ارتقا گول چکر سے نکلنے کا نام ہے


لفظ سیاسی منتر پہلی دفعہ 2007 میں ظفراللہ خان صاحب سے سنا۔ خان صاحب حال ہی میں پاکستان انسٹیوٹ آف پارلیمنٹری سروسز کی سربراہی سے سبکدوش ہوئے ہیں اور ایک ادارہ سینٹر فار سوک ایجوکیشن ایک عرصہ سے اسلام آباد میں چلا رہے ہیں۔ ان کی دھیمی اور مسحور کن آواز آج بھی سماعتوں سے ٹکراتی ہے۔ مفہوم پیشِ خدمت ہے۔ ”جمہوری حکومتیں گرانے کے لیے تین منتر تواتر کے ساتھ دہرائے گئے۔ دھاندلی زدہ مینڈیٹ، نا اہلی اور کرپشن۔ منتخب حکومتوں کا وقت پورا نہ کرنا اس ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ہے یہ تینوں منتر فقط حکومتیں گرانے کے لیے استعمال ہوئے ان منتروں کی آڑ میں حکومتیں گرانے والوں نے کبھی بھی شفاف انتخابات کروائے، نہ تجربہ کار اور شفاف حکومت لے کر آئے۔“ یہ بات میثاق جمہوریت کے اگلے سال ہی انہوں نے کی تھی۔ میثاق جمہوریت نے سیاسی نظام کے تسلسل کو یقینی بنانے کی ٹھانی۔ جس کے نتیجے میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے پانچ سالہ ادوار مکمل ہوئے۔

مگر اس دوران عمران خان صاحب آلہ کار بن کر وہی پرانے منتر دہرانے والے گائک بنے۔ نومنتخب حکومت کے خلاف 2013 میں پہلے دھاندلی کا رولا ڈالا، پھر احتساب اور کرپشن کا شور مچایا اور ساتھ ہی ساتھ حکومت کو بدترین نا اھل حکومت قرار دینے کی بنیاد پر پورے پانچ سال حکومت اور وزیراعظم سے استعفے کا مطالبہ بھی کرتے رہے۔ میرے خیال میں ان تین سیاسی منتروں کے ساتھ دو عدد گریبی والے منتر (مذہبی اور غدار) بھی ہلکی پھلکی دھن پر گائے جاتے رہے۔ خان صاحب نے یہ دو منتر بھی جہاں موقع ملا لگا دیے۔

اس کے برعکس مسلم لیگ، پیپلز پارٹی اور ان کے ساتھ جمیعت علماء اسلام نے بھی ان منتروں کو پرانا راگ کہا۔ ان کو مسترد کیا۔ ملک کی معیشت کے لیے زہر قاتل تک کہا۔ گویا یہ تینوں جماعتیں ماضی سے سیکھ کر حکومتیں گرانے والے قبیح عمل کی تباہ کاریوں سے آگاہ ہو گئیں تھیں۔ اور ارشاد فرماتی تھیں منتخب حکومت اور منتخب وزیراعظم کے خلاف سازش ملک کے خلاف سازش ہے۔ احتساب پانچ سال بعد قوم خودکرے گی۔ چند ہزار لوگ سڑکوں پر لانے سے عوامی مینڈیٹ پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اور یہ روایات درست بھی نہیں۔ یہاں مستقبل میں کوئی بھی چند ہزار لوگ لاکر کسی بھی حکومت کے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر سکتا ہے جوملک کو سیاسی غیر یقینی اور معاشی عدم استحکام کا باعث بنے گا۔

آج احسن اقبال نے نجی ٹی وی کے پروگرام میں وزیراعظم عمران خان سے مستعفی ہو کر نئے انتخابات کا مطالبہ کر دیا ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ مولانا فضل الرحمان صاحب سب سے زیادہ غصے میں نظر آ رہے ہیں اور انہوں نے اکتوبر میں اسلام آباد پر چڑھائی کی تاریخ بھی دے رکھی ہے۔ گویا وہ بھی اس ’نا اہل‘ حکومت کو اور ’سلیکٹڈ‘ وزیراعظم کو ماننے کے لیے تیار نہیں۔

یہاں کچھ سوالات پیدا ہوتے ہیں :

پہلا سوال یہ ہے کہ دھاندلی، نا اہلی اور کرپشن کی آڑ میں حکومتیں گرانے کا کام اپوزیشن میں ہوتے ہوئے حلال اور حکومت میں ہوتے ہوئے حرام کیسے؟

دوسرا یہ کہ کیا اس افراتفری کے نتیجے میں معاشی بہتری کے امکانات ہیں یا حالات مزید ابتر ہوں گے؟

تیسرا یہ کہ اپوزیشن کے پاس کون سی جادو کی چھڑی ہے جس سے وہ نئے انتخابات کروا کر عام آدمی کی زندگی میں بہتری لاسکیں گے۔

چوتھا یہ کہ آپ کے ان نعروں پر کیسے یقین کیا جائے کہ منتخب وزیراعظم اور منتخب حکومت کو وقت پورا کرنے دو جب آپ خود ایک سال کے اندر اندر ایک منتخب حکومت اور ایک منتخب وزیراعظم کو گرانے کے الٹ کھیل کے لیے اکٹھے ہو رہے ہیں۔

تاریخ کی سمت ایک ہی صورت میں درست ہو سکتی تھی۔ خان صاحب منتخب حکومت کے خلاف پانچ سال افراتفری پھیلانے اور احتجاج کرنے پر قوم سے معافی مانگیں اور مسلم لیگ، پیپلزپارٹی اور جمیعت علماء اسلام خان کی حکومت سے ہر طرح کے اختلافات و خدشات کے باوجود کہیں کہ آپ پانچ سال پورے کریں ہم تمام سوالات پارلیمانی طور پر پیش کر کے اپنا موقف قوم کے سامنے رکھیں گے۔ تب ہی ایک صحتمند ارتقاء ممکن ہوتا مگر شاید ہمارے نصیب میں گول چکر میں گھومنا ہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).