمنی کا بڑھتا ہوا رجحان تشویش ناک ہے۔ وہ تمام عمر ان رجحانات کے خلاف لکھتا رہا ہے۔ وہ فلسفے میں ہیگل، نطشے اور ہائیڈیگر کے روزافزوں اثرات کے خلاف مورچہ زن رہا ہے۔ بنگے اسی فیصد کارل پوپر سے متفق تھا اور بیس فیصد اس کا اختلاف تھا لیکن وہ اس اختلاف کو زیادہ شد و مد سے بیان کرنے کا قائل تھا۔

اپنی فلسفہ طرازی میں وہ تمام تر تفاصیل کو پیش نظر رکھتا ہے، منطق کو دلائل کی وضاحت اور توضیح کے لیے استعمال کرتا ہے، صحیح اور غیر صحیح دلائل میں فرق و امتیاز کرتا ہے۔ اس کی کوشش ہے کہ ایک مکمل تصویر بنائی جائے جس میں وجودیات، مابعد الطبیعیات ، علمیات، نفسیات اور دیگر علوم ایک دوسرے سے ہم آہنگ ہوں۔

 وہ اس نقطہ نظر کا حامل ہے کہ طبیعیات فلسفے سے صرف نظر نہیں کر سکتی جیسے فلسفہ طبیعیات اور دیگر طبعی علوم کو نظر انداز کرکے ترقی نہیں کر سکتا۔ اس لیے صحیح فلسفہ اور سائنس کا ایک دوسرے کے ساتھ تعامل بہت ثمر آور ہوتا ہے۔ فلسفے کے بغیر سائنس گہرائی سے محروم ہو جائے گی اور سائنس کے بغیر فلسفہ اپنا فطری بہاو کھو کر جمود کا شکا ر ہو جائے گا۔

میں ماریو بنگے کو اس کی صد سالہ سالگرہ پر مبارک باد دیتا ہوں۔ اس کی سترسے زاید کتابیں اور پانچ سو سے زاید مقالات شائع ہو چکے ہیں اور خوشی کی بات ہے کہ یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔ اس برس بھی اس کے تین مقالات شائع ہوئے ہیں۔ تین برس پہلے 2016 میں اس کی خود نوشت سوانح (Between Two Worlds-Memoirs of a Philosopher-Scientist ) بھی شائع ہو چکی ہے۔ مضمون کا اختتام ماریو بنگے کے ایک جملے پر کرنا چاہوں گا جو اس کی صد سالہ سالگرہ کے ارمغان کے طور پر شائع ہونے والی کتاب سے لیا ہے:

The defence of rationality is today just as necessary as it was in past epochs. Remember that Athena wore a helmet.


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).