جی ہاں ہم محبت کا راز بخوبی جانتے ہیں


محترم ڈاکٹرخالد سہیل صاحب ایک عالم انسان ہیں اور ان کی تحاریر کا مطالعہ شوق سے اور گہرائی میں جا کر کیا جاتا ہے۔ انہوں نے اپنے تازہ مضمون کا عنوان رکھا ہے

کیا آپ محبت کا راز جانتے ہیں؟

پھر اس کے جواب میں یہ مضمون تحریر کیا ہے۔ ظاہر ہے وہ محبت کو سمجھنے کے لئے اس کی تعریف اپنے نظریہ کے مطابق ہی متعین بھی کریں گے۔ اگرچہ انہوں نے مثالیں دے کر اس کی کسی حد تک وضاحت تو کی ہے لیکن ان کی یہ تحریر صرف ایک پہلو کا احاطہ کرتی ہے۔ یہ ایک ایسا موضوع ہے جس پر دنیا بھر کے اور ہر تہذیب کے لوگوں نے اپنے اپنے انداز میں بیان کیا ہے اور رہتی دنیا تک بیان کیا جاتا رہے گا۔

سب سے پہلے اگر یہ طے کر لیا جائے کہ محبت کے لئے ایک محبت کرنے والا اور ایک جس سے محبت کی جائے۔ یعنی دونوں کا ہونا ضروری ہے۔ محبت کو مزید سمجھنے کے لئے اس کی مُحب اور محبوب کے باہمی تعلق کے حوالے سے کچھ اقسام بھی ممکن ہیں۔ مثلاً ایک محب اور محبوب کا تعلق برابری کا ہو اور دونوں ایک دوسرے کو برابر چاہتے ہوں۔ دوسرا تعلق یہ بھی ممکن ہے کہ ایک مُحب تو شدّت سے چاہتا ہو لیکن محبوب لا اُبالی ہو۔ یہ بھی ممکن ہے کہ محبوب کے لئے مُحب قربانی کرے اور کرتا ہی چلا جائے بے شک محبوب اس کا شکریہ بھی اد ا نہ کرے ( اس کی بہترین مثال انور مسعود کی حقیقیت پر مبنی نظم امبڑی ہے )۔ غرض اس باہمی تعلق میں اصل انحصار محبت کے بندھن کی گرفت پر ہے۔ وہ خواہ محبوب کو باندھ سکے یا نہ لیکن محب کو ہر صورت میں مجبور کر کے رکھتی ہے۔

ایک دوسرے پہلو سے محبت کو کئی اقسام میں بیان کیا جا سکتا ہے۔ مثلاً خالق کی اپنی تخلیق سے محبت۔ اس میں ماں بھی شامل ہے اور ایک فنکار کے لئے اس کی پینٹنگز یا شاعر کے لئے اپنا کلام وغیرہ شامل ہیں۔ جو خدا کو خالق مانتے ہیں وہ اس کی محبت اپنے دلوں میں محسوس کر کے اس کا انعکاس اپنے نیک اعمال میں ظاہر کر کے جواباً محبت کے دعویدار بن جاتے ہیں۔ ایک قسم محبت کی یہ بھی ہے جس میں انسان اپنی تسکین کے لئے کسی دوسرے کی ضرورت محسوس کرتا ہے۔ اور اپنی تسکین کی خاطر بعض دفعہ دوسرے کی ضرورت بن کر باہم دیگر مُحب بن جاتے ہیں۔

جن لوگوں کی اولاد ہے وہ اس سے پیار کرتے ہیں۔ جب ان کا بچہ دو تین سال کا ہو تو اس کی ہر توتلی بات دل کو بھاتی ہے اور وہی زبان کا حصّہ بھی بن جاتی ہے۔ وہی والدین اس بچے کے وجود میں آنے سے پہلے اس کا تصوّر کرکے اپنی اس ہونے والے سے محبت کا نہ اندازہ کر سکتے ہیں نہ ہی اظہار۔ گویا محبت ایک نمو پذیر کیفیت بھی ہے۔ انسانی محبت کا یہ پہلو باقی جانداروں کی نسبت زیادہ گہرا ہے۔ اور یہ ایک تہذیبی قدروں کا ارتقاء ہے جس کو محدود نہیں جا سکتا ہاں میسّر حالات سے حظ اٹھایا جاسکتا ہے۔

عرفِ عام میں محبت کسی انسان کا اپنی اشتہاء کی تسکین کے لئے ضرورت پورا کرنے والی شے یا جاندار کی طرف رجوع کرنا ہے۔ اس محبت میں محبوب کا محب کے ساتھ سلوک حسبِ ضرورت ہوتا ہے۔ مثلاً تخلیقی عمل کے بعد جانداروں میں سے اکثر نر مادہ سے کوئی تعلق نہیں رکھتا اور بعض جاندار ہیں جن میں یہ رائج ہے کہ تخلیق کے لئے جنسیاتی عمل کے بعد مادہ نر کو کھا جاتی ہے۔

انسان نے اپنے شعور میں سابقہ تجربات کی روشنی میں کچھ قدریں تخلیق کی ہیں اور بار بار کے تجربے نے ان کی صداقت کو مستحکم کیا ہے۔ ان میں سے سب سے پہلی وفا ہے۔ جس کا ذکر انسانوں کے باہمی تعلقات سے لے کر کسی دکاندار سے لگاتار سودا خریدنے تک ہے۔ جو بھی ہو وفا کو بہر حال ایک مشترکہ اور قابل احترام قدر شمار کیا جاتا ہے۔ شعراء نے اس پر بھی بڑی مغز ماری کی ہے۔ اس دور میں جو اِس طرح کی انسانی قدروں کی بے قدری کا دور لگتا ہے اور بظاہرایک علمی انداز میں ہلہ بول دیا گیا ہے یہ قدریں پھر بھی انسان کو اپنی حفاظت کے لئے مجبور کرتی دکھائی دیتی ہیں۔

انہی قدروں کو کبھی سیاست اور کبھی مذہب کے نام پر پیش کیا جاتا ہے تو کبھی انسانیت کے نام پر۔ اب وفا اور محبت دونوں کو یکجا کر کے جائزہ لیں تو ایک درجہ بلند ان کا دکھائی دیتا ہے۔ جوں جوں انسان وفا کے ساتھ محبت میں قدم آگے بڑھاتا ہے تو ایک مرحلہ پر جا کر محبوب یا معشوق اُلٹا عاشق بن جاتا ہے۔ وفا کی شرط کے ساتھ اس کی بے شمار دنیوی مثالیں بھی دی جا سکتی ہیں اور جو مذہبی ہیں ان کے ہاں تو اس کا ایک بہت بڑا ذخیرہ موجود ہے۔ ایک شعر یاد آگیا ہے

وفا میری شہرت تجھ سے نہیں بر عکس ہے قصّہ
تیری ہستی تو مجھ سے ہے نہ میں ہوتا نہ تو ہوتی

ایک ڈاکٹر صاحب کی پریکٹس میں انتظار گاہ میں پڑے رسالے کی ورق گرادنی کرتے۔ ”پہلی نظر میں محبت“ کے زیرِ عنوان ایک مضمون پر نظر پڑی۔ اگلی سطر میں تحریر تھا۔ ”یہ اس کی چوتھی شادی ہے۔“ تو یہ جان کر احساس ہوا کہ محبت اس پہلو سے وفاداری کے عنصر کی شمولیت کے بغیر فقط ایک موسمی کیفیت کا نام ہے۔

جہاں تک اس محبت کا تعلق ہے جو وفاداری کا عنصر اپنے اندر رکھتی ہو اور محض حظ اٹھانے تک محدود نہ ہو بلکہ بوقتِ ضرورت سب کچھ محبوب پر فدا کرنے کو روا رکھتی ہو تو ڈاکٹر صاحب کے سوال کا جواب عرض ہے۔
جی ہاں ہم محبت کا راز بخوبی جانتے ہیں۔
ہمارے نزدیک

عِشق ہے جس سے ہوں طے یہ سارے جنگل پُر خطر
عِشق ہے جو سر جھکا دے زیرِ تیغِ آبدار

کوئی رہ نزدیک تر راہِ محبت سے نہیں
طے کریں اس راہ سے سالک ہزاروں دشتِ خار

اس لیے کہ

تِیر تاثیرِ محبت کا خطا جاتا نہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).