اس صحافی کی لاہوری بیوی برطانیہ کی شہزادی تھی


وہ اخبار میں میرے ساتھ کام کرتا تھا، قلم میں روانی تھی، ترقی پسندانہ اور لبرل سوچ کا مالک تھا، جی چاہتا تو شاعری بھی شروع کر دیتا، کئی ادبی، فلمی اور ثقافتی جرائد کا ایڈیٹر رہا، ادب کی دنیا میں اس کے دوستوں کا وسیع حلقہ تھا۔ دوستوں میں وہ ہر دلعزیز بھی تھا، ادیبوں شاعروں سے ہی نہیں اس کا میل ملاپ فلم نگر کے لوگوں سے بھی تھا۔ ایک رات میں مصطفیٰ قریشی صاحب کے گھر گیا تو وہ پہلے سے موجود تھا اور قریشی صاحب کے صاحبزادے عامر کو شاعری سکھا رہا تھا، مجھے جب بھی ملتا بانہیں کھول کر ملتا۔

قتیل شفائی اور سعید شاہد بٹ مرحوم بھی اس سے بہت پیار کرتے تھے۔ اس کا سب سے بڑا مشغلہ اپنی بیوی کی تعریف کرتے رہنا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ وہ دنیا کی سب سے حسین عورت کا خاوند ہے۔ برطانیہ کے شاہی خاندان کی خواتین میں بھی اپنی اہلیہ کے مقابلے میں خامیاں تلاش کر لیا کرتا تھا، ایک بار اس نے اپنے گھر میں ڈنر کا اہتمام کیا۔ اس کی بیوی نے بہت سارے لذیذ پکوان اپنے ہاتھوں سے تیار کیے تھے۔ جب سب لوگ ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھ گئے اور کھانا شروع ہو گیا تو اس نے اپنی بیوی سے کہنا شروع کر دیا ”دیکھو کسی کی پلیٹ خالی تو نہیں؟

سب بے تکلفی سے کھا رہے ہیں یا نہیں؟ بیوی نے دو چار بار تو بات سنی ان سنی کر دی مگر جب وہ مہمانوں کا دھیان رکھنے پر اصرار کرتا رہا تو بیوی نے جواب دے ہی دیا ”دیکھو! مجھے کھانا بنانا تو آتا ہے، کسی کو زبردستی کھلانا نہیں آتا۔ ڈنرکے دوران اس نے اپنی بیگم کا مہمانوں سے تعارف کراتے ہوئے بتایا کہ اس کی اہلیہ ایرانی نژاد ہے، بھابی واقعی پاکستانی نہیں لگتی تھی، اس ا چہرہ اس کے بال، اس کا سراپا سب کچھ شوہر کی بات کی گواہی دے رہا تھا۔

اگلے دن نیوز روم میں کام کے دوران اس نے مجھ سے سوال کیا ”کیسی لگی بھرجائی؟ بہت اچھی، بہت ہی نفیس“ میرے جواب کے باوجود اس نے شرارتی آنکھوں سے اپنا سوال دہرایا تو میں کچھ نہ بولا، پھر کیا تھا اس نے اس سوال کو روزانہ کا وتیرہ ہی بنا لیا، ”، کیسی لگی تمہیں تمہاری بھابی؟ میں دبے الفاظ میں اپنا معمول کا جواب دہرا دیتا، لیکن میں تنگ آ چکا تھا اس کے اس سوال سے۔ بالآخر ایک دن میرے صبر کا پیمانہ ٹوٹ گیا اور اس کے سوال کے جواب میں کہہ ہی دیا، یار تم مجھ سے کیا جواب چاہتے ہو؟ خود بتا دو کہ میں تمہیں تمہارے اس سوال کا کیا جواب دوں؟ وہ ہنسا اور پھر کبھی یہ سوال میرے سامنے نہ رکھا۔

وہ اپنی بیوی کا انوکھاعاشق تھا۔ انیس سو بانوے میں مجھے بحثیت چیف نیوز ایڈیٹر لاہور سے لندن ٹرانسفر کر دیا گیا تو وہ بھی بیوی سمیت میرے پیچھے پیچھے چلا آیا، خوش قسمتی سے دونوں کو وہاں ملازمت مل گئی، میں نے اسے سنڈے میگزین کا انچارج بنا دیا، میگزین ایڈیٹر کی ذمہ داریاں سنبھالنے کے بعد اس نے مجھے کئی بار گھر میں ڈنر کی دعوت دی۔

میں اس لئے نہ جاتا کہ اس کا گھر میری ایسٹ ہام کی رہائش گاہ سے دو گھنٹوں کی مسافت پر ہے۔ میں لندن میں خود ڈرائیو نہیں کر تا تھا، آفس سمیت ہر جگہ آنا جانا ٹیوب (ٹرین) پر تھا۔ ایک دن آفس میں لنچ کے دوران مذکورہ دوست نے میرے سامنے اپنی بیوی کے بارے میں دھماکہ خیز انکشاف کیا، وہ کہہ رہا تھا کہ اس کی بیوی کا دادا انگلستان کا ایک لارڈ تھا۔ لندن کی ایک کاؤنٹی بھی اس کی ملکیت تھی۔ اس کے بیوی سمیت لندن آنے کامقصد یہی ہے کہ اس کاؤنٹی کی ملکیت واپس لی جائے۔

وہ برطانوی عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹائیں گے کیونکہ اب اس کی اہلیہ ہی ان جاگیروں کی قانونی وارث ہے۔ یہ سن کر مجھے اس کی دو سال پرانی بات یاد آگئی جب اس نے بتایا تھا کہ اس کی اہلیہ ایرانی نژاد ہے۔ کچھ مہینوں کے بعد میں لندن جیسے شہر میں تنہائیوں کا شکار ہوگیا، میں نے واپسی کا سوچنا شروع کر دیا، ہمارے ایڈیٹر انچیف نے وہاں میرا دل لگانے کے لئے ہزار جتن کیے، لندن میں ادارے کی طرف سے گھر خرید کر دینے کی پیشکش کی گئی، فیملی کو وہاں سیٹل کرانے کا کہا گیا، پاؤنڈز میں برطانوی لاء کے مطابق پر کشش تنخواہ، کلب، بار ”موسم، خوبصورت لڑکیوں کے غول اور خاص طور پر منافقت سے پاک لوگ، ہر چیز خالص، مگر مجھے یہ احساس رہتا تھا کہ یہ سب کچھ میرا نہیں۔

اور پھر ایک دن واپسی کا ٹکٹ کٹوا ہی لیا۔ دوستوں نے الوداعی پارٹیاں دیں، ایک ڈنر اسی دوست کے گھر بھی تھا، لگ رہا تھا جیسے لاہور میں انہی کے گھر دوسرا ڈنر کر رہا ہوں۔ کھانے کے دوران بھابی نے کہا ”“ بھائی آپ کے پاس زیادہ سامان نہ ہو تو میرا ایک بیگ بھی لاہور ساتھ لے جائیں، میں نے وہ بیگ لے لیا، بھابی نے اپنے بھائی کا فون نمبر دیتے ہوئے کہا کہ آپ یہاں کال کر دیجئے گا، بھائی بیگ خود لے جائے گا۔ بھابی کے بھائی کو دیکھ کر حیران تھا، اور بار بار اس سے پوچھ رہا تھا ”، کیا آپ واقعی بھابی کے سگے بھائی ہو؟

میں نے اسے سامان کا باکس تھماتے ہوئے یہ بھی پوچھا ”آپ کس شہر کے ہیں؟ جی اسی شہر کے جدی پشتی ہیں۔

ڈاکٹر مبشر حسن آج بھی چاک و چوبند ہیں، وہی ڈاکٹر مبشر جن کے گھر میں پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی گئی تھی، انہیں اس عمر میں بھی کوئی بیماری نہیں، البتہ ایک عارضہ انہیں شروع سے ہی لا حق ہے اور وہ ہے بلا وجہ سچ بولتے رہنا، وہ ایک منجھے ہوئے سیاستدان ہی نہیں پایہ کے اکانومسٹ بھی ہیں، غنویٰ بھٹو سے جا ملے تھے، ابھی تک اسی کے ساتھ ہیں، کچھ عرصہ پہلے ان سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے ایک کہانی سنائی تھی، آپ بھی سن لیں۔

کئی سو سال پہلے ایران میں ایک بادشاہ کی حکومت تھی، جب اس بادشاہ کا بیٹا جوان ہوا تو اس نے اسے ایک قریبی علاقہ فتح کرنے کے لئے بھیجا، شہزادے نے وہ علاقہ فتح کر لیا تو اپنے ایک مصاحب کو بادشاہ کے پاس یہ پیغام دے کر بھجوایا کہ علاقہ تو فتح ہو چکا، اب اس کے لئے اگلا حکم کیا ہے؟ مصاحب بادشاہ کے پاس پہنچا بادشاہ نے ملاقات کرنے کی بجائے اسے ایک آرام دہ گھر میں ٹھہرا دیا۔ کئی دن، کئی ہفتے بیت گئے، بادشاہ نے شرف باریابی نہ بخشا، پھر ایک دن بادشاہ شکار کے لئے نکلا تو شہزادے کے مصاحب کو بھی ساتھ لے گیا، شکار کے دوران بھی بادشاہ نے مصاحب سے کوئی بات نہ کی، شکار سے واپسی کے بعد بادشاہ نے مصاحب کو حکم دیا کہ وہ واپس شہزادے کے پاس چلا جائے، شہزادے نے مصاحب سے واپسی میں تاخیر کی وجہ پوچھی تو اس نے تمام ماجرہ کہہ ڈالا۔

اور بتایا کہ بادشاہ نے اس سے بات تک نہیں کی۔ شہزادے نے سوال کیا کہ شکار کے دوران کیا کیا ہوا؟ مصاحب نے بتایا کہ بہت سارے جنگلی جانور شکار کیے گئے، پھر بادشاہ سلامت ہری بھری فصلوں میں گئے اور وہاں تلوار بازی کا مظاہرہ کرتے رہیِ۔ ”کیا بادشاہ سلامت نے فصلوں کو تباہ کر دیا؟“ شہزادے کے سوال پر مصاحب نے بتایا کہ نہیں فصلوں کو تو ان کی تلوار سے کوئی نقصان نہ پہنچا، البتہ جن پودوں نے سر اٹھا رکھے تھے وہ تلوار سے ضرور کٹ گئے، شہزادے کو بادشاہ کا پیغام مل چکا تھا۔ اس نے اسی دن تمام با اختیار اورطاقتور لوگوں کے سر قلم کرا دیے۔
بشکریہ روزنامہ 92۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).